بانی خدائی خدمت گار تحریک خان عبدالغفار خان جو عموماً باچا خان اور فخرِ افغان کے ناموں سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ وہ متحدہ ہندوستان کے آل انڈیا کانگریس میں گاندھی جی کے بعد سب سے بڑے لیڈر مانے جاتے تھے۔ موصوف ہندوستان میں سرحدی گاندھی اور پاکستان اور افغانستان میں باچا خان بابا کے نام سے مشہور تھے اور انڈیا کی تحریک آزادی کے چند اہم ترین رہ نماؤں میں سے تھے۔
قارئین، باچا خان 1890ء کو ضلع چارسدہ کے علاقے اتمان زئی میں خان بہرام خان کے گھر میں پیدا ہوئے اور کم عمری سے ہی پختون معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔
اس تحریک کا آغاز باچا خان نے 1910ء میں آزاد مدرسوں کے قیام سے کرتے ہوئے پہلا مدرسہ اپنے علاقے اتمان زئی میں قائم کیا۔ جس میں سب سے پہلے اپنے بڑے بیٹے خان عبدالغنی خان کو داخلہ دلوایا تاکہ کوئی ان کی نیت پر شک نہ کریں۔ پھر مختلف علاقوں کی دورے کئے اور لوگوں کو تعلیم کی ضرورت سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی توجہ تعلیم کی طرف مرکوز کرنے کی کوشش کی۔ یوں ایک قلیل وقت میں کی مدارس کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قارئین، باچا خان کے سرپرستی میں چلنے والے یہ آزاد مدارس انگریز سامراج اور کچھ مقامی لوگوں کو گوارہ نہ ہوئی۔ انگریز سامراج کے سازش کے تحت سب سے پہلے ان کی مخالفت کچھ مولویوں نے کی۔ انہوں نے باچا خان اور آزاد مدرسوں کے خلاف ایک پروپیگنڈا شروع کیا کہ اگر پختونوں نے تعلیم حاصل کی، تو دیگر اقوام کی نسبت ان کی قدر و قیمت کم ہو جائے گی، ان کی دوکانیں بند ہو جائے گی اور ان کی سات نسلیں جہنم میں ہوں گے۔ اس کے علاوہ باچا خان کے بارے میں یہ بھی ایک غلط مہم چلائی گئی کہ لوگ ان کی باتوں پر کان نہ دھریں، کیوں کہ ان کی داڑھی نہیں ہے۔ اسی طرح پشتو زباں کے خلاف پروپیگنڈا شروع کرتے ہوئے کہا کہ یہ دوزخ کی زبان ہے، لہذا اسے بولنے سے پرہیز کریں۔ جیسا کہ کسی دوزخی نے آ کر ان کی کانوں میں یہ سرگوشی کی ہو کہ دوزخ میں ہم پشتو بولتے ہیں۔
اسی تناظر ميں باچا خان اپنی آپ بیتی “میری زندگی اور جدوجہد” میں لکھتے ہے کہ ایک دن ہمارے گاؤں کے قریب ایک علاقے سے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے اپنے گاؤں میں ایک مدرسے کے قیام کی درخواست کی۔ میں گیا اور وہاں لوگوں کو اکٹھا کرکے ان کے سامنے تعلیم کے اہمیت بیان کی۔ میں ابھی بات کر ہی رہا تھا کہ ایک مولوی صاحب حاضر ہوئے جن کو لوگ “چترالی ملا” کے نام سے پکارتے تھے، نے کہا کہ جو تعلیم خان عبدالغفار خان نے شروع کی ہے، میں اس کو نہیں مانتا۔ یہ کیسی تعلیم ہے جس کی کتابوں میں لکھا ہے کہ “ایک کتا بھونکتا ہے” اور “this is fig” یعنی یہ ایک سور ہے۔”
مولوی نے کہا کہ یا تو ان کی بات مانوں یا بندوق پر فیصلہ ہو جائے۔ باچا خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں بندوقوں والا نہیں ہوں، البتہ جب آپ یہاں سے جائے، تو اتمان زئی سے ہوتے ہوئے جائے۔ وہاں میرے ایک چچا زاد بھائی ہے، جو آپ کی طرح بندوق کا شوق رکھتے ہیں۔ پھر آپ کو اپنی اوقات کا پتا لگ جائے گا۔”
باچا خان اسی تسلسل میں لکھتے ہیں کہ مولویوں کی طرف سے ان کے سکولوں کی مخالفت کا یہ محض ایک بہانہ تھا۔ کیوں کہ ہمارے مدرسوں میں مسجدوں کی نسبت دینی تعلیم پر بھی اچھی خاصی توجہ دی جاتی تھی۔ ان کو ڈر اسی بات کا تھا کہ اگر لوگ جاگ گئے، تو ان کا منجن نہیں بکے گا۔ ان سے اچھے تو خان خوانین تھے، جنہوں نے مخالفت تو دور کی بات، بلکہ مدرسوں کے قیام میں ہماری بھر پور مدد کی۔
باچاخان نے ان پروپیگنڈوں اور سکولوں کے چلانے کےلیے رقم کی کمی کے باوجود اپنا کام جاری رکھا اور ہزاروں بچوں کی تعلیمی اور معاشرتی نشونما کی  کیوں کہ ان کو اس بات کا یقین تھا کہ جو قومیں وقت کے ساتھ معاشرے کے فی الفور بدلاؤ کے ساتھ خود کو نہ بدلے، تو وہ دیگر اقوام کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
قارئین، باچا خان کے مدرسوں میں لوگوں کو دینی اور جدید دنیاوی تعلیم دی جاتی تھی۔ لیکن جیسا کہ محولہ بالا کہا گیا کہ انگریزوں کو یہ گوارا نہ تھا۔ انہوں نے حاجی فضل واحد (حاجی صاحب آف ترنگ زئی) جسے باچا خان نے مولویوں کی زبان بندی کے خاطر اپنے مدرسوں کا سرپرست مقرر کیا تھا، کے انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک اور جہاد، جس میں حاجی صاحب کو ناکامی ہوئی، کو بہانہ بنا کر تمام مدرسوں کو بند کروا دیا اور ان کے اساتذہ، کارکنان اور وہ لوگ جو مدرسوں کےلیے چندہ اکٹھا کیا کرتے تھے، کے ساتھ نہایت ظالمانہ، وحشیانہ اور غیر انسانی سلوک کیا۔ ڈھیر سارے لوگوں کو جیل میں ڈال دیا اور ان میں سے بعض کو سختی اور بے شرمی سے مارا پیٹا گیا۔ باچا خان حاجی صاحب کی طریقہ کار اور جہاد سے متفق نہ تھے اور حاجی صاحب کو کئی بار یہ کہا کہ یہ چند لوگ ناقص انتظام اور اسلحہ کے ساتھ انگریزوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے، انگریزوں سے آزادی کے لیے پہلے ہمیں تمام لوگوں کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اسلحے کا بندوبست اور جنگی تربیت کرنا ہوگی، تبھی ہم کام یابی حاصل کر پائیں گے۔ لیکن حاجی صاحب نے ان کی نہ مانی اور  اس کا نتیجہ مدرسوں کی بندش اور لوگوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کے طور پر سامنے آیا۔
اس تحریک کی ناکامی اور دیگر کئی تحریکوں کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے باچا خان نے فیصلہ کیا کہ پختون سرزمین پر آزادی کی کوئی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی، جب تک کہ پختون بحیثیت ایک قوم اپنے حقوق کو نہ پہچانیں اور ان میں سیاسی شعور نہیں آتی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں سماجی کارکن بن کر معاشرے کی اخلاقی و سیاسی تربیت اور اصلاح کا فیصلہ کیا۔
اس سوچ کے تحت انہوں نے 1921ء میں دوبارہ قوم میں آگاہی، شعور، پیار، محبت، قومیت اور بھائی چارہ پیدا کرنے کے غرض سے “انجمن اصلاح الافاغنہ” کے نام پر ایک انجمن قائم کیا۔ جس کا مقصد پختون معاشرے سے غلط رسم و رواج کی بیخ کنی کرنا اور ان کو تشدد سے منع کرتے ہوئے ان میں یک جہتی پیدا کرنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے تحت باچا خان نے انجمن کے دوستوں کے ساتھ تمام علاقوں کے دورے شروع کیے، گاؤں گاؤں اور گلی گلی جا کر لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے ان کی اصلاح اور اخلاقی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
باچا خان کے بیٹے اور ان کے سیاسی جانشین خان عبدالولی خان اپنی مشہور کتاب “باچا خان اور خدائی خدمت گاری” میں لکھتے ہیں کہ ان کے والد (باچا خان) پختونوں میں پائی جانے والی غلط رسومات کے خلاف بات کرتے تھے۔ شادی بیاہ، ختنہ، یا پھر منگنی وغیرہ کے موقع پر بے تحاشا اخراجات سے عوام کو منع کرتے اور میت کے گھر کی خیراتوں اور دیگر غیر اسلامی روایات و رسومات کے خلاف بھی مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ وہ پختونوں کے طرز زندگی میں لباس، خوراک، اور رہن سہن ہر لحاظ سے سادگی لانے کے خواہاں تھے۔ تمام لوگوں کو یہ نصیحت کرتے رہیں کہ جو کچھ تم خود اپنے گھر میں کھاتے ہو، وہی مہمانوں کو پیش کرو۔ کیوں کہ ان کا مشاہدہ تھا کہ اکثر صاحب حیثیت لوگ محض اس وجہ سے کنگال ہوئے کہ وہ شادی، منگنی اور دیگر غمی و خوشی کے مواقع کے علاوہ مہمان نوازی پر بے تحاشا پیسا لٹاتے تھے۔ وہ لوگوں پر زور دیا کرتے تھے کہ تجارت کا پیشہ آپنائیں، کیوں کہ پختونوں نے تجارت کو ہندوؤں سے جوڑا ہوا تھا۔
قارئین، انگریزوں کو باچا خان کا یہ اصلاحی پروگرام بھی گوارا نہ تھا۔ اسی لیے وہ لوگوں کو مختلف پروپیگنڈوں کے ذریعے باچا خان سے متنفر کروانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں۔ آزاد مدرسوں میں ڈیوٹی دینے والے اساتذہ پر دباؤ ڈالتے رہے اور ان کو زیادہ تنخواہ کی لالچ دے کر سکول چھوڑنے کا کہتے۔
باچا خان کے مطابق ایک قوم اپنی مادری زبان کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی اور ان میں علم و فنون پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے انہوں نے پختونوں کو ان کی زبان کی طرف مائل کرنے اور ان کو دنیا کی حالات و واقعات سے با خبر رکھنے کے لیے سال 1928ء میں “پختون” کے نام ایک رسالے کا اجرا کیا۔ جس سے لوگوں میں غیر معمولی تبدیلی آئی اور یہ رسالہ ہندوستان سے ہوتے ہوئے افعانستان اور یہاں تک کے باہر دنیا کے پختونوں میں بھی مقبول اور پڑھا جانے لگا۔
پختون اخبار کی وجہ سے لوگوں میں مثبت تبدیلی آئی، اب ایک مناسب اور کشادہ تنظیم کے تحت قوم کو منظم کرنے کےلیے باچا خان نے سال 1929ء میں اپنے نظریہ عدم تشدد کے تحت “خدائی خدمت گار”  تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کا نصب العین خدا کی خاطر کسی ذاتی غرض کے بغیر ملک و قوم کی خدمت کرنا، اپنے ہاتھوں سے روزانہ دو گھنٹے کام کرنا، نفاق، نفرت، لڑائی جھگڑوں اور غیر اسلامی رسم و رواج سے اجتناب کرنا، عدم تشدد کے فلسفے کو اپناتے ہوئے لوگوں کو متحد کرنا، ان کو محبت، امن، بھائی چارے اور علم حاصل کرنے کی تلقین کرنا تھا۔ خدائی خدمت گار تنظیم اور باچا خان کے اپنی مثالی شخصیت اور قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت انہوں نے تمام گاؤں اور دیہاتوں کے دورے کیے اور ہر علاقے میں جلسے کرتے ہوئے پختونوں کو سیاسی اور سماجی طور پر متحرک کیا، ان سے متاثر ہو کر لاکھوں افراد نے ان کی خدائی خدمت گار تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ لوگوں کو اتنے بڑے پیمانے پر متحرک کرنے والی یہ ایک عظیم تحریک تھی جس کے پیچھے باچا خان کی شخصیت، فکری توانائی اور ان کا فلسفۂ عدم تشدد کار فرما تھی۔
بعض لوگ یہ سمجھتی ہے کہ باچا خان نے اپنا فلسفۂ عدم تشدد گاندھی جی کے “اہنسا” سے لیا۔ لیکن باچا خان خود اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بحیثیت مسلمان میں نے عدم تشدد پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ میں گزرنے والی زندگی سے سے سیکھا ہے۔
باچا خان اپنے آب بیتی میں عدم تشدد کے فلسفے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “عدم تشدد اس طرح طاقت ہے، جس طرح تشدد ایک طاقت ہے۔ جس طرح تشدد کی فوج ہوتی ہے، اسی طرح عدم تشدد کی بھی ایک فوج ہے۔ لیکن عدم تشدد کا ہتھیار تبلیغ ہے اور تشدد کا ہتھیار بندوق ہے، عدم تشدد لوگوں میں محبت، ہمت اور جرات پیدا کرتی ہے جب کہ تشدد لوگوں میں نفرت، ڈر اور بزدلی پیدا کرتی ہے۔ عدم تشدد میں شکست نہیں ہے جب کہ تشدد میں شکست موجود ہے۔ عدم شدت بھی تشدد کی طرح ایک مکمل نظام ہے۔ تشدد آسان ہے اور اس کے راستے پر چلنا بھی آسان، جب کہ عدم تشدد بہت مشکل ہے اور اس کے راستے پر چلنا بھی بہت مشکل ہے۔”
ایک دفعہ اپنے پیروکاروں سے بات کرتے ہوئے باچا خان کا کہنا تھا کہ “میں تمہیں ایک ایسا ہتھیار دے رہا ہوں جس کا مقابلہ فوج نہیں کر سکتے۔ یہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ہتھیار ہے، جسے تم پہچان نہ سکے۔ کیوں کہ یہ صبر اور سچائی کی ہتھیار ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کے آگے کھڑی نہیں ہو سکتی۔” یہی وجہ تھی کہ انگریز کہا کرتے تھے کہ ہم کو خدائی خدمت گاروں نے حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تشدد کرے، کیوں کہ تشدد کا علاج ہمارے پاس ہے۔ لیکن عدم تشدد کا علاج ہمارے پاس نہیں ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ
 “The non-violent pathan is more dangerous than the violent pathan.”
قارئین، باچا خان نے اپنے نے تمام دوروں اور جلسوں میں عورتوں کے حقوق اور ان کی تعلیم پر بہت زور دیا۔ وہ پیسوں کےلیے شادی کرنے کے ساتھ ساتھ جائیداد کی تقسیم کے خوف سے کسی قبیلے سے باہر شادی نہ کرنے کی روایت کے بھی خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تعلقات مستقل مزاجی اور باہمی افہام و تفہیم پر مبنی ہونی چاہیے نہ کہ طاقت یا دولت کی بنیاد پر، جہاں لڑکیوں کو پوچھیں بغیر بیاہ کیا جاتا ہے۔ باچا خان ایک جلسے میں عورتوں سے سے مخاطب ہوکر کہتے ہے کہ “آپ عورتوں کا جس طرح خیال ہے کہ مرد بڑے ہوتے ہیں اور عورتیں ان سے درجے میں کم تر ہوتی ہے یہ خیال بالکل غلط ہے، بڑا پن عمل اور کردار سے پہچانا جاتا ہے نا کہ جنسی اعتبار سے، اس ملک میں عورتوں کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا کہ مردوں کا، معاشرے میں اگر عورت خود کو کم تر سمجھے یا مرد ان کو کم تر سمجھے اور  ان کو اپنے ساتھ شانہ بشانہ قوم کی خدمت کرنے نہ دے، تو وہ قوم اور معاشرہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔”
اپنے علاقے کے خان ہونے کے باوجود باچا خان نے اپنے ہاتھ میں جھاڑو پکڑتے ہوئے کام کیا اور دوسروں کو بھی صفائی اور اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کی ترغیب دی۔ اسی طرح وہ قوم جو آزادی کے اہمیت اور سیاسی اقدار سے واقف تک نہیں تھی جسے لوگ وحشی سمجھتے تھے اور جو اپنی جنگجوں فطرت کے لیے مشہور تھے، ان میں باچا خان نے امن، قومیت، اور محبت کی ایک ایسی روح پھونکی جس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔
خدائی خدمت گار تحریک کی بنیاد رکھنے سے پہلے باچا خان تین مرتبہ قید ہو چکے تھے اور کئی عرصہ ہندوستان کے مختلف جیلوں میں گرفتار رہے، جیل میں ان کے ساتھ انتہائی ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک کیا جاتا، انگریزوں نے ان کے پاؤں میں ایسی مضبوط بیڑیاں ڈالی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ان کے پاؤں زخمی ہوگئی تھیں اور ان کو چلنے، سونے اور عبادت کرنے میں دشواری ہوتی، ان کو کپڑے بھی ناموزوں دیئے جاتے اور کھانا بھی ایسا دیا جاتا جو جانور بھی نہ کھاتے ہو، ناقص اور ناپاک کھانے کی وجہ سے ان کو دانتوں کا مرض بھی لگ گیا تھا جو دن بہ دن بڑھتا چلا گیا لیکن ان کے معالجے کا کوئی انتظام نہ کیا گیا اور دن بہ دن ان کی صحت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔
باچا خان لکھتے ہیں کہ قیدی کی زندگی سے جانوروں کی زندگی بہتر تھی، انگریز قیدیوں پر بلاوجہ ظلم کرتے اور مشقت کرواتے۔ خوراک بھی ایسے دی جاتی کہ میں جب وہ کھانا بلیوں کے سامنے رکھتا، تو وہ بھی اسے کھانے سے اجتناب کرتے۔”
اتنی مشقتوں اور تکلیفوں کی باوجود بھی باچا خان نے جیل میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کے مابین نفاق اور نفرتیں ختم کرنے اور ان میں اتفاق، اتحاد اور بھائی چارہ قائم کرنے کی کی کوششیں جاری رکھی۔ وہ جیل میں قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے اور پختونوں کے خلاف ہندوستان میں جو من گھڑت قصے اور غلط پروپیگنڈے پھیلائے گئے تھے ان کی بھی چارہ سازی کرتے ہوئے ان کے ساتھی قیدیوں، جن میں ہندوستان کے بڑے بڑے لیڈر بھی شامل تھے، پر ان کی پختونوں کے متعلق تمام شکوک و شبہات کو دور کیا۔
وہ باچا خان سے پختونوں کے متعلق عجیب و غریب سوال پوچھتے۔ باچا خان کی آپ بیتی سے مثال کے طور پر ایک واقعہ ملاحظہ ہو۔ ایک دن میرے ایک ہندو دوست نے پوچھا: “آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں، ناراض تو نہیں ہوں گے؟
میں نے جواب دیا: ہر گز نہیں۔
ہندو دوست نے کہا: میں نے سنا ہے کہ پٹھان انسانی خون پیتے ہیں؟
میں نے جواب دیا: ہاں پیتے ہیں۔
وہ چلایا: باپ رے باپ، اس نے پھر پوچھا: کیوں پیتے ہیں؟
میں نے جواب دیا: اس لیے کہ یہ بہت لذیذ ہوتا ہے۔
وہ پھر چلایا: باپ رے باپ۔
میں نے اب ذرا سنجیدہ لہجے میں اس سے پوچھا کہ دوست، یہ بات تمہارے دماغ میں پیدا کیسے ہوئی؟ کیا تم کبھی پٹھانوں کے دیش گئے ہو، تم نے کبھی ان کو دیکھا ہے، کبھی ان سے واسطہ بھی پڑا ہے؟
اس نے جواب دیا: نہیں۔
میں نے اس سے پھر پوچھا: تم پھر کیسے اس نتیجے پر پہنچ گئے؟
اس کا جواب تھا کہ میں نے لوگوں سے سنا ہے۔ پھر میں نے جواب دیا کہ یہ سراسر غلط ہے۔ پختون بھی آپ ہی کی طرح انسان ہے جس طرح ہر قوم میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں اسی طرح ان میں بھی اچھے برے لوگ موجود ہیں، یہ تمام باتیں ہمارے دشمنوں نے ہمارے درمیان نفاق اور نفرت پیدا کرنے کے لیے پھیلائی ہیں۔ کیوں کہ اگر وہ ایسا نہیں کرینگے تو ہم پر حکومت کیسے کریں گے ؟”
لوگوں کی خیال میں یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ پٹھانوں کا قتل و غارت اور ڈکیتوں کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہوتا لیکن جب وہ باچا خان کے ساتھ وقت گزارتے یا ان کی اخلاق اور باوقار کردار کو دیکھتے تو باچا خان کے گرویدہ ہو جاتے۔
جب چھوتی بار 23 اپریل 1930 کو بادشاہ خان کو گرفتار کیا گیا تو خدائی خدمتگاروں نے پشاور کے قصہ خوانی بازار میں بڑی تعداد میں جمع ہوکر اس کے خلاف احتجاج کیا انگریز پولیس کی جانب سے ملنے پر گولیاں چلائی گئی اور اس میں سیکڑوں خدائے خدمتگار اپنی جانوں سے گئے۔ انگریزوں نے خدائی خدمتگاروں کی تمام دفاتر تباہ کر دیئے ان پر تشدد کیا، ہزاروں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا اور ان کے ‘سرخ’ رنگی جھنڈوں اور وردی پر پابندی عائد کردی۔ انہوں نے کئی دیہاتوں کا محاصرہ کیا اور لوگوں کو زبردستی خدائی خدمتگاری سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا۔
باچا خان نے جیل سے ملاقاتیوں کے زریعے آل انڈیا مسلم لیگ کو مدد کے لیے پکارا لیکن انہوں نے خدائے خدمتگاروں کے مدد کرنے اور ان کو انگریزوں کے ظلم و جبر سے نجات دلانے سے انکار کر دیا۔ اس برے وقت میں کانگریس نے باچا خان کا ساتھ دیتے ہوئے انگریزوں پر دباؤ ڈالا اور یوں باچا خان کی رہائی کے ساتھ ساتھ خدائی خدمتگاروں پر انگریزوں کا ظلم و ستم میں کمی ممکن ہوئی۔ اسی وجہ سے  باچا خان اپنے تحریک سمیت کانگریس میں شامل ہوگئے اور بعد میں گاندھی جی کے بعد کانگریس کے دوسرے بڑے لیڈر مانے جانے لگے۔ حلانکہ گاندھی جی جو خود ‘مہاتماگاندھی’ کے نام سے کہلائے جاتے وہ بھی باچاخان کو “مہان ہستی” کہلاتے، ان کی تحریک سے بھی بہت متاثر تھے اور کہتے کہ میں بھی خدائی خدمتگار بننا چاہتا ہوں۔
اسی طرح پنڈت جواہر لال بھی کہا کرتے کہ میں نے اج تک اتنی منظم، آراستہ اور  disciplined تنظیم نہیں دیکی۔
باچا خان تقسیم ہند تک کانگرس کے عظیم رہنما رہے ان کو دومرتبہ کانگرس کی طرف سے صدارت کی پیشکش بھی کی گئی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ میں لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں ہو مجھے اقتدار کا کوئی شوق نہیں۔ اسی طرح انگریزوں کے طرف سے ان کو صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خواہ) کی گورنری  بھی آفر کی گئی جس سے انہوں نے یہ کہ کر انکار کیا کہ مجھے غلامی قبول نہیں اور نہ ہی میری جدوجہد اقتدار کے لئے ہے۔
تقسیمِ ہند کے وقت باچا خان کانگریس کی ان کے ساتھ بے وفائی کی وجہ سے دالبرداشتہ ہوگئے کیونکہ کانگریس باچا خان کے ساتھ ہر معاملے پر مشورہ کرتی لیکن ان کے اپنے صوبے سرحد (اج کی پختونخوا)، جہاں خدائے ختمتگاروں کی حکومت تھی، کے مستقبل کے فیصلے کے بارے میں ان کو نظرانداز کیا گیا۔ باچا خان تقسیم ہند کے حق میں نہ تھے جو کہ کانگریس کا بھی نظریہ تھا لیکن بعد میں کانگریس اپنے نظریہ کے برعکس تقسیم پر آمادہ ہو گئی، باچا خان نے کانگریس کے تمام لیڈرز بشمول گاندھی جی کو بھی کئی دفعہ متحدہ ہندوستان پر غور کرنے کا کہا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا اور جب تقسیم ناگزیر ہوگئی تو ملک کے مختلف علاقوں میں کانگریس اور مسلم لیگیوں کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے، جس سے باچا خان نے پہلے ہی کانگریس کو خبردار کیا تھا۔ کانگریس اور گاندھی جی اپنی نظریۂ عدم تشدد سے بھی پیچھے ہو گئے مگر باچا خان پوری زندگی اپنے نظریہ پر قائم رہے کیونکہ نظریۂ عدم تشدد کانگرس اور گاندھی جی کی محض policy تھی جبکہ یہ باچا خان کا عقیدہ تھا.
تقسیم ہند کے تحت اور صوبوں کی طرح سرحد پر بھی referendum کرنے کا فیصلہ ہو گیا باچاخان نے اس ریفرینڈم کی مخالفت کی جس میں صوبہ سرحد کو دو آپشنز دیے گئے تھے کہ یا تو پاکستان میں شامل ہوں یا ہندوستان میں۔ باچا خان اس Referendum میں تیسرا آپشن انگریزوں کے انخلاء کے بعد ایک خودمختار پختونستان کا شامل کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے مطالبات نہیں مانے گئے اور بلاآخر پاکستان وجود ميں ایا اور صوبہ سرحد کو اس میں شامل کیا گیا۔
اس تناظر میں گوپال گاندھی ” باچاخان تاریکی میں روشنی کا مینار” میں لکھتے ہے کہ جب یہ مذاکرات ناکام ہوئے اور باچا خان کے مطالبات نہیں مانے گئے تو گاندھی جی بہت افسردہ ہوئے اور کہا کرتے کہ ‘باچا خان کی یاد مجھے سونے نہیں دیتی اس کے ساتھ اچھا نہیں ہوا” گوپال لکھتے ہیں کہ اس کے بعد گاندھی جی نے سو سال سے زیادہ جینے کی خواہش چھوڑ دی اور کہا کہ میں نے لمبی زندگی کی سوچ ترک کر دی لیکن میں باچا خان کے بارے میں سوچنا نہیں چھوڑ سکتا اس کے ساتھ بہت برا ہوا۔”
پاکستان بننے کے بعد باچاخان نے 1948 میں اسمبلی میں حلف لے کر نئے ملک سے بیعت کا اظہار کیا اور پھر جناح صاحب سے مصالحت کے لئے ان کو پشاور آنے کی دعوت دی لیکن یہ ملاقات کبھی ممکن نہیں ہوئی کیوں کہ منسٹر عبدالقیوم خان نے جناح صاحب کو بتایا کہ اگر آپ وہاں گئے تو وہ اپ کو قتل کر دینگے۔
اس کے بعد جناح صاحب نے باچا خان کی بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت ختم کر دی اور باچا خان کو 1948 میں حسبِ معمول بنا کسی جرم کے گرفتار کیا گیا اور 1954 تک قید رہے۔
رہائی کے بعد one unit پالیسی کے خلاف احتجاج  کرتے ہوئے ان کو دوبارہ 1956 میں گرفتار کیا گیا اور 1964 تک قید رہے۔ اسی دوران جنرل ایوب خان کی حکومت نے ان کو منسٹری بھی آفر کی لیکن انہوں نے یہ پیشکش رد کر دی۔
اور سال 1973 میں ذوالفقار علی بٹو کی حکومت نے ان کو پھر گرفتار کیا اور رہائی پر باچا خان نے یہ الفاظ کہے کہ ” مجھے انگریزوں کے زمانے میں کئی بار جیل جانا پڑا تھا اگرچہ ہم ان کے ساتھ مخالفت میں تھے لیکن پھر بھی ان کا سلوک کسی حد تک روادار تھا۔ لیکن وہ سلوک جو میرے ساتھ اسلامی ریاست میں اپنے مسلمانوں نے کیا وہ میں اپ کو بیان نہیں کر سکتا.”
انگریزوں کے خلاف اتنی جدوجہد اور اپنے قوم کے لئے بےانتہاء مصائب اور قید جھیلنے کے بعد بھی باچا خان کیساتھ مملکت خداداد پاکستان میں انتہائی ظالمانہ سلوک کیا گیا جو کہ قابلِ نفرت ہے۔
باچا خان جیسے عظیم رہنما کی زندگی اور خدمات کو ایک واحد تحریر میں بیان کرنا ناممکن  ہے ان کا ہم پختونوں پر بہت احسانات ہیں جن کے بدلے ميں ہم اج تک کچھ نہیں کر پائے بلکہ ہم نے الٹا ان کا ساتھ نہ دیتے ہوئے ان سے بے وفائی کی اور یہاں تک کے منافقوں کے باتوں میں اتے ہوئے خود ہی ان کو غدار اور ملک دشمن سمجھ بیٹھے، حالانکہ وہ ہمارے حقوق کے لیے پوری زندگی جدوجہد کرتے رہے نا کہ کسی زاتی مقاصد کے لیے۔ وہ قوم پرست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دریا دل او انسان دوست شخصیت تھے اور تمام لوگوں کو مذہب، قوم، زبان ذات، مسلک، یا رنگ میں نسل سے قطع نظر یکجا اور متحد کرنے کے خواہاں تھے اور اس کے لیے کوششیں کی۔  وہ تو انگریزوں سے بھی نفرت نہیں کرتے تھے لیکن ان کی آمرانہ طرز حکومت، سامراجیت اور اور غلط پالیسیوں کے مخالف تھے۔
قارئین، امن کے مظہر فخرِ افغان کو اس جہاں فانی سے رخصت ہوئے کئی سال بیت چکے ہیں ان کے ہم پر احسانات کا بدلہ چکایا نہیں جا سکتا۔ میرے مطابق ان سے بھلائی اور ان کے ساتھ اپنی بے وفائی کی تلافی اسی صورت ممکن ہے کہ ہم ان کی نظریہ کو اپناتے ہوئے مذاہب، قوموں، علاقوں اور زبانوں کی بنیاد پر ایک دوسرے سے حقارت، نفرت اور بغض کو ختم کرتے ہوئے مذہبی انتہاپسندی اور تعصب سے دور عدم تشدد کا پابند بنے اور قوم کی خاطر بلا کسی زاتی مفاد کے اپنے قوم و ملک کی خدمت کریں جو کہ ہمارے اج کے تعصبی، انتہا پسند اور اشتعال انگیز معاشرے کے امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے اشد ضروری ہے۔
فخر افغان باچا خان بیس جنوری 1988 کو اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔
سلام فخرِ افغان پر۔
سلام باچا خان پر۔
جس نے قوم کو بندوق سے نفرت اور قلم سے محبت کرنا سکھایا۔
نوٹ، راقم کے اس تحریر کو 2022ء میں روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرف قبولیت بخش کر شائع کروایا تھا۔
__________________________________
قارئین، ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: