انگریز سامراج نے متحدہ ہندوستان میں اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے برِصغیر میں جس طرح کے انسانیت سوز جبر و تعدی کے باب رقم کیے ہیں، ان میں سے قصہ خوانی بازار میں ہونے والے قتلِ عام بھی ہے۔
قارئین، تاریخِ ہند ایسی شخصیات اور واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں صریح یکسانیت ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ دو رُخی برتاؤ یعنی سوتیلا رویہ صاف جھلکتا ہے۔ اگر ایک کردار یا سانحہ لوگوں کے ذہن و دل سے لے کر زبان تک ازبر ہیں، تو دوسرا تاریخ کے صفحات میں گم۔ رسوائے زمانہ اور بے رحم جنرل ڈائر تو سب کو یاد ہے لیکن سر ایچ اوبرے میٹکاف کا نام حافظے سے غائب۔
برٹش انڈیا میں شاز و نادر ہی کسی برطانوی افسر کو اس کے جرموں کی سزا دی گئی ہو۔ یہاں تک کہ قتلِ عام جیسے سنگین جرم کے مرتکب انگریز کو بھی خاموشی سے قانونی چارہ جوئی سے بچائے کے لیے برطانیہ بھیج دیا جاتا تھا۔ جس کا جیتا جاگتا ثبوت سانحۂ جلیانوالہ باغ کا گناہ گار جنرل ڈائر ہے، جسے زبردستی سبک دوش کر کے واپس وطن روانہ کر دیا گیا تھا۔ لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ پشاور کے قصہ خوانی بازار میں درجنوں غیر مسلح افراد کا قتلِ عام کروانے والے میٹکاف کو نہ صرف ترقی دے کر 1939ء میں بلوچستان کا چیف کمشنر مقرر کیا گیا بلکہ سر سمیت کئی خطابات سے بھی سرفراز کیا گیا۔
سرحدی گاندھی یعنی خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان نے سرحدی علاقے کے پختون قوم کو عدمِ تشدد کا سبق پڑھا کر 1929ء کے اواخر میں خدائی خدمت گار تنظیم قائم کی جس نے صرف چند ماہ میں اتنی مقبولیت حاصل کرلی کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے ایک لاکھ سے زیادہ رضا کار ہوگئے۔ اس کے ارکان سرخ لباس پہنا کرتے تھے جس کی مناسبت سے انہیں “سرخ پوش” یا “لعل کرتی” بھی کہا جاتا تھا۔ خان عبدالغفار خان کی کرشمائی شخصیت کے سائے میں خدائی خدمت گار تحریک کے رضا کاروں نے ہڑتالوں اور دیگر پُرامن احتجاجوں سے برطانوی ظالمانہ سرگرمیوں کے خلاف صدا بلند کرنی شروع کردی، تو برطانوی اقتدارِ اعلا کے ماتھے پر شکنیں پڑ گئیں۔ انہوں نے خدائی خدمت گاروں کو سبق سکھانے کا تہہ کر لیا۔ جس کا نتیجہ 23 اپریل 1930ء کو منظرِ عام پر آتا ہے۔

23 اپریل 1930ء کو پختون قوم پرست راہ نما اور امن کا پرچار کرنے والے خان عبدالغفار خان کو انگریز حکم رانوں نے حراست میں لیا۔ کیوں کہ اس واقعے سے ایک ماہ پہلے ہی ان کی قیادت میں خدائی خدمت گار نامی تنظیم کا قیامِ عمل میں آیا تھا۔ خدائی خدمت گار تحریک کے کارکنان پشاور کے قصہ خوانی بازار میں جمع اپنے قائد کا انتظار کر رہے تھے۔ باچا خان کی گرفتاری کا سنتے ہی تمام صوبے میں احتجاج کی لہر دوڑی اور ان کے حمایتی اکٹھے ہونا شروع ہوئے۔
فوٹو: ابدالؔی

قارئین، مہاتما گاندھی نے 1930ء میں برطانوی حکومت کے خلاف “سول نافرمانی” کی تحریک کا آغاز کیا، تو اسے شمال مغربی سرحدی صوبے (اَب خیبر پختون خوا) میں پروان چڑھانے کے لیے خدائی خدمت گزاروں نے بھی کمر کسی لی۔ جسے توانائی بخشنے کے لیے عبدالغفار خان کی راہ نمائی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے وفد نے اُتمان زئی چارسدہ تا پشاور کا دورہ شروع کیا۔ خدائی خدمت گار اپنے محبوب قائد کا قصہ خوانی بازار میں تعظیم و تکریم کے لیے جمع ہوئے، لیکن جابر حکام نے اُتمان زئی میں ہی باچا خان کی تقریر کو حکومت مخالف قرار دے کر ان کے ساتھ دیگر راہ نماؤں کو بھی حراست میں لے لیا۔ ان میں سے کچھ قائدین کو کابلی تھانہ لے جایا گیا جس کی خبر جنگل میں آگ کی طر ح پھیل گئی، جس نے پورے حلقے میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔

سربراہ عوامی نیشنل پارٹی اسفند یار ولی خان نے سانحۂ قصہ خوانی کے 94 سال مکمل ہونے پر جاری پیغام میں کہا ہے کہ تاریخ کو درست کرنے کےلیے برطانوی حکومت کو پارلیمنٹ میں ان شہداء سے معافی مانگنی چاہیے اور اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہیے۔ تاریخ کو غلط رنگ دے کر غلطیوں اور ظلم کو چھپایا نہیں جاسکتا، حقیقت سامنے آہی جاتی ہے۔
فوٹو: ابدالؔی

خدائی خدمت گاروں کے ساتھ عام و خواص نے بھی کانگریس کے دفتر کے سامنے جمع ہونا شروع کر دیا۔ بعض نے چارسدہ جیل کا گھیراؤ کیا جہاں عبدالغفار خان کو رکھا گیا تھا۔
یہ دیکھ کر پشاور کے ڈپٹی کمشنر میٹکاف کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس نے مظاہرین کو منتشر ہونے کا حکم دیا، لیکن ان کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ حالات کے مدِ نظر میٹکاف نے چار بکتر بند گاڑیاں بلوا لیں، جن میں سے ایک بکتر بند گاڑی بغیر کسی پیشگی خطرے کے ہجوم میں تیز رفتار سے دوڑتی ہوئی آئی۔ جس کی زد میں آکر 14 افراد جاں بحق ہوگئے۔ لاشوں کو دیکھ کر ہجوم اپنے غصے پر قابو نہ پا سکا اور بکتر بند گاڑی کو نذرِ آتش کر دیا۔ مزید برآں ایک انگریز موٹر سائیکل سوار بکتر بند گاڑی سے ٹکرا کر کچل گیا۔

بڑھتے ہجوم سے گھبرا کر میٹکاف نے بکتر بند گاڑیاں بلوا لیں، جن میں سے ایک نے اپنے راستے میں 14 لوگوں کو کچل دیا۔
فوٹو: ابدالؔی

ان تمام واقعات کا مورد الزام مجمع کو ٹھہرایا گیا۔ اس موقع پر آمریت کے نشے میں چور میٹکاف نے فوراً برطانوی فوجیوں کو فائرنگ کا حکم دے دیا۔ لیکن اٹھارویں رائل گڑھ وال رائفلز (Royal Garhwal Rifles) کی دوسری پلٹن کے جوانوں نے گولی چلانے سے انکار کر دیا، تو میٹکاف نے دیگر فوجی دستے کو آگے کر دیا۔

انگریز فوج کے “رائل گڑھوال رائفلز” کے جوانوں نے بندوق اُٹھانے سے انکار کر دیا، لیکن میٹکاف نے خدائی خدمت گاروں کو سبق سکھانے کے لیے اپنے دیگر سپاہی آگے کیے۔
فوٹو: ابدالؔی

اس واقعے کے عینی شاہدین کے مطابق ڈپٹی کمشنر کا قیاس تھا کہ ایک مرتبہ گولیاں چلانے سے چند لاشیں گریں گے، تو باقی مظاہرین موت کے ڈر سے خوف زدہ ہو کر منتشر ہو جائیں گے۔ لیکن جیسے ہی آگے کی صف میں نعشیں گریں، تو رضا کار بھاگنے کے بجائے “اللہ اکبر” کہتے ہوئے ان کی جگہ لینے پیچھے سے مزید آگے آتے گئے۔

افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ کچھ اقدامات انسانیت کو اپنا اخلاقی ریکارڈ درست کرنے کے لیے کرنے پڑتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ برطانیہ کو ان ظالمانہ حرکات کی معافی مانگنی چاہیے۔
فوٹو: ابدالؔی

فائرنگ کا سلسلہ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہا۔ یوں پشاور کے قدیم اور تاریخی قصہ خوانی بازار کی گلیوں میں بے گناہ خدائی خدمت گاروں کی خون کی ندیاں بہہ گئیں۔

سانحۂ قصہ خوانی کے 94 سال مکمل ہونے پر اے این پی کے صوبائی صدر سینیٹر ایمل ولی خان نے اپنے جاری پیغام میں کہا ہے کہ 94 برس قبل آج کے دن (23 اپریل 1930ء) کو چار سو سے زائد نہتے اور پرامن خدائی خدمت گاروں اور پشاور شہر کے باسیوں نے برطانوی سامراج کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کیا تھا۔ ان تمام شہداء کو 94 ویں برسی کے موقع پر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ انہی قربانیوں اور شہادتوں کی وجہ سے انگریز سامراج یہاں سے جانے پر مجبور ہوا تھا۔ اس سانحے کو  94 سال اور انگریز کو یہاں سے گئے 77 سال  گزر چکے ہیں لیکن ہم آج بھی حقیقی آزادی سے محروم ہیں، آج ہمیں انگریز سامراج کی بجائے اس کی باقیات کا سامنا ہے۔ سانحہ قصہ خوانی ہو، ٹکر ہو، سپین تنگی ہو یا بابڑہ ہو، ہم نے ہر میدان سے لاشیں اٹھائی ہیں لیکن ہمارے حوصلے آج بھی پست نہیں ہیں۔ جس طرح ہم نے ان کے آقاؤں کا مقابلہ کیا تھا، اسی طرح ان باقیات کا بھی مقابلہ کریں گے۔ ان کے خودکش، دھماکے اور بندوقیں، سازشیں اور پراپیگنڈے ہمارے عزم کو کبھی بھی کم زور نہیں کرسکتیں۔ باچا خان کے پیروکار جب تک زندہ ہیں، ہر میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ اللہ تعالا ہمیں ان شہیدوں کے خوابوں کی تعبیر کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

برطانوی انتظامیہ نے 30 افراد جاں بحق اور 38 لوگوں کے زخمی ہونے کے غلط اعداد و شمار فراہم کیے۔ جب کہ مقامی تخمینے کے مطابق 400 سے زیادہ غیر مسلح افراد نے اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں اور 500 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ بہ قولِ عبدالمالک فدا:
داسی توئی کڑی نہ دی ھيچا د خوارانو وينی
لکہ توئی کڑی دی انگریز د مظلومانو وينی
زکہ ليکلے دے سن تيس اپریل ہر چا پہ وينو
چی پہ دی ورز باندے ويڑیا وی د خوارانو وينی
قصہ خانہ قصاب خانہ وہ پہ نظر د خلکو
چی ئی بازار کے بھیدلی د خوارانو وينی

پشاور کے اندرونِ شہر میں چوک یادگار قصہ خوانی بازار سانحے میں ہلاک ہونے والوں کے نام درج ہے۔
فوٹو: ابدالؔی

قارئین، اس سے بڑا کیا المیہ ہوگا کہ سانحۂ جلیانوالہ باغ اور قصہ خوانی دونوں برطانوی نو آبادیاتی نظام کی خونی داستان ہیں۔ لیکن ایک واقعہ کی تاریخ بچہ بھی جانتا ہے، تو دوسرے پہ بے حِسی کی دبیز تہہ جمی ہوئی ہے۔ بہر حال یہ دن جنگِ آزادی میں ایک میل کا پتھر ثابت ہوا۔ جسے “سن تیس شہدا” کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔
_________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: