قارئين، سانحۂ بابڑہ کو پختونوں کی تاریخ میں بدترین ریاستی بربریت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ویسے تو اس سے قبل بھی بہت سے واقعات رونما ہوئے ہیں مگر ان واقعات یا سانحات کا تعلق قیامِ پاکستان کے پہلے دور سے رہا۔ یعنی وہ واقعات تحریک آزادی کے دوران میں انگریز سامراج کے خلاف رونما ہوئے تھے۔ جن میں سب سے زیادہ مشہور واقعات “جلیانوالہ باغ” اور “قصہ خانی” کا رہا ہے۔ مگر یہاں جس واقعہ کا ذکر مقصود ہے اس کا تعلق قیامِ پاکستان کی پہلی سالگرہ سے ہے۔
قارئین، سانحۂ بابڑہ کو گزرے پچھتر سال بیت گئے۔ شاید ہماری ملکی سیاسی تاریخ کی کتابوں، طالب علموں یا ہمارے ملک کے بڑے بڑے مورخین، لکھاریوں اور دانش وروں کے علم میں یہ واقعہ نہ آیا ہو یا اگر آیا بھی ہو، تو اسے بیان یا رقم کرنے کی کچھ زیادہ ضرورت محسوس نہ کی گئی ہو۔ لہٰذا اپنی سیاسی تاریخ کو درست سمت پر ڈالنے کے لیے تاریخی حقائق کو اپنی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے سامنے رکھنا ہمارے لیے انتہائی ضروری ہے۔ یہ فیصلہ غیر جانب دار مورخین پر چھوڑتے ہیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے…؟ تاہم، گم راہ کن نظریات اور تاریخ قوموں کو گم راہ کر دیتی ہے۔
قارئین، پاکستان کے پورے ایک سال بعد نوزائیدہ ملک کی پہلی سالگرہ چودہ اگست کے لیے پورے ملک میں تیاریاں اور سرگرمیاں جاری تھیں کہ اس سے دو دن قبل یعنی بارہ اگست 1948ء کو چارسدہ کے مشہور گاوں بابڑہ کے مقام پر جمہوریت اور نظریۂ پاکستان کے خلاف اُس وقت کے وزیرِ اعلا قیوم خان نے جو کھیل کھیلا، اس بارے لکھی گئی اصل تاریخ، تفصیل اور عینی شاہدین کے بیانات سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارا قومی اور اجتماعی حافظہ بہت کم زور ہے کیوں کہ ہم بہت جلد بھولنے والی قوم ہیں۔ ورنہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک، اس کے آئین، قانون، اداروں اور عوام کے ساتھ کیا کیا اور کیسا کیسا سلوک نہیں کیا گیا۔ ہر نئی آنے والی سول اور فوجی آمریت سمیت ایک مخصوص طبقے نے اسلام اور جمہوریت کے نام پر قائم ریاست کو کن کن نعروں اور طور طریقوں سے لوٹا اور لوٹا جا رہا ہے۔ کس طرح آئین، قانون اور جمہوریت کے لباس اور نقابوں میں آئین، قانون اور جمہوریت کو اپنے پاوں تلے روندا…؟ مگر ہم بھول گئے ہیں اور یہی بھول کی بیماری ہماری ذہنی، سیاسی، معاشی اور اور دیگر مسائل کی اصل بنیاد ہے۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں بھی ہمیں تحریکِ آزادی کے حوالے سے اصل اور سچی تاریخ سے دور رکھا گیا ہے۔ مگر بقول شاعر:
“حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے”
جہاں تک ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ میں سانحۂ بابڑہ کا تعلق ہے، تو اس حوالے سے ہمیں ذرا اس کے پسِ منظر میں جانا ہوگا۔ اُس وقت خدائی خدمت گار تحریک کے سالار امین جان جو واقعہ کے عینی شاہد اور احتجاجی جلوس کی نگرانی کرتے تھے، لکھتے ہیں کہ؛ قیام پاکستان کے بعد جب خدائی خدمت گاروں کی حکومت (جس کا وزیرِ اعلا ڈاکٹر خان صاحب تھے) ختم کر دی اور عبدالقیوم خان نے مسلم لیگی حکومت بنائی، تو چوں کہ اسے صوبے کے عوام کا اعتماد حاصل نہیں تھا اور خان عبدالغفارخان کی لیڈری کے سامنے اس کا چراغ جلنا مشکل تھا۔ اس لیے اس نے خدائی خدمت گاروں کو کچلنے کا تہیہ کرلیا۔ سب سے پہلا کام اس نے یہ کیا کہ قائدِ اعظم جو “خان برادران” کو اپنانے کے خواہش مند تھے اور خان عبدالغفار خان سے ان کے مرکزِ عالیہ سردریاب میں ملاقات کا وعدہ بھی کر چکے تھے، انہیں یہ فریب دینے میں کام یاب ہو گیا کہ غفار خان نے ملاقات کے بہانے آپ کو اپنے گاؤں میں قتل کرنے کی سازش تیار کر رکھی ہے۔ چنانچہ قائدِ اعظم نے فریب میں آکر اس پروگرام کو ترک کردیا۔ کیوں کہ عبدالقیوم جانتا تھا کہ اگر غفار خان سے قائدِ اعظم نے کوئی سمجھوتہ کر لیا، تو سرحد میں اس کے برسرِ اقتدار آنے کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔ یہ مرحلہ ختم ہوا اور قیوم خان نے وزارت بنالی۔ پھر اسے خدشہ تھا کہ عوام کی اکثریت غفار خان کے ساتھ ہے اور اس کی وزارت زیادہ دن نہیں چل سکے گی۔ لہٰذا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خدائی خدمت گاروں کو ختم کرنے کے لیے اس نے اس جماعت کے تمام سربراہوں کو جن میں غفار خان، ڈاکٹر خان صاحب، قاضی عطاء اللہ خان، امیر محمد خان ہوتی اور کئی دوسرے راہ نما شامل تھے، گرفتار کر کے جیلوں میں بند کردیے۔ انہی گرفتاریوں کے خلاف ایک پُرامن احتجاجی جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔”
قارئین، برسرِ آمدم، قائدِ اعظم اور باچا خان کے مابین دوریاں کس نے اور کیوں کر پیدا کیں…؟ اس کے لیے فاروق قریشی کے تفصیلی مقدمہ کے ساتھ خان قیوم ہی کی اپنی کتاب “گولڈ اینڈ گنز” کے نئے ایڈیشن کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے جو بالکل ایک تاریخی سچائی ہے کہ خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان اور ان کے ساتھیوں یعنی خدائی خدمت گاروں نے اس نئے ملک کی بنیاد رکھتے وقت اس کے بنائے گئے نقشے اور حدود پر سخت اعتراض کیا تھا کہ اس قسم کی طرزِ تعمیر سے یہ گھر لمبے عرصے تک محفوظ نہیں رہ سکتا (جس کا نتیجہ 24 سال بعد مشرقی پاکستان کی صورت میں نکل بھی آیا) مگر اُس وقت کسی نے بھی باچا خان کی بات نہیں مانی۔
اگرچہ خدائی خدمت گار تحریک اُس وقت کانگریس کا حصہ تھی اور تقسیم کے وقت کانگریس نے بھی باچا خان کے ساتھ بڑی بے وفائی کی۔ جس کا تفصیلی ذکر انہوں نے اپنی خود نوشت “میری زندگی اور جد و جہد” میں کیا ہے کہ ہمیں مسلم لیگ کی جانب سے سخت اور کڑوے انکار نے مجبوراً کانگریس کی جھولی میں ڈال دیا۔ پھر کانگریس نے بھی تقسیمِ ہند کے عین موقع پر ہمارے ساتھ بہت بڑا دھوکا کیا۔ بہر حال یہ ایک الگ تفصیل کا متقاضی موضوع ہے۔ تاہم اگر کوئی جاننا چاہتا ہے، تو اس حوالے سے اب ڈھیر سارے تاریخی مواد موجود ہے۔
قارئین، قیامِ پاکستان کے ٹھیک ایک ہفتے بعد 22 اگست کو ایک خصوصی حکم نامے کے ذریعے باچا خان کی قیادت میں برسرِ اقتدار آنے والی صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) میں خدائی خدمت گاروں کی بنائی ہوئی جمہوری اور آئینی حکومت (جس کے وزیرِ اعلا باچا خان کے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب تھے) کو غیر آئینی اور غیر جمہوری طریقے سے چلتا کر دیا اور ڈاکٹر خان صاحب کی جگہ ایک لاڈلے قیوم خان کو مسندِ اقتدار پر بٹھا دیا گیا۔ گو کہ وہ بھی ایک زمانے میں کانگریس کے فعال رُکن تھے اور اس حوالے سے ایک کتاب “گولڈ اینڈ گنز” بھی لکھی ہے۔ اس کے باوجود کہ قیوم خان کے پاس صوبائی اسمبلی میں اکثریت نہیں تھی مگر اسلام، آئین اور جمہوریت کے دعوے دار نوزائیدہ ملک کی مقتدر قوتوں نے پھر بھی اس نئے تعمیر شدہ “گھر” میں خدائی خدمت گاروں کی ایک جمہوری اور آئینی طریقے سے جیتنے اور بنانے والی اور اکثریت رکھنے والی حکومت ان سے غیر جمہوری اور غیر آئینی طریقے سے چھین کر قیوم خان کی جھولی میں ڈال دی۔
بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ اس ملک کی اصل تاریخ سے نابلد لوگ آج بھی باچا خان اور ان کے ساتھیوں خدائی خدمت گاروں کو اس ملک کے دشمن، غدار اور تخریب کار سمجھتے ہیں۔ جن قوتوں نے پہلے ہی دنوں میں اس نئے وجود میں آنے والے ملک کی بنیادوں کو کم زور اور تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے، وہ اس کے مامے، چاچے، معمار، وفا دار اور رکھوالے مانے جاتے ہیں۔ بقولِ شاعر:
ہم آہ بھی کرتے ہیں، تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں، تو چرچا نہیں ہوتا
اس میں قصور وار “مطالعۂ پاکستان” بنانے، اسے ترتیب دینے والے اور وہ مورخین ہیں جو مکمل جانب دار اور تصویر کا ایک ہی رُخ پیش کرتے آرہے ہیں۔ نصاب پڑھانے والے تو بچارے سرکار کے ملازم اور رائج تعلیمی نصاب کے پابند ہوتے ہیں۔ وہی کچھ پڑھائیں گے جو مطالعۂ پاکستان میں لکھا گیا ہے۔
بہر حال اس کے باوجود کہ خدائی خدمت گاروں سے حکومت غیر جمہوری اور غیر آئینی طریقے سے چھین لی گئی، مگر پھر بھی جب 03 ستمبر1947ء کو خدائی خدمت گاروں کے مرکزِ عالیہ سردریاب چارسدہ میں جلسہ منعقد ہوا، تو اس جلسے میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ “یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم (خدائی خدمت گار) ہندوستان کی تقسیم کے مخالف تھے۔ کیوں کہ ہمیں اس بات کا پورا ادراک تھا کہ ہندوستان کی تقسیم مسلمانوں کے لیے نہایت ہی مہلک اور تباہ کن ثابت ہوگی۔ اس سے پاکستان اور ہندوستان دونوں کے مسلمانوں کو مالی، جانی، مذہبی اور تہذیبی نقصان پہنچے گا۔ لیکن پاکستان اب ایک حقیقت ہے، اس لیے ہم پاکستان کو اپنا مادرِ وطن سمجھتے ہوئے اس کی تعمیر، ترقی،خوش حالی، جمہوریت، استحکام، سلامتی اور پائیداری کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
اگرچہ ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کی برطرفی اور مسلم لیگی حکومت کا قیام قطعی طور پر غیر منصفانہ اور غیر آئینی اقدام ہے۔ لیکن پاکستان کی نوزائیدا ریاست اس وقت جس نازک صورتِ حال سے دوچار ہے اس کے پیشِ نظر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ نئی حکومت سے تعاون کیا جائے گا اور قومی تعمیر کا جو ارادہ نئی حکومت رکھتی ہے، اس میں بھر پور مدد کی جائے گی۔ کسی قسم کا احتجاج یا ایسی کوئی سرگرمی نہیں کی جائے گی جس سے حکومتی اُمور میں رکاوٹ پیدا ہو۔”
قارئین، یہ تو سردریاب میں منعقدہ جلسے میں کیے گئے فیصلے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی 1948ء اور اس کے بعد 1953ء میں دوسری دستور ساز اسمبلی میں باچا خان کی تقاریر اب بھی ہماری پارلیمانی تاریخ کا حصہ ہے اور ریکارڈ پر موجود ہیں۔ جن میں انہوں نے اس نوزائیدا ریاست اور حکومت کو اپنے بھر پور تعاون کا مکمل یقین دلایا تھا۔ تاہم، اس تمام نیک نیتی، حب الوطنی اور اس ملک اور قوم سے بے پناہ وفا داری اور محبت کے باوجود 12 اگست 1948ء کو بابڑہ چارسدہ کے مقام پر اُس وقت کے حکومت نے وزیرِ اعلا قیوم خان کے حکم پر پُرامن اور عدمِ تشدد کے فلسفے پر مکمل کار بند خدائی خدمت گاروں کے خلاف جس قسم کی بربریت اور ظلم و جبر کا مظاہرہ کیا، وہ اس ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا شرم ناک باب ہے جسے نہ کوئی چھپا سکتا ہے اور نہ مٹا سکتا ہے۔ جب کبھی بھی کوئی غیر جانب دار مورخ اس ملک کی اصل اور سچی تاریخ لکھے گا، تو وہ سانحۂ بابڑہ سمیت ان تمام تلخ حقائق کو نظر انداز نہیں کر سکے گا جو ابھی تک ایک سوچھے سمجھے منصوبے کے تحت چھپائے گئے ہیں یا چھپائے جا رہے ہیں۔ مگر تاریخ بڑی بے رحم چیز ہے یہ کسی کو بھی معاف نہیں کرتی۔
لکھ لکھ کے میرا نام مٹائے گا کہاں تک
وہ مجھ کو زمانے سے چھپائے گا کہاں تک
قارئین، سانحۂ بابڑہ اس ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا نظر انداز کیا ہوا مقدمہ ہے جو تا قیامت ہر آنے والے نئے سال کی 12 اگست کو اپنے آپ کو پیش کرے گا۔ کیوں کہ اس مقدمہ کے لڑنے والے وہ ہزاروں لاکھوں لوگ اب بھی موجود ہیں جو ان شہداء کے وارث ہیں۔ جنہیں بڑی بے دردی اور بے رحمی سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس واقعہ کا سب سے زیادہ قابلِ افسوس پہلو یہ بھی ہے کہ جن لوگوں پر گولیاں برسائی گئی تھیں، بعد میں ان کے ورثا سے ان کارتوسوں (میگزینز) کا تاوان بھی وصول کیا گیا تھا۔
سالار امین جان کے بقول “گولیاں مینہ کی طرح برس رہی تھیں۔ کشتوں کے پشتے لگ رہے تھے۔ پورے پینتالیس منٹ تک مسلسل نہتے جان بازوں پر آگ کی بارش ہوتی رہی۔ بابڑہ کسی میدان کار زار کا نقشہ پیش کر رہا تھا جہاں حدِ نگاہ تک لاشیں ہی لاشیں تھیں اور ان بے گناہ شہیدوں کا خون ندی نالیوں کی صورت بہہ رہا تھا۔”
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس فائرنگ سے ساڑھے چھ سو افراد شہید اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ اس سانحے کا دل خراش ذکر اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا ذکر اب ہماری غیر جانب دار سیاسی تاریخ میں کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔
قارئین، اس سانحہ کے حوالے سے اب بہت سے حقائق منظرِ عام پر آچکے ہیں اور مزید بھی آرہے ہیں کہ اس دن نئی بننے والی اسلامی جمہوری ریاست میں ایک آرڈی نینس کے ذریعے قائم ہونے والی صوبائی حکومت کے وزیرِ اعلا قیوم خان کے حکم پر تقریباً پندرہ ہزار نفوس پر مشتمل خدائی خدمت گاروں کے ایک پُرامن مظاہرے پر بغیر کوئی وارننگ دیے بلا اشتعال اندھا دھند فائرنگ کی۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ لوگوں پر دستی بم بھی پھینکے گئے جس میں سیکڑوں کی تعداد میں مرد، خواتین اور بچوں کو بڑی بے رحمی اور سفاکی سے شہید کیا گیا اور اس سے زیادہ تعداد میں لوگ زخمی ہوگئے تھے۔
اس موقع پر بعض خواتین نے فائرنگ بند کرنے کی خاطر اپنی جھولیاں پھیلائیں اور اپنے سروں پر قرآنِ پاک کے نسخے اُٹھا رکھے تھے۔ مگر صوبائی حکومت اس قدر سنگ دل تھی کہ اس ظلم کو جاری رکھا گیا۔ خدائی خدمت گار تحریک کے اس اجتماع پر روا رکھے جانے والے اس ظلم پر اُس وقت کا پریس بھی خاموش رہا اور آزاد ریاست کے مرکزی وصوبائی مسلمان حکم ران بھی اندھے، گونگے اور بہرے بنے رہے۔ یہ اسلام کے نام پر تعمیر ہونے والے اس ملک کی تاریخ کے حوالے سے حقائق پر مبنی ایک ایسا باب ہے، جو وقت آنے پر اس ملک کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش سانحہ اور تعلیمی نصاب کا نظر انداز نہ کرنے والا حصہ ہوگا، انشاءاللہ۔
____________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو روزنامہ آزادی سوات نے آج یعنی 16 فروری 2024ء بروزِ جمعہ کو پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: