ریاستِ سوات کے حکم ران میاں گل عبدالودود (باچا صاحب) کے بارے میں یہ بات زبانِ زدِ عام ہے کہ انہوں نے خدو خیل کے زرد اللہ خان کو محض اس جرم کی بنا پر قتل کیا تھا کہ وہ صوابی میں کانگریس کے ایک جلسے میں شریک ہوئے تھے۔ اگر چہ ڈھیر سارے تاریخی کتب میں یہی واقعہ نقل ہے لیکن اس حوالے سے ریاست کا موقف تھا کہ زد اللہ ریاست کے خلاف سازش میں ملوث تھا۔

قارئین، میرے خیال میں یہ حقیقت ہے کیوں کہ اتنی معمولی سی جرم پر اسے قید تو کیا جاسکتا تھا لیکن موت کی سزا کسی صورت نہیں دیا جاسکتا۔ اگر واقعی ایسا ہی تھا، تو پولٹیکل ایجنٹ میاں گل عبدالودود کو کریڈٹ ضرور دیتا۔ لیکن پولٹیکل ایجنٹ نے بھی اس حوالے سے ریاست کی موقف سے اتفاق کیا ہے کہ موصوف “ریاستِ امب” اور سید عبدالجبار شاہ کے ریاست پر حملے اور خدوخیل پر قبضے کی سازش میں ملوث تھے۔ ان کے علاوہ مقامی لوگ بھی اس سازش میں شریک تھے۔ عبدالودود نے اس بارے میں پہلے بھی تحریری طور پر پولٹیکل ایجنٹ کو آگاہ کیا تھا اور ساتھ ہی وارننگ بھی دی تھی کہ ریاستِ سوات تناول پر حملہ کرنے کا حق محفوظ رکتھا ہے۔
دوسری بات جو راقم (فرہاد علی خاور) کے دوست سردار علی نے جمروز خان کے قتل کے بارے میں لکھا ہے، تو یہ سچ ہے کہ جمروز ایک مضبوط اور طاقت ور خان تھے اور آپ نے بادشاہت کے پہلے ہی سال اپنی حمایت واپس لیتے ہوئے میاں گل شیرین کے ساتھیوں میں شامل ہوئے تھے۔ لیکن جمروز خان کو ان کے بھتیجے پیر محمد خان نے  23 ستمبر 1948ء کو گولی مار کر قتل کیا تھا۔ جمروز خان کے قتل میں عبدالودود کو ان کے اولاد نے بھی ملوث نہیں کیا تھا البتہ 1948ء میں خان محمد افضل خان لالا کے والد حبیب اللہ خان” المعروف “دارمئی خان” والی سوات کے ساتھ شکار کےلیے گئے تھے اور ایک چٹان سے گر کر جاں بحق ہوئے تھے۔ والیِ سوات نے دارمئی خان کے بڑے فرزند رسول خان کی دستار بندی کی لیکن عام تاثر یہ تھا کہ دارمئی خان کو باچا صاحب نے قتل کیا ہے۔ حالاں کہ باچا صاحب نے “دارمئی خان” کی خاندان کی تسلی حلف پر بھی کیا لیکن اس کے باوجود ستمبر 1928ء کو جب میاں گل عبدالودود فتح پور کے دورے پر تھا، تو دارمئی خان کے فرزندوں نے “میاں دم خان” کے ساتھ مل کر ان پر حملہ کیا لیکن وہ بچ گئے۔ جس کے بعد میاں دم خان اور دارمئی خان کے فرزندوں نے ریاستِ سوات سے بدری اختیار کرتے ہوئے ریاستِ دیر میں پناہ لی۔ یوں خوانین کا یہ مضبوط ڈلہ خود ہی میدان سے ہٹ گیا اور ریاست پر میاں گل عبدالودود کی پوزیشن مضبوط ہوگئی۔
____________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: