ایک دور تھا جب ہمارے ہاں محض خوانین ہی سیاست کرتے تھے۔ لیکن معاشی آسودگی اور تعلیم عام ہونے سے سیاست خوانین کے حجروں سے نکل کر عام لوگوں تک پہنچ گئی اور عام آدمی کو بھی سیاست کی سمجھ آنے لگی۔ اس ضمن میں بلدیاتی انتخابات نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
قارئین، راقم (ڈاکٹر محمد شیر علی خان) کی جنم بھومی برہ درش خیلہ کا عام انتخابات (General Elections) میں کردار 1969ء سے اُس وقت شروع ہوا، جب ریاستِ سوات کا پاکستان میں ادغام کا اعلان کردیا گیا۔
قارئین، جب دسمبر 1970ء کو پورے پاکستان (مشرقی اور مغربی) میں عام انتخابات ہوئے، تو ہمارے گاؤں سے برہ درش خیلہ سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے راہ نما اور “پختون قومی وحدت” کے علم بردار محمد افضل خان لالا نے محمد علی شاہ باچا کے مقابلے میں صوبائی نشست پر کام یابی حاصل کرتے ہوئے مخلوط کابینہ میں وزارت کا قلم دان سنبھالا۔ (1)
ملک کے دوسری عام انتخابات کے دوران میں یعنی مارچ 1977ء کو خان لالا جیل میں تھے، اس لیے ان کے بڑے بھائی محمد عالم خان (خکلے خان) دوست محمد خان کے مقابلے کےلیے میدان میں آئے، لیکن ان کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ (2)
1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں برہ درش خیلہ سے کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا۔ کیوں کہ تمام سیاسی پارٹیوں نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔ (3)
جنرل ضیاء الحق کے وفات کے بعد 1988ء میں ہونے والے عام انتخابات میں افضل خان لالا قومی اور صوبائی اسمبلی کی امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترے، پر شکست ان کا مقدر بن گئی۔ (4)
بے نظیر بھٹو کی دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد جب 1990ء کے الیکشن کا طبل بجا، تو خان لالا ایک بار پھر قومی اسمبلی کی نشست کےلیے میدان میں آئے اور اپنی نشست جیتنے میں کام یاب ہوئے۔ (5)
جب نواز شریف کی پہلی حکومت ختم ہوئی، تو 1993ء میں ایک بار پھر عام انتخابات کا دنگل سج گیا۔ اس الیکشن میں خان لالا ایک مرتبہ پھر مردِ میدان رہے۔ قومی اسمبلی کی نشست پر کام یابی کے بعد بے نظیر بھٹو کی دوسری دورِ حکومت میں “امور کشمیر اور شمالی علاقہ جات” کا قلم دان سنبھال کر سوات سے پہلے وفاقی وزیر بننے کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔ (6)
 1997ء کو ہونے والے عام انتخابات میں افضل خان لالا نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی۔ اس لیے برہ درش خیلہ سے ان کا بھتیجا عبدالجبارخان اور خیرالحکیم حکیم زئی صاحب میدان میں اترے، پر دونوں کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ (7)
قارئین، ساجد علی خان ابو تلتاند کے مطابق برہ درش خیلہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ خوانین کے مقابلے میں ایک عام شخص میدان میں اترا۔
2002ء کے عام انتخابات میں ہمارے گاؤں سے کرنل (ر) عبدالغفار خان اور بدرالحکیم حکیم زئی دونوں صوبائی اسمبلی کی نشست پر مقابلے کے لیے میدان میں آئے، لیکن دونوں کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ کیوں کہ یہ معرکہ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے نام زد امیدواروں ڈاکٹر فضل سبحان اور قاری محمود نے سر کیا۔ (8)
قارئین، 2008ء کے عام انتخابات میں حالات کی خرابی آڑے آئی، اس لیے ہمارے گاؤں برہ درش خیلہ سے کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا۔ البتہ، ایوب خان اشاڑی صوبائی جب کہ سید علاو الدین باچا قومی اسمبلی کی نشست پر کام یاب قرار پائے۔ (9)
اسی طرح مئی 2013ء کے جنرل الیکشن میں گاؤں کے خوانین میدان میں نہیں آئے، لیکن عام شخصیات جن میں حاجی تل حیات خان،  مولانا رشید احمد اور فضل کریم افگار میدان میں آئے، پر تینوں کو شکست ہوئی۔ (10)
25 جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات میں افضل خان لالا کے فرزند اور اے این پی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل بریگیڈیر ریٹائرڈ ڈاکٹر محمد سلیم خان اور قومی وطن پارٹی کے حاجی تل حیات قومی اسمبلی کے سیٹ پر مد مقابل تھے۔ لیکن دونوں کام یاب نہ ہوسکے۔ (11)
08 فروری 2024ء کو ہونے والے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر عوامی نیشنل پارٹی سے بریگیڈیر سلیم خان جب کہ قومی وطن پارٹی سے ڈاکٹر جاوید اقبال اور محمد علی شاہ ایڈوکیٹ آزاد حیثیت سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر میدان میں آئے، پر یہ معرکہ تحریک انصاف کے حمایتِ یافتہ آزاد امیدوار صوبائی اسمبلی محمد نعیم اور قومی اسمبلی پر سہیل سلطان جیت گئے۔ جب کہ اے این پی کے ڈاکٹر سلیم دوسری پوزیشن حاصل کرنےمیں کام یاب ہوئے۔ (12)
قارئین، 1970ء سے لے کر 2024ء تک، ہمارے گاؤں سے بارہ امیدوار عام انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں، جو تحصیل مٹہ کے دیگر گاوؤں کے مقابلے میں ایک ریکارڈ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برہ درش خیلہ کے لوگ سیاست اور سیاسی داو پیچ سے پوری طرح آگاہ ہیں۔
اگر دیکھا جائے، تو سیاست صرف امیروں کا کھیل نہیں بلکہ سیاست ان لوگوں کو بھی کرنی چائیے جو ضرورت کے وقت غریبوں کی مدد کرسکیں، انہیں مصیبتوں سے نجات دلا سکیں اور ان کے تکالیف کو دور کر سکیں۔ اگر آپ خدمتِ خلق میں کام یاب ہو جاتے ہیں، تو سمجھ لیں کہ آپ ایک کام یاب سیاست دان کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔ اگر آپ خدمتِ خلق کے معنی نہیں جانتے، تو پھر خدا حافظ۔
نوٹ، حوالہ 01 تا 04 کے معلومات والد محترم ڈاکٹر محمد جلیل، حوالہ 05 تا 07 چچا کی کتاب “درش خیلہ (سوات) تہذیب کے دریچے میں” جب کہ حوالہ 08 تا 12 راقم نے اپنی ذاتی ڈائری سے لی ہیں۔
___________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو روزنامہ آزادی سوات نے آج یعنی 15 فروری 2024ء بروزِ جمعرات کو پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: