سقوطِ ڈھاکہ کے چار دن بعد یعنی 20 دسمبر 1971ء کو جب جنرل یحییٰ خان نے صدرِ مملکت کے طور پر عہدے سے استعفا دیا، تو ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے نئے صدر بن گئے۔ صدر بننے کے بعد بھٹو 27 دسمبر 1971ء کو “سہالہ گیسٹ ہاؤس” میں شیخ مجیب الرحمان سے ملنے گئے۔ اس ملاقات کے دوران میں انار خان (انٹیلی جنس ادارے کا ایک اہل کار جو شیخ مجیب کے نگرانی کےلیے قیدی بن گئے تھے) پردے کے پیچھے کھڑے بھٹو اور شیخ مجیب کی گفتگو سن رہے تھے۔ یہ گفتگو ٹیپ کی گئی تھی۔
بھٹو کی سوانح عمری “Pakistan’s Zulfi Bhutto: His Life and Times) میں مصنف سٹینلے ولپرٹ نے ان ٹیپس کا ذکر کیا ہے۔ “مجیب نے گفتگو کا آغاز یہ کہہ کر کیا کہ آپ یہاں کیسے پہنچے…؟ بھٹو نے جواب دیا، میں اب پاکستان کا صدر اور چیف مارشل ہوں، میں ایک لا ایڈمنسٹریٹر ہوں۔”
شیخ مجیب نے کہا، مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی لیکن یہ بتاؤ کہ بنگال کا کیا حال ہے.. ؟ میں وہاں کے بارے میں بہت پریشان ہوں۔”
جب بھٹو نے مجیب سے کہا کہ ڈھاکا پر انڈیا کی افواج کا قبضہ ہے، تو مجیب نے کہا کہ “انہوں نے ہمیں مار دیا ہے، آپ مجھے ڈھاکا جانے دیں، آپ کو مجھ سے وعدہ کرنا ہوگا کہ اگر انڈینز نے مجھے جیل میں ڈالا، تو آپ کو میری لڑائیاں لڑنی ہوں گی۔” بھٹو نے وعدہ کیا: “مجیب ہم مل کر لڑیں گے۔”
سٹینلے والپرٹ پھر لکھتے ہیں کہ مجیب جانتے تھے کہ وہ بھٹو جیسے چالاک آدمی کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس کا ہر لفظ ٹیپ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ڈھاکا جانے دو اور معاملات کو سنبھالنے دو۔ میرا یقین کرو، میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ انڈین فوج وہاں پہنچے۔”
بھٹو نے کہا کہ مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے، اسی لیے میں نے آپ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر بھٹو نے مجیب کو اپنی دلی خواہش بتائی، مجیب بھائی، کیا کوئی امکان ہے کہ ہم اب بھی ساتھ رہ سکیں…؟ ڈھاکہ میں میرے لوگوں سے بات کریں اور پھر اس بارے میں بتائیں۔”
اس کے بعد شیخ مجیب 11 دن تک مسلسل غیر یقینی کی کیفیت میں رہے۔ اس دوران میں بھٹو کئی بار ان سے ملے۔ سٹینلے ولپرٹ لکھتے ہیں کہ بھٹو نے مجیب کو یاد دلایا کہ 27 تاریخ کو ہماری ملاقات میں، آپ نے دو یا تین کام اکٹھے کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ دفاع، خارجہ امور اور کرنسی، مجیب نے جلدی سے جواب دیا، لیکن اس کے لیے آپ کو مجھے پہلے ڈھاکا جانے کی اجازت دینی ہوگی۔
بھٹو نے ایک اور چال چلی اور کہا کہ آپ صدر، وزیرِ اعظم، جو بھی عہدہ چاہو لے لو، میں سیاست سے ریٹائر ہو جاؤں گا۔
بنگلہ دیش کے سابق وزیرِ خارجہ کمال حسین شیخ مجیب اور بھٹو کے درمیان جاری اس مشاورت کی ایک اور تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھٹو آخری دم تک پاکستان کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کے تعلقات کے لیے دباؤ ڈالتے رہے، جس دن شیخ کو رہا کیا جانا تھا اور وہ لندن جانے والے تھے، تو بھٹو نے کہا کہ وہ ایک دن مزید قیام کریں گے۔ اگلے دن شاہ ایران آ رہے تھے اور وہ ان سے ملنا چاہتے تھے۔ لیکن شیخ مجیب سمجھ گئے تھے کہ وہ شاہ ایران سے ان پر دباؤ ڈلوانا چاہتے ہیں۔ اس لیے شیخ مجیب نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ تجویز انہیں قبول نہیں ہے۔ اگر وہ چاہیں، تو انہیں دوبارہ جیل بھیج سکتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو چکلالہ ائیر پورٹ پر شیخ مجیب الرحمان کو لندن کےلیے رخصت کرتے ہوئے
فوٹو: ابدالؔی

بعد ازاں جنوری 1972ء میں شیخ مجیب نے “نیوز ویک” میگزین کو انٹرویو دیا جس میں انہوں نے بتایا کہ یحییٰ خان نے بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے دن انہیں قتل کرنا چاہا، لیکن بھٹو نے انہیں یہ کہہ کر بچا لیا کہ اگر ایسا ہوا، تو انڈیا نے 93 ہزار پاکستانیوں کی جانیں لے لینی ہیں۔ جنگی قیدی خطرے میں ہوں گے۔
سات جنوری 1972ء کی رات بھٹو خود راول پنڈی کے چکلالہ ہوائی اڈے پر مجیب اور کمال حسین کو دیکھنے گئے۔ بھٹو نے ایک لفظ کہے بغیر مجیب کو الوداع کیا اور مجیب بھی پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر تیزی سے جہاز کی سیڑھیاں چڑھ گئے۔ 08 جنوری 1972ء کی صبح شیخ مجیب کا طیارہ ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچا۔
شیئرکریں: