قارئین، مومند یا مہمند قوم کی تاریخ میں وہ واحد شخصیت جو محض اپنے علاقے کے نہیں بلکہ پورے خطے کا بادشاہ (باچا) بن گئے تھے۔ مومند، خیبر اور قرب و جوار میں ایمل شاہ کے نام سے ان کا باقاعدہ سکہ چلتا تھا۔ یہ شخصیت پختون تاریخ میں ایمل خان مومند کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ بوجوہ ان کا صحیح تاریخ پیدائش تو معلوم نہیں لیکن ان پر تحقیق کرنے والے محققین نے ان کے کارناموں خصوصا مغل حکم ران اورنگ زیب عالم گیر کے ساتھ پانچ سے زیادہ مقابلوں، افغانستان کے علاقے لغمان کے کمانڈر آغر خان کے ساتھ لڑائی اور خوشحال خان خٹک کے ان کی تعریف میں لکھے گئے اشعار سے جو اندازہ لگایا ہے اس کے مطابق ان کی پیدائش کا سال 1032ھ یا 1033ھ ہجری یعنی 1622ء یا 1623ء ہو سکتی ہے۔
قارئین، ایمل خان مومند کو افغانستان کی تاریخ میں ایک قومی ہیرو کی حیثیت حاصل ہے کیوں کہ انہوں نے اپنے زور بازو اور بہادری کی بدولت کئی سال تک مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر کے حملوں کا مقابلہ کیا۔ محققین کے مطابق ایمل خان مومند اور مغل افواج کے درمیان چھوٹے موٹے حملوں کے علاوہ پانچ باقاعدہ جنگیں لڑی گئیں۔ جس میں دونوں اطراف سے ایک لاکھ سے زیادہ افراد قتل ہوئے۔
مومند سرزمین کے علاقے “ہزار ناو” میں رہائش پزیر اور مہمند کی شاخ “کوکوزی” سے تعلق رکھنے والے ایمل خان مومند کے سر پر سرداری کی پگڑی (لونگی، شملہ) مہمند قوم کے روحانی بزرگ میاں جان محمد صاحب نے باندھی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وادی پشاور اور اس کے مضافات میں عظیم پختون راہ نما خوشحال خان خٹک مغل افواج سے برسر پیکار تھے۔ اسی دور میں جب بھی مغل افواج نے دریائے کابل کے کنارے مومند یا خیبر کے راستے افغانستان پر چڑھائی کی کوشش کی۔ ایمل خان مومند نے اپنے محدود جان بازوں کے ساتھ ہمیشہ کام یابی کے ساتھ ان کا راستہ روکا اور اپنے وطن کی آزادی کا پرچم سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ اس بہادری اور جان بازی کی سزا دینے کےلیے ایک مرتبہ مغل افواج نے اپر مومند کے علاقہ ہزار ناو میں واقع ان کے گھر پر حملہ کر کے اسے نذر آتش کر دیا۔ اس حملے اور گھر کی آتشزدگی کا ذکر بھی عظیم خوش حال خان خٹک کے اشعار میں ملتا ہے۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ: “ایمل خان کے گھر کو جلا یا گیا، جس سے ایسا لگا کہ گھر کے تمام خان جل گئے۔ اگر میں زندہ رہا، تو میں یہ نعرہ لگاتا رہوں گا کہ اگر آپ لوگ متحد نہ ہوئے، تو یکے بعد دیگرے یہ آگ پورے افغان قوم تک پہنچ جائے گی۔”
کہا جاتا ہے کہ جب اورنگ زیب عالم گیر نے کشمیر میں رہائش پذیر نیازی پختون قبیلے کے خلاف 1073 ہجری میں سختیاں شروع کرتے ہوئے ان کو تنگ کرنا شروع کیا، تو اسی سال ایمل خان مومند نے مغل حکم رانوں کے خلاف اپنی جد و جہد شروع کردی۔ 1073 ہجری کے بعد ایمل خان مومند اور مغل افواج کے درمیان کئی معرکے ہوئے۔ مغل فوج نے جب تنگ آکر “ہزار ناو” میں واقع ان کے گھر کو نذر آتش کیا، تو مومند قوم نے 1079 ہجری میں ایمل خان مومند کو اپنا باقاعدہ سردار چن لیا۔
قارئین، ایمل خان مومند نے مومند سرزمین کے علاوہ درہ خیبر میں لواڑگی اور علی مسجد کے ساتھ ساتھ پشاور کے مضافات میں بھی مغل افواج سے جنگیں لڑی ہیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ درہ آدم خیل کے علاقے میں بھی قیام کیا۔ اس جگہ کو “ایمل چبوترہ” کہا جاتا ہے۔
اورنگ زیب عالم گیر کی فوج سے بے عزتی کا بدلہ: اس حقیقی واقعے کے متعلق تفصیلات ایک لمبی داستان بن جائے گی۔ واقعات کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ محمد امین خان شہنشاہ اورنگ زیب کا گورنر تھا۔ انھوں نے حسن بیگ کو کونڑ کا حاکم مقرر کیا تھا۔ حسن بیگ کے سپاہیوں نے کونڑ میں ایک صافی خاتون کی بے عزتی کی۔ یہاں پر مقیم صافی قبیلہ نے انتقاما ان تینوں سپاہیوں کو قتل کردیا۔ حسن بیگ نے صافی قبیلہ کو مجرموں کو حوالہ کرنے کا حکم دیا جس سے صافی قبیلہ کے انکار پر دیگر مراعات یافتہ ملکان اور قبیلوں کو صافی کے خلاف کاروائی پر مجبور کیا لیکن ان ملکان اور قبیلوں نے در پردہ صافیوں کو شاباش دی اور بظاہر ان سے شکست کھا کر واپس چلے گئے۔ اس واقعہ نے تمام قبائل میں غصہ کی آگ بھڑکا دی۔ صافی کی سرکشی کی اطلاع گورنر محمد امین کو دی گئی۔ وہ راستے میں صافیوں کو سبق سکھانے کے غرض سے کابل کے سالانہ دورے پر وقت سے پہلے روانہ ہوگئے۔ صافی اور مہمند نے شاہی فوج کا راستہ روک کر ان سے خاتون کی بے عزتی کا بدلہ لینے کےلیے اتحاد کیا۔ جس کےلیے آفریدی اور شنواری قبائل کی باقاعدہ حمایت بھی حاصل کی۔
ان سب نے مل کر درہ خیبر کے لنڈی کوتل میں مورچے بنا کر سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ گورنر امین خان موسم بہار میں کابل کے اس سفر پر روانہ ہوئے۔ انھوں نے پشاوری مہمندوں کے چند ارباب، چند اورک زئی سردار اور خوشحال خان خٹک کو بھی ہم راہ لیا۔ گورنر کو راستہ روکنے کی اطلاع ملی تھی۔ انھوں نے مہمندوں کے پاس مشران کا جرگہ بھیجا کہ شاہی فوج کو راستہ دیا جائے۔ لیکن مہمندوں اور صافی نے اس مطالبے کو مسترد کردیا۔ جس پر گورنر محمد امین نے بھر پور حملے کا حکم دیا۔ شاہی فوج کے خلاف اس حملے میں قبائلی لشکر کی راہ نمائی ایمل خان مومند اور دریا خان آفریدی کررہے تھے۔ ان دونوں کی تعریف میں لکھے گئے خوشحال خان خٹک اور عبدالقادر خان خٹک کے اشعار اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہاں ہم جنگ کی تفصیلات بیان کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن واقعات میں کہا جاتا ہے کہ محمد امین نے تاترہ پہاڑ کے دامن میں ندی کے راستے فوج بچا کر لے جانے کی کوشش کی۔ لیکن اسے وہاں بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں صرف امین بذات خود اور چار دیگر افراد زندہ بچ نکلنے میں کام یاب ہوگئے۔ گورنر کی بیوی بچوں سمیت، بعض افسران کی بیویاں، تمام فوجی ساز و سامان، اسلحہ، ہاتھی اور خزانہ قبائل کے قبضے میں آیا۔ بعد میں فدیہ دے کر بعض خواتین کو رہا کرا لیا گیا۔ لیکن محمد امین کی بیوی نے غیرت کی وجہ سے واپس جانے سے انکار کردیا اور تارک الدنیا ہوگئی۔
خوشحال خان خٹک کی زبانی قبائل کا دعویٰ ہے کہ اس لڑائی میں مغل فوج کے تقریباً چالیس ہزار افراد ہلاک کیے گئے۔ مہمند اور صافی کے اتحاد اور آفریدی و شنواریوں کی بھر پور حمایت نے اورنگ زیب کی فوج کو وہ نقصان پہنچایا جس کی تلافی وہ عمر بھر نہ کر سکے۔
گندہاب اور خاپخ میں مغل فوج کو شکست: درہ خیبر میں تباہی اور بدترین شکست کے بعد اورنگ زیب نے محمد امین کو برطرف کرکے مہابت خان (بانی مسجد مہابت خان پشاور) کو دوبارہ گورنر مقرر کردیا۔ انھوں نے 1273 اور 1274 میں دو مرتبہ خیبر کے بجائے مہمندوں کے راستے (کڑپہ اور خاپخ) سے گزر کر افغانستان جانے کی کوشش کی۔ لیکن خیبر کی فتح سے مہمندوں کا مورال بہت بلند ہوچکا تھا۔ انھیں ایمل خان مومند جیسے تلوار کے دھنی اور مخلص راہ نما کی راہ نمائی نصیب تھی۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں مرتبہ کڑپہ، گندھاب اور خاپخ میں مغل فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور مہمندوں نے اپنی آزادی اور خود مختاری پر آنچ نہیں آنے دی۔
کہا جاتا ہے کہ میدان جنگ میں شکست نہ دے سکنے کے بعد دشمن نے ایمل خان کو راستے سے ہٹانے کےلیے دوسرا حربہ آزمایا۔ ان کے کسی قریبی غدار رشتہ دار کو لالچ دے کر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ ان کا کام تمام کرے گا۔ اس طرح اس مرد میدان کو اپنے ہی علاقے میں زہر دے کر قتل کردیا گیا۔ ایمل خان مومند کے مزار اور آثار کے حوالے سے مومند قوم کے معروف مورخ ادیب اور قومی مشر میرا جان سیال اپنی کتاب “ایمل خان” میں لکھتے ہیں کہ: “ایمل خان کا آخری رہائش تو ہزار نو (امان کوٹ) میں تھا۔ مگر اس سے پہلے جس طرح کہ بیان کیا گیا ہے وہ چکنور میں بھی رہائش پذیر رہے ہیں۔ گاؤں چکنور کا ایک حصہ کوکوزئی قوم کا ہے جس کے آثار اب بھی موجود ہیں اور وفات کے بعد بھی ایمل خان چکنور میں مدفون ہے۔ جن کا مقبرہ وہاں موجود ہے۔”

وادی چکنور میں ایمل خان مومند کی خستہ حال قبر حکومتِ وقت کےلیے لمحہ فکریہ ہے۔
فوٹو: ابدالؔی

یاد رہے کہ چکنور اور ہزار نو ایک دوسرے سے دور دراز علاقے نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہی علاقے میں دریائے کابل کے دونوں طرف واقع دو دیہات کے نام ہیں اور یہاں مومند قوم ہی آباد ہے۔
جاتے جاتے خوشحال خان خٹک کے ان اشعار پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا کہ:
شپگم جنگ مکرم خان شمشیر خان دواڑہ
چہ ایمل کڑہ پہ خاپخ کے تار پہ تار
بیالہ پسہ جسونت سنگھ شجاعت دواڑہ
چہ ایمل ئی پہ گندائو اوویست دومار
دریا خان مے د کچئی گوتے غمے دے
ایمل خان مے د پگڑئی شملکے دے
آفریدو شینوارو زڑہ پہ ولجہ خہ کڑو
ایمل خان مومند پہ ننگ پہ ولجہ دواڑہ
حوالہ جات۔
☆ مہمند قبائل(کل اور آج) شمس مومند
☆ ایمل خان، میرا جان سیال
☆ ایمل خان بابا، مراد لائق
☆ ایمل خان مومند، صفیہ حلیم
____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: