پشاور جنوبی ایشیا کا ایک سب سے قدیم شہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی ثقافتی ورثے کا تعلق دو ہزار سالوں سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ پشاور مختلف تہذیبوں اور دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے تجارتی کاروانوں کے ملنے کا مرکز رہا ہے۔ چار سے چھے صدی قبل مسیح میں یہ شہر “ہخامنشی” سلطنت کا صوبہ تھا۔ جس کے بعد پشاور  یونانی، موریا، سیتھی، کشن، ساسانی، سفید ہنز، ہندو شاہی، غزنوی، غوری، افغان، مغل، درانی، سکھ اور تقسیمِ ہند سے پہلے برطانیہ کے قبضے میں رہا ہے۔
قارئین، 19 ویں صدی میں پشاور کے کمشنر سر ہربرٹ ایڈورڈز نے قصہ خوانی بازار کو وسطی ایشیا کا “پکاڈلی” یعنی لندن کا وہ مشہور علاقہ جہاں “پکاڈلی سرکس” واقع ہے، کہا تھا۔ کیوں کہ پشاور کئی تاریخی عمارتوں کا امین ہے جس کا ہر عمارت اپنی اپنی کہانیاں رکھتی ہیں۔ ذیل میں مثال کے طور پر چند تاریخی عمارتوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
☆ گھنٹہ گھر: اس کا اصل نام “کننگھم ٹاور” تھا۔ یعنی اس ٹاور کا نام پشاور کے سابق انگریز کمشنر سر جان کننگھم کے نام پر رکھا گیا تھا۔ یہ ٹاور ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کی مناسبت سے وکٹورین طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔
☆ مسجد قاسم علی خان: اس مسجد کی بنیاد 1842ء میں اس وقت رکھی گئی تھی جب پشاور سکھوں کے نرغے میں تھا۔ کسی زمانے میں مولانا عبد الرحیم پوپلزئی افغانستان کے پہلے بادشاہ احمد شاہ ابدالی کی طرف سے پشاور کے قاضی تھےـ موصوف مسجد قاسم علی خان کے پہلے خطیب بھی تھے۔ عبد الرحیم پوپلزئی کے وفات کے بعد مفتی عبد الحکیم پوپلزئی نے یہ منصب سنبھالی۔ مفتی عبد الحکیم پوپلزئی کے وفات کے بعد مفتی عبد الرحیم پوپلزئی نے یہ منصب سنبھالا جن کا نام اپنے دادا کے نام پر رکھا گیا تھا۔
مفتی عبد الرحیم پوپلزئی کے وفات کے بعد مسجد قاسم علی خان کے امام ان کے چھوٹے بھائی مولانا عبد القیوم پوپلزئی ٹھہرے اور ان کی وفات کے بعد مفتی شہاب الدین پوپلزئی مسجد قاسم علی خان کے خطیب مقرر ہوئے جو تاحال مسجد قاسم علی خان کے خطیب کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
☆ لیڈی ریڈنگ ہسپتال: ایلس ایڈتھ آئزکس (لیڈی ریڈنگ) ہندوستان کے وائس رائے روفس آئزکس کی پہلی اہلیہ تھی
 جو 1866ء کو لندن میں پیدا ہوئیں تھی۔ لارڈ روفس آئزکس 1921ء سے 1926ء تک تاجِ برطانیہ کی طرف سے ہندوستان میں وائس رائے تعینات رہے۔ اس دوران میں لیڈی ریڈنگ بھی ان کے ہم راہ یہاں موجود رہیں۔ لیڈی ریڈنگ جو کہ اس زمانے میں کینسر کی مرض میں مبتلا تھی اور وہ فلاحی کاموں میں دل چسپی رکھتی تھی، نے پشاور میں اس ہسپتال کی تعمیر کا کام 1924ء میں شروع کیا تھا جو 1927ء میں مکمل ہوا تھا۔
☆ گور گھٹڑی: گور گھٹڑی پشاور کے تاریخی اور ثقافتی کلچر کا آئینہ دار ہے۔ اس کا کل رقبہ 25600 مربع میٹر ہے۔متعدد تہذیبوں کا مشاہدہ کرنے والا یہ عمارت تیسری صدی قبل مسیح میں تعمیر ہوئی اور ہنز سمیت ساسانی حملہ آوروں کے زیر استعمال رہا۔ گور گھٹڑی سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کی معنی ہے “جنگجو کا قبرستان” جسے بعد میں ہندؤوں نے اسے اپنے عبادت گاہ کے طور پر استعمال کیا۔ یہاں پر آنے والے ہندو لوگ اپنے سر منڈواتے تھے۔ تاہم، گور گھٹڑی کی موجودہ عمارت مغل بادشاہ شاہ جہان کی بیٹی جہاں آرا بیگم نے 1642ء میں تعمیر کی تھی جہاں آرا بیگم نے گور گٹھڑی میں ایک جامع مسجد اور 02 کنوئیں بھی بنائے تھے۔
☆ قصہ خوانی: پشاور کے وسط میں واقع قصہ خوانی بازار تاریخی اعتبار سے خاصی شہرت کا حامل ہے۔ کیوں کہ ماضی میں قصہ گو افراد کی وجہ سے یہ مقبول رہا ہے۔ مغربی اور وسطی ایشیا کے تاجر اور فوجی دستے اس بازار میں مختصر قیام کرتے رہے ہیں۔ اس بازار کا نام دراصل یہاں کے روایتی قہوہ خانوں، تکہ کباب، چپلی کباب اور خشک میوہ جات کی دکانوں کے ساتھ جڑی اس تجارت سے منسوب ہے جہاں پہلے پہل دور دراز سے آئے تاجر یہاں کے مہمان خانوں میں قیام کرتے اور اپنے اپنے ملکوں کے حالات قصہ کی شکل میں بیاں کرتے۔ یہاں کے قصہ گو پورے علاقہ میں مشہور تھے بلکہ اُس زمانے میں قصہ خوانی کو غیر تحریر شدہ تاریخ کا مرکز بھی کہا جاتا تھا۔ تاہم، تاریخی لحاظ سے قصہ خوانی بازار کی اہمیت 1930ء میں برطانوی دور کے دوران میں تحریک آزادی ہندوستان کے دوران میں جلوس پر فائرنگ کا واقع ہے۔ جس میں سیکڑوں خدائی خدمت گار شہید ہو گئے تھے۔
قارئین، برطانوی راج کے خلاف احتجاج جب اپنے عروج پر تھا کہ 23 اپریل 1930ء کو صوبہ سرحد (اَب خیبر پختون خوا) میں انگریز فوج نے غیر مسلح مظاہرین پر گولی چلا دی جس کی وجہ سے سیکڑوں لوگ جاں بحق ہو گئے تھے۔
یہ 23 اپریل 1930ء کا دن تھا جب خدائی خدمت گار کے سرخ پوش پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار میں اکٹھے ہوئے اور برطانوی سامراج سے آزادی کے نعرے لگارہے تھے۔ اپنے راہ نما باچا خان کی گرفتاری کے خلاف سراپا احتجاج تھے جو چند دنوں پیشتر اتمان زئی (چارسدہ) میں کی گئی ایک تقریر کی پاداش میں گرفتار ہوچکے تھے۔ قصہ خوانی بازار میں آنے والے یہ سرخ پوش خدائی خدمت گار مکمل نہتے تھے۔ کیوں کہ ان کا نعرہ، دعوا اور فلسفہ “عدمِ تشدد” تھا۔ احتجاج کو روکنے کے لیے برطانوی فوج اور ان کے دیسی نوکر یعنی “گھر وال رائفلز” کے سپاہی اسلحہ تانے کھڑے تھے۔ “گھر وال رائفلز (فورس)” غالباً 1881ء میں بنگال میں کھڑی کی گئی تھی، جو برطانوی قبضے کے بعد برٹش رائل آرمی آف انڈیا میں ضم ہوگئی۔ تاہم، آزادی کے بعد انڈین فوج کاحصہ بن گئی۔
قصہ خوانی بازار کے سانحہ کے روز کیپٹن رکٹ نے اپنے کمانڈنگ آفیسر میٹکاف سے آرڈر ملتے ہی مظاہرین پر گولی چلانے کے لیے حکم دیتے ہوئے کہا: “تھری راؤنڈز فائر”۔ لیکن کیپٹن کے بائیں طرف کھڑے حوال دار چندرا سنگھ نے چیختے ہوئے کہا: “گھر والے سیز فائر”۔ یہ حکم سنتے ہی “گھر وال رائفلز” کے سپاہیوں نے بندوقیں نیچے رکھ دیں۔ لیکن بدقسمتی سے ساتھ ہی کھڑے کچھ برطانوی فوجیوں نے گولیاں چلائیں اور نتیجتاً چار سو سے زائد پُرامن اور نہتے خدائی خدمت گار شہید اور ہزاروں زخمی ہوگئے۔
داسی توئی کڑی نہ دی ھيچا د خوارانو وينی
لکہ توئی کڑی دی انگریز د مظلومانو وينی
زکہ ليکلے دے سن تيس اپریل ہر چا پہ وينو
چی پہ دی ورز باندے ويڑیا وی د خوارانو وينی
قصہ خانہ قصاب خانہ وہ پہ نظر د خلکو
چی ئی بازار کے بھیدلی د خوارانو وينی
کیپٹن رکٹ نے حوال دار چندرا سنگھ کی یہ حکم عدولی دیکھتے ہوئے غصے میں ان سے پوچھا: “حوال دار، تم نے ایسا کیوں کیا…؟ حوال دار چندرا سنگھ نے جواب دیتے ہوئے کہا: “سر، وہ نہتے تھے اور ہم نہتے لوگوں پر گولیاں نہیں چلا سکتے۔”
یہ قیامت خیز دن گزرگیا۔ سیکڑوں خدائی خدمت گار شہید اور ہزاروں زخمی ہوگئے۔ “دی پٹھان ان آرمڈ” کی مصنف موکولیکا بینرجی کا کہنا ہے کہ سامراجی انتظامیہ نے قتل ہوئے لوگوں کی تعداد کے حوالے سے انتہائی غلط بیانی کی تھی۔ لیکن یہ ایسی صورت حال کے لیے بالکل تیار ہی نہیں تھے۔ کیوں کہ پختونوں کا مجمع دیکھ کر انگریزوں نے یہ طے کر لیا کہ یہاں تشدد ضرور ہو گا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ اہم بات یہ ہے کہ ان کو اتنا مشتعل کرنے کے باوجود یہ خدائی خدمت گار امن پسندی کے اصول سے ہٹے نہیں۔”
قارئین، 23 اپریل 1930ء کا دن تاریخ میں یادگار بن گیا۔ لیکن حوال دار چندرا سنگھ اور اس کے حکم پر بندوق رکھنے والوں کی آزمائش ابھی باقی تھی۔ ان سب پر مقدمہ چلا اور انہیں مختلف نوعیت کی سزائیں دی گئیں۔ یوں حوال دار چندرا سنگھ اور اس کے ساتھی تاریخ میں امر ہوگئے۔ کیوں کہ نہتے لوگوں پر لاٹھی اور گولی چلانا کوئی مردانگی نہیں، جو انگریز فوج کیا کرتی تھی۔
فخرِ افغان باچا خان بابا اپنی کتاب “زما جوند او جد و جہد” میں لکھتے ہیں کہ “میرے ساتھیوں نے بتایا کہ جب اللہ بخش برقی گرفتار ہوئے، تو لوگوں نے پولیس کو گاڑی میں بیٹھنے نہیں دیا۔ پولیس اُن کو پیدل تھانے لے گئی۔ لوگوں کا جلوس ان کے پیچھے چل پڑا۔ تھانے کے باہر ایک بہت بڑے جلوس کی شکل میں کھڑے ہوگئے۔ پولیس نے تھانے کے دروازے بند کر دیے اور مجمعے سے واپس جانے کا کہا۔ مگر لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی گئی اور پولیس نے فوج کو بلا لیا۔ فوج ہندوستانی او گڑوالی تھی۔ ان کو حکم ملا کہ گولیاں چلائی جائیں۔ اُنہوں نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ یہ غیر مسلح لوگ ہیں۔ جنگ کر رہے ہیں اور نہ ہی فساد۔ ان کو ہٹا کر گورے فوج کو بلایا گیا جنہوں نے پر امن ہجوم پر گولیاں چلائیں۔ جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ شہید ہوگئے۔ اس مظاہرے کی قیادت مولانا عبدالرحیم پوپلزئی کر رہے تھے۔
“تحریکِ آزادی اور باچا خان” نامی کتاب میں اس واقعے کا ذکر کچھ یوں رقم ہے کہ “ان شہداء کی تعداد سیکڑوں میں تھی۔ کیوں کہ انہیں بے دردی سے مارا گیا اور ان کی پہچان نہ ہونے کی وجہ سے انہیں دفنایا گیا، تو اسی وجہ سے ان کی تعداد کم لکھی گئی۔”
قارئین، اس کتاب میں 57 لوگوں کی ولدیت اور گھروں کی نشان دہی کی گئی ہے اور اس کے علاوہ لکھا ہے کہ 38 شہداء کو ہسپتال انتظامیہ نے دفنایا۔ جب کہ 24 شہداء کے خاندانوں نے خود اپنی شہداء کی تدفین کی۔ اس کے علاوہ 500 سے زائد لوگ شدید زخمی ہوئے جو صوبے کے مختلف ہسپتالوں میں داخل کیے گئے۔ جب کہ اس سانحے میں مسلمانوں کے علاوہ اس احتجاج میں شامل غیر مسلم بھی مارے گئے۔
__________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: