خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کا نام سنتے ہی زیادہ تر لوگوں کے دل و دماغ میں اُن کے بارے غدار اور پاکستان دشمن کردار سامنے آجاتا ہے، جو سراسر غلط، من گھڑت، تاریخ سے نا آشنائی اور دُشمنی پر مبنی سوچ ہے۔ کیوں کہ ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت گرانے کے باوجود باچا خان مسلم لیگ کے ساتھ چلنے کو تیار تھے۔ اُنہوں نے مسلم لیگی قیادت سے رابطے کیے اور فروری 1948ء میں قائدِ اعظم محمد علی جناح سے کراچی میں ملاقات بھی کی۔ اسی سال مارچ میں اُنہوں نے قانون ساز اسمبلی کا حلف بھی اُٹھایا اور ماضی کی تمام واقعات کو بھلانے سمیت پاکستان کو تسلیم کرتے ہوئے نئی حقیقت کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا اعلان کیا۔
شریف فاروق پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک کہنہ مشق صحافی تھے، لیکن عالمِ شباب سے پشاور میں مقیم تھے۔ کئی معروف اخبارات کے ایڈیٹر رہنے کے علاوہ روزنامہ ”جہاد” پشاور کے مُدیر و مالک بھی ہیں۔ آپ خیبر پختون خوا کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی حالات پر کافی گہری نظر رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی ایک کتابچے میں لکھا ہے کہ “خان عبدالغفار خان پر پاکستان دُشمنی، اسلام دُشمنی، مسلمانوں سے نفرت، نظریۂ پاکستان کی دُشمنی اور مضبوط مرکز (وفاق) کی مخالفت کے الزامات مختلف حیلوں اور بہانوں سے عائد کیے جاتے رہے ہیں، مگر تاریخ نے اپنے حتمی فیصلے سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ سب الزامات جھوٹ کا پلندہ تھے، دراصل الزامات عائد کرنے والوں کے مجرمانہ ضمیر کی صدائے باز گشت تھی۔”
مملکتِ خداداد میں باچا خان بارے یہ الزام بھی مشہور ہے کہ باچا خان کا سیاسی جُھکاؤ شخصیت کے اعتبار سے گاندھی جی کی طرف تھا اور قائدِاعظم محمد علی جناح سے نفرت اور ذاتیات کی وجہ سے دور رہتے تھے۔ حالاں کہ باچا خان اس بات کا خود اعتراف کرچکے ہیں کہ جب 1929ء میں اُنہوں نے خدائی خدمت گار تحریک کی بنیاد رکھی، تو سب سے پہلے دستِ تعاؤن مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی طرف بڑھایا۔ مگر بعد میں اُن کی غیر سنجیدگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے خدائی خدمت گاروں نے کانگرس سے الحاق کا فیصلہ کرلیا۔
قارئین! محمد علی جناح اور باچا خان کی ملاقات پاکستان اور قائدِاعظم سے رشتہ اور تعلق کی نوعیت بالکل صاف اور واضح کر دیتی ہے جو کچھ یوں ہے:
اگر باچا خان چاہتے، تو وہ ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کے حسبِ سابق رُکن رہ سکتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے 23 فروری 1948ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہلی مرتبہ شرکت کرتے ہوئے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں بطورِ رکن رہنے کو ترجیح دی اور وطنِ عزیز سے وفاداری کا حلف اُٹھایا، جس پر قائدِاعظم خوش ہوتے ہوئے باچا خان کو چائے پر مدعو کیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملکی مفادات پر تفصیلی گفتگو ہوئی، ماضی کی شکر رنجیاں اور چشمک کا دور لد گیا۔ جس کی واضح مثال قائدِ اعظم کا مسرور ہونا اور بِلا تکلف کہنا تھا کہ “آج میرا پاکستان کا خواب پورا ہوا۔”
جب کہ مذکورہ ملاقات بارے باچا خان کچھ یوں لکھتے ہیں: “قائدِاعظم بڑے تپاک اور گرم جوشی سے ملے، مصافحہ کیا اور خلافِ معمول معانقہ بھی۔ واپسی پر گاڑی چھوڑنے آئے، اپنے ہاتھ سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور گاڑی کی روانگی تک کھڑے رہے۔”
قائدِ اعظم کے حسنِ اخلاق سے باچا خان کافی حد تک متاثر ہوئے۔ اس ملاقات کی کامیابی اور اس پر خوشی کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ قائد ِاعظم نے مزید گفت و شنید کےلیے اُنہیں اگلے ہی روز کھانے پر مدعو کیا۔ کھانے کے بعد قائدِاعظم باچا خان کو ایک علاحدہ کمرے میں لے گئے جہاں ایک گھنٹے تک دونوں رہنماؤں کے درمیان پاکستان کے مستقبل بارے تفصیلی بات چیت ہوئی۔
قائدِاعظم نے باچا خان سے پوچھا کہ اب آپ کا کیا پروگرام ہے ۔۔۔؟ باچا خان نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اب اگرچہ آزادی حاصل ہوچکی ہے، لہٰذا میں خدائی خدمت گار تحریک کا پُرانا اصلاحی پروگرام از سرنو شروع کرانا چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ باچا خان نے بابائے قوم کو خدائی خدمت گار تحریک کے اغراض و مقاصد بیان کیے اور واضح کیا کہ انگریزوں نے کس طرح اس سماجی تحریک کا رُخ سیاست کی طرف موڑا تھا، جسے سُن کر قائدِاعظم اپنی نشست سے بڑے پُرجوش انداز میں اُٹھ کر کھڑے ہوئے اور خلافِ عادت ان کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا کہ ایسے کام کےلیے میں بھی آپ کی ہر ممکن مدد کروں گا۔ جس پر باچا خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے محض آپ کے اعتماد اور اخلاقی مدد کی ضرورت ہیں۔ قائدِاعظم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں وطنِ عزیز کا آئینی سربراہ ہوں۔ میری نظر میں سب جماعتیں یکساں حیثیت رکھتی ہیں۔
قارئین! مذکورہ ملاقات سے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی خوش گوار صورتِ حال پیدا ہونے کے امکانات روشن ہوئے تھے، کیوں کہ باچا خان نے قائدِاعظم کو صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) کا دورہ کرنے کی دعوت دی جس کو اُنہوں نے خوش اسلوبی سے قبول کیا۔ مگر بدقسمتی سے اُس وقت وطنِ عزیز پاکستان پر مفاد پرست ٹولہ مسلط تھا، اس لیے اُن کا مستقبل تاریک ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کے مفادات کو براہِ راست ٹھیس بھی پہنچ رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سازشی ٹولے نے سازشوں کے جال بچھانا شروع کرتے ہوئے باچا خان سمیت ان کے جماعت کو پاکستان مخالف اور غدار ٹھہرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اُن کے ساتھ ایسا ناروا سلوک اور رویہ اپنایا گیا اور ایسے مظالم ڈھائے گئے جو کہ ہمیشہ کےلیے تاریخ کے چہرے پر بدنُما داغ رہے گی۔
شیئرکریں: