قیامِ پاکستان کے پانچ ماہ بعد یعنی 6 جنوری 1948ء کو کراچی میں بدترین “ہندوکش فسادات” ہوئے، جن میں سیکڑوں افراد زخمی اور جاں بحق ہوئے۔ جب کہ ہزاروں کی تعداد میں مقامی ہندو پاکستان سے ہندوستان کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے۔
اس پُر تشدد واقعات کی سرکاری طور پر جو وضاحت سامنے آئی، اس کے مطابق ان فسادات کے قصور وار وہ سکھ مہاجرین تھے جو صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) سے آئے تھے اور کراچی کی بندر گاہ سے بحری جہازوں کے ذریعے بھارت جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے شہر میں اپنی کرپانیں لہراتے ہوئے نعرہ بازی کی جس سے کراچی میں آنے والے بڑی تعداد میں ہندوستانی مسلمان مہاجرین مشتعل ہوئے جس کی وجہ سے یہ خونی فسادات ہوئے۔
اسی طرح غیر سرکاری حقائق کے مطابق تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے فسادات سے صوبہ سندھ محفوظ تھا۔ لیکن بڑی تعداد میں کراچی میں ہندوستانی مہاجروں کی آمد نے نہ صرف مسلمان سندھیوں سے تعلقات میں کشیدگی پیدا کی، بلکہ غیر مسلم سندھیوں کو جان بوجھ کر ان کے گھروں سے بے دخل کر کے ان کی جائیدادوں پر زبردستی قبضے کئے گئے، جن سے فسادات کو مزید ہوا ملی۔ صاحبِ ثروت ہندوؤں کو خاص طور پر لوٹ مار کے بعد ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ حالاں کہ تھر کے علاقے میں ہندوؤں کی اکثریت تھی لیکن وہ غریب اورمحکوم تھے، اس لیے ان کےجان و مال محفوظ رہے۔
شیئرکریں: