وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اردو زباں کے عظیم ترقی پسند و انقلابی شاعر حبیب احمد المعروف حبیب جالبؔ 12 مارچ 1928ء کو قصبہ دسویا ضلع ہوشیار پور، صوبہ پنجاب ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی منتقل ہو گئے۔ موصوف نے اینگلو عربک ہائی سکول (Anglo Arabic High School) دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ جب کہ مزید تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول جیکب لائن کراچی سے حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد روزنامہ جنگ اور پھر لائل پور ٹیکسٹائل مِل سے روزگار کے سلسلے میں منسلک ہوئے۔
قارئین، موصوف نے پہلا مجموعہ کلام “برگ آوارہ” کے نام سے 1957ء میں شائع کیا۔ مختلف شہروں سے ہجرت کرتے ہوئے بالآخر 1956ء کو لاہور میں مستقل آباد ہو گئے اور ان کا یہ شعر ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
آزادی کے بعد کراچی آ گئے اور کچھ عرصہ معروف کسان راہ نما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہیں ان میں طبقاتی شعور پیدا ہوا اور انھوں نے معاشرتی ناانصافیوں کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔
قارئین، حبیب جالبؔ نے ایوب خان اور یحییٰ خان کے دورِ آمریت میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ جالبؔ کو 1960ء کے عشرے ميں جيل جانا پڑا اور وہاں انہوں نے “سرِ مقتل” کے عنوان سے ایک نظم لکھی، جو حکومتِ وقت نے ضبط کرلی ليکن انہوں نے لکھنا نہيں چھوڑا۔ جالبؔ نے 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں بہت خوب صورت شاعری کی جس ميں انہوں نے اُس وقت کے مارشل لا کے خلاف بھر پور احتجاج کيا۔ یہی وجہ تھی کہ جب پاکستان میں پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی، تو ان کے سیاسی مخالفین کے جلسوں میں حبیب جالبؔ کی شاعری دلوں کو گرمانے کے لیے پڑھی جاتی تھی۔
1958ء میں پہلا آمریت کا دور شروع ہوا، 1962ء میں اسی ایوبی آمریت نے نام نہاد دستور پیش کیا۔ جس پر جالبؔ نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم کہی، جس نے عوام کے جمِ غفیر کے جذبات میں آگ لگا دی۔ “میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا”۔
قارئین، 1970ء کے انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار اکژیتی پارٹی کو منتقل نہیں کیا اور اس کے جواب میں ان پر گولیاں برسائی۔ اُس وقت مغربی پاکستان اس فوج کشی کی حمایت کر رہا تھا، اُس وقت یہ جالبؔ صاحب ہی تھے جو کَہ رہے تھے۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
1974ء میں وزیرِ اعظم بھٹو جن کے کندھوں پر بیٹھ کر مسندِ اقتدار پر پہنچے تھے، ان سب کو نام نہاد حیدر آباد سازش کیس میں بند کر دیا۔ اسی دور میں جالبؔ صاحب کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی:
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو
ضیاء الحق کے مارشل لا میں جب حیدر آباد سازش کیس ختم ہوا اور اس کے اسیروں کو رہائی ملی، تو انہوں نے اوروں کی طرح بھٹو دشمنی میں نہ ہی ضیاء الحق سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی فسطائیت کے ترانے گائے بلکہ انہوں نے کہا:
ظلمت کو ضیاء صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
 آمریت کے بعد جب پیپلز پارٹی کا پہلا دور حکومت آیا اور عوام کے حالات کچھ نہ بدلے تو جالبؔ صاحب کو کہنا پڑا:
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
صراط مستقیم
ذکر بہتے خوں کا
گنبدِ بے در
کلیات حبیب جالب
اس شہرِ خرابی میں
گوشے میں قفس کے
حرفِ حق
حرفِ سرِ دار
احادِ ستم
قارئین، انہیں مشہور پاکستانی فلم زرقا میں “رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے” لکھنے پر شہرت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی فلموں کے لیے گیت لکھے۔ جن میں ہم ایک ہیں، موت کا نشہ، ناگ منی، دو راستے، زخمی، بھروسا اور چند اور فلمیں بھی شامل ہیں۔
قارئین، حبیب جالبؔ ابتدا میں جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں لکھتے تھے۔ حبیب جالبؔ کی سیاسی شاعری آج بھی عام آدمی کو ظلم کے خلاف بے باک آواز اٹھانے کا سبق دیتی ہے۔ حبیب جالبؔ کی پوری زندگی فقیری میں گزری۔ اپنی زندگی میں حکومتی مخالفتوں کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت کا بھی ایک جمِ غفیر ان کے ساتھ تھا۔ جن میں ہر شعبۂ زندگی کے لوگ شامل تھے۔ جن سے آپ کسی نہ کسی قسم کا فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ مگر انہوں نے ایک معمولی سا فائدہ نہ اپنی ذات کے لیے اٹھایا اور نہ اپنے اہلِ خانہ کو کچھ حاصل کرنے دیا۔ ان کے بچے معمولی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر کے جوان ہوئے۔
 قارئین، حبیب جالبؔ کو ان کی گراں قدر خدمات کی وجہ سے “نگار فلمی ایوارڈ” سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ 2006ء سے ان کے نام سے “حبیب جالبؔ امن ایوارڈ” کا اجرا کیا گیا۔
 قارئین، آمروں کی خلاف مزاحمت کی یہ توانا آواز 12 مارچ 1993ء کو لاہور میں انتقال کرگئے اور لاہور کے قبرستان کے سبزہ زار میں دفن ہیں۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا
شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں
کم نظر روشنی سے ڈرتے ہیں
لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری
ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں
دہر میں آہ بے کساں کے سوا
اور ہم کب کسی سے ڈرتے ہیں
ہم کو غیروں سے ڈر نہیں لگتا
اپنے احباب ہی سے ڈرتے ہیں
داور حشر بخش دے شاید
ہاں مگر مولوی سے ڈرتے ہیں
روٹھتا ہے تو روٹھ جائے جہاں
ان کی ہم بے رخی سے ڈرتے ہیں
ہر قدم پر ہے محتسب جالبؔ
شیئرکریں: