☆ دیر: عربی زبان میں “دیر” نام کے معنی خانقاہ کے ہیں۔ بدھ مت دور میں دریائے پنج کور کے کنارے ہزاروں کی تعداد میں خانقاہیں تھیں جہاں راہب مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ جب 327 قبل مسیح میں سکندر یونان سے اس علاقے پر یلغار کرنے کے عرض سے آیا، تو اُن کے ساتھ یونانی مؤرخین نے اس علاقے کو “گورائن” یا “مساگا” کے نام سے یاد کیا. مُغل مؤرخین جو بابر کے ساتھ اس علاقے میں آئے، اُنہوں نے اپنی یاداشتوں میں اس علاقے کو “یاغستان” کے نام سے یاد کیا ہے۔ مؤرخ مرزا محمد حسن کے مطابق سولہویں صدی میں اس علاقے کو “بلورستان” بھی کہا جاتا تھا۔ جب کہ پروفیسر جمیل یوسف زئی لکھتے ہیں کہ “بُدھ مت کے عروج کے وقت دریائے پنجکوڑہ کے کنارے سیکڑوں خانقاہیں تھیں جہاں بُدھ مت کے پیروکار عبادت کرتے تھے۔ عربی زبان میں لفظ “دیر” کے معنی خانقاہ کے ہے اور شاید اسی وجہ سے یہ علاقہ “دیر” کے نام سے مشہور ہوا ہو۔ دسویں صدی سے پندرھویں صدی عیسوی تک دیر پر کوہستانی کافروں کی حکومت رہی۔ اُن کے دور میں یہ علاقہ کافرستان کے نام سے مشہور تھا۔
☆ چکدرہ: یہ نام “چکر دھارا” سے ماخوذ ہے۔ پروفیسر احمد حسن دانی کے مطابق “چکدرہ” نام اصل میں “چکرا دھارا” سے ماخوذ ہے جو “دیوتا ویشنو” کے نام میں سے ایک نام ہے۔ جب کہ ایک نظریہ یہ بیان کرتا ہے کہ زمانۂ قدیم میں یہاں “چکس” نامی قوم آباد تھی جن کی سکونت کی وجہ سے یہ “چکدرہ” کے نام سے مشہور ہوا۔
اسی طرح یہاں کے مقامی لوگوں کے مطابق “چکدرہ” نام اصل میں “چاک درہ” ہے جس کے معنی ٹیکس وصول کرنے کے راستے کے ہیں۔ ممکن ہے نوابی دور میں یہاں دریائے سوات پر موجود پُل کو جب لوگ پار کرتے اور دیر، باجوڑ یا چترال کی طرف جاتے، تو اُن سے ٹیکس وصول کیا جاتا۔
☆ اُوچ: اُوچ کا لفظی معنیٰ “نگینہ کا گھر” کے ہیں۔ کیوں کہ یہ علاقہ پہاڑوں کے بیچ میں واقع ہے اسی وجہ سے اس کا نام اُوچ پڑ گیا۔ اکثریت کے مطابق اوچ کے جنوب میں واقع ورسک اور گل آباد کا علاقہ ہے۔ قدیم زمانے میں یہاں پر دریا بہتا تھا۔
☆ تالاش: یہ نام سفید ہنوں کے ایک قبیلے کا نام ہے۔ یاد رہے ملاکنڈ دیر میں سفید ہن 455 تا 555 عیسوی تک چھائے رہے اور انہی ہنوں نے دیر سوات اور ملاکنڈ میں بدھ مت دور کے خانقاہوں کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا تھا۔
☆ تیمرگرہ: مقامی لوگوں کے مطابق جب امیر تیمور ہندوستان پر حملہ کرنے کی غرض سے جا رہا تھا، تو اس کا گذر اِس علاقے سے ہوا اور يہاں امیر تیمور نے اپنی فوجوں کے آرام و سکون کے لیے پڑاؤ ڈالا تھا۔ اس وجہ سے اس علاقے کا نام “تیمور گرہ” پڑ گیا جو کے بعد میں رفتہ رفتہ تبدیلی کی وجہ سے تیمرگرہ بن گیا۔ جب کہ دوسرا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امیر تیمور ترک النسل تھا، اسی وجہ سے فارسی میں “تیمور” کو “تیمر” بولا جاتا تھا۔
☆ جندول: وادئ جندول کی وجۂ تسمیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے جندول پہلے “جنڈ اول” کہلاتا تھا جو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی فوج ہے۔ جندول کی سرزمین پر مختلف اوقات میں کئی قوموں اور فوجوں کے درمیان لاتعداد لڑائیاں لڑی گئی ہیں، اسی وجہ سے اس علاقے کا نام “جنڈ اول” پڑ گیا جو بعد میں “جندول” میں تبدیل ہوا۔
☆ خال: ڈاکٹر زاہد شاہ کے مطابق خال عربی اور اردو زبان کا مذکر لفظ ہے۔ اس کے چار معنی ہیں:
1۔ وہ قدرتی سیاہ نقطہ جو چہرے یا جسم پر ہوتا ہے۔ تل اور خُوَیل، خال کی اسم تصغیر ہے یعنی چھوٹا خال (جامع اللغات، 974/1)۔
2۔ کاجل کا وہ نشان جو نظر بد سے بچانے کےلیے خوب صورت یا کم سن بچوں کے چہرے پر لگاتے ہیں۔
3۔ دو رنگوں والا کبوتر جس میں ایک رنگ سفید ہو۔
4۔ مامو، خالو (فروز اللغات، خ ا، ص582)۔ اسے انگریزی میں A Mole on the Face کہتے ہیں (Practical Dictionary U&E, p350) استعارے کے طور خال حسن کو بھی کہا جاتا ہے۔
قارئین، اس میں شک نہیں کہ یہ علاقہ بہت خوب صورت ہے۔ دریائے پنجکوڑہ کے بلکل کنارے واقع ہے۔ لیکن تاریخ کی کتابوں میں خہل اور خیل بھی لکھا گیا اس لحاظ سے اس کا مطلب قبیلہ یا خاندان  بھی ہے۔
☆ واڑئ: واڑئ قصبہ کے نام کی وضاحت یوں ہے کہ کوہستانی زبان میں واڑے کا مطلب پانی ہے۔ اس جگہ پر پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے واڑے کہا جاتا ہے۔
☆ بیبوڑ: راقم کے خیال میں یہ نام “بید یود” سے ماخوذ ہے۔ ہندوؤں کی مقدس چار کتابوں یعنی رگ وید، جور وید، سام وید اور اتار وید کو مجموعی طور پر “بید” کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بید یود کا گاؤں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیبوڑ میں تبدیل ہوا ہو۔
☆ داروڑہ: یہ نام “دارور” یا “دراور” سے ماخوذ ہے جو ایک قدیم قوم ہے اور اس علاقے میں ان کا ظہور آرین (Arian) سے بھی پہلے ہوا تھا۔ اس کے علاوہ کوہستانی لب و لہجہ میں “دارولی” ہے جس کے معنی وہ رنگ جو قدیم زمانے میں لوگ اپنے ماتھے پر مذہبی تبرک کے طور پر لگاتے تھے۔
☆ گندیگار: میری سوچ کے مطابق یہ نام “گنڈھیر گر” ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ “گندیگار” میں تبدیل ہوا ہے۔ پس ہندی میں “گنڈ ہا گن” پارسائی کے لیے مستعمل ہے۔ مطلب “گنڈھیر گر” کا مطلب نیک اور پارسا لوگوں کا گاؤں ہے۔
☆ چکیاتن: یہ نام اصل میں “جگیہ آستین” سے ماخوذ ہے جو تین دریاؤں کا نقطہ اتصال ہے۔ یہ مقام آرین کے نزدیک بہت مقدس تھا۔
☆ براول: یہ نام “بہ راول” ہے جس کے معنی “بہتے ہوئے پانی کے علاقے” کے ہیں۔ کیوں کہ “راول” عرف عام میں پانی کے ندی کو کہتے ہے۔
☆ شرینگل: یہ نام اصل میں “شیری گل” ہے جو جناب اور احترام کے ناموں کے لیے مستعمل ہے۔ اس کے علاوہ یہ “سری گل” بھی ہوسکتا ہے جو بدھ مت اور ہندو مت کے باسیوں کے نظر میں خوش حالی اور فراخ دلی کے ایک دیوتا بت کا نام ہے۔
☆ پاتراک: دیر میں واقع “پاتراک” نامی گاؤں کا پرانا نام “راج کوٹ” تھا لیکن اخوند سالاک کی تعلیمات سے جب یہاں اسلام پھیلا، تو اس وقت یہاں ایک پتھر رکھ دیا گیا۔ پس “پتھر رکھ” کے ساتھ ہی یہ علاقہ “پاتراک” سے مشہور ہوا۔
☆ بریکوٹ: یہ نام اصل میں “بیر کوٹ” ہے جس کا مطلب “بیر کا قلعہ” ہے۔
☆ بیاڑ: یہ نام اصل میں “بیار” ہے۔ پرانے ہندی زبان میں “بیار” یا “بیر” ایک بہادر انسان کے لیے مستعمل تھا۔ سو بیاڑ کا مطلب “بہادر لوگوں کی سرزمین” ہے۔
☆ کلکوٹ: یہ نام اصل میں “کال کوٹ” سے ماخوذ ہے جس کا مطلب “کال” نامی بادشاہ کا قلعہ ہے۔
☆ لاموتی: سنسکرت زبان میں یہ نام دو الفاظ یعنی “لام” اور “اوت” کا مرکب ہے۔ “لام” کے معنی “گاؤں” اور “اوت” کے معنی “اونچائی پر موجود گاؤں” کے ہیں۔
☆ تھل: ہندی زبان میں “تھل” گہرائی کے لیے مستعمل ہے۔ یعنی “تھل” کا مطلب “گہرائی میں موجود گاؤں” کا ہے۔
☆ کمراٹ: ڈاکٹر حضرت بلال کے مطابق کمراٹ اس وادی میں بولی جانے والی زبان گاؤری کے دو الفاظ “کوئی” اور  “باٹ” کا مجموعہ ہے۔ “کوئی” کے معنی وادی یا درّہ کے ہیں ہے جب کہ “باٹ” پتھر کو کہتے ہیں۔ لیکن تغیر زمانہ کے ساتھ لفظ “کوئی باٹ” لفظ “کمراٹ” میں بدل گیا۔
بہ حوالہ، ثقافت سرحد تاریخ کے آئینے میں۔
_______________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: