آج سے کوئی پانچ صدیاں پہلے پختون خوا ایک آزاد اور خود مختار ریاست تھی جسے “مملکتِ یوسفزیہ” بھی کہا جاتا تھا۔ اس ریاست کی بنیاد 1520ء میں رکھی گئی تھی۔ یہ مملکت سوات کے پہاڑوں سے لے کر کوہاٹ کے میدانوں تک اور ننگرہار سے پنجاب کے جہلم اور مارگلہ کی پہاڑیوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ دبدبہ اس ریاست کا اتنا تھا کہ مغل جیسی طاقت بھی اس علاقے سے آنکھیں چرا کر گزرتی تھی اور اٹک کے مشہور راستے کو چھوڑ کر اکثر مغل حکم ران کوہاٹ کا دور دراز راستہ استعمال کرتے تھے۔
تصور کیجیے کہ آج سے پانچ سو سال پہلے اس ریاست نے اتنی ترقی کر لی تھی کہ زراعت کےلیے باقاعدہ ڈیمز اور تالاب بنائے گئے تھے۔ معیشت اتنی بہتر تھی کہ باقاعدہ منڈیاں لگتی تھیں۔ امن و امان اور عوام کے تحفظ کےلیے جگہ جگہ حفاظتی چوکیاں قائم تھیں، دفاع کےلیے باقاعدہ تربیت یافتہ فوج اور تعلیم و تربیت کےلیے مدرسے تھے۔ مجموعی طور پر یہ دور اس ریاست کی خوش حالی اور آسودہ حالی کا دور تھا۔ کس کی تھی یہ ریاست، کس نے قایم کی یہ ریاست، کس نے اس ریاست کو وسعت دی اور کس کی تلوار نے اس ریاست کو مغل جیسی طاقت کے ہوتے ہوئے منظم اور حقیقی شکل دے دی…؟
یہ ریاست ایک پختون راہ نما نے قایم کی اور دوسرے پختون راہ نما نے اس کو وسعت دے کر اسے ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ پختون قوم کو دیکھا جائے، تو ایک جانب یہ ایک خوش قسمت ترین قوم ہے کیوں کہ اس قوم میں ایسے ایسے لوگ گزرے ہیں جو اپنی مثال آپ تھے۔ لیکن دوسری طرف یہ قوم بدنصیبی میں بھی بہت سوں سے آگے ہے۔ کیوں کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس قوم نے کبھی بھی اپنے ہیروز کو وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ حق دار تھے۔ تاہم، فطرت کا اصول ہے کہ ہر قوم میں بڑے بڑے لوگ پیدا کرتی ہے۔ جو قومیں زندہ ہوں وہ ان کی پیروی میں جا کر کمال تک پہنچتی ہیں اور جو نااتفاقی کا شکار ہو جائیں، وہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی پیچھے رہ جاتی ہیں۔
پختونوں کو مختلف زمانوں میں بڑے بڑے لیڈرز، حکم ران، راہ نما اور کام کے لوگ ملے ہیں۔ ان بیش قیمت لوگوں میں ایک نام “خان الخوانین” یعنی گجو خان کا بھی ہے۔ موصوف وہ شخصیت ہیں جنہوں نے “ریاستِ یوسفزیہ” کو وسعت دے کر اسے ناقابلِ تسخیر بنا دیا تھا۔ ان سے پہلے “مملکتِ یوسفزیہ” کی بنیاد یوسف زئیوں کے پہلے منتخب حکم ران ملک احمد خان بابا نے رکھی تھی۔
قارئین، گجو خان 1490ء کو کابل میں ملک قرع خان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ابھی بہت ہی چھوٹے تھے کہ کابل میں مغل حکم ران الغ بیگ نے دھوکے اور فریب سے یوسف زئیوں کے 700 سرکردہ لوگوں کو دعوت کے بہانے بلا کر قتل کیا۔ اس کے بعد قبیلہ یوسف زئی نوجوان ملک احمد بابا کی قیادت میں دوآبہ (چارسدہ) کی طرف چل پڑا۔
گجو خان نوجوانی کے دنوں سے ہی دلیر، نڈر اور انتہائی بہادر تھے۔ گجو خان نے نوجوانی کے دنوں سے جنگوں میں حصہ لینا شروع کیا تھا اور 1515ء میں 25 سال کی عمر میں سوات کی جنگ میں بہادری کے وہ نقوش چھوڑے کہ ہر سو ان کی واہ واہ ہونے لگی۔ 25 سال کی عمر تک ان کے جسم پر 25 سے زیادہ تلوار اور خنجر کے گھاؤ لگے تھے جس نے گجو خان کے عزم کو اٹل بنا دیا تھا اور ڈر جیسی چیز ان کی کتاب سے نکل چکی تھی۔
ابھی بیس سال کے تھے کہ مغلوں کے خلاف کاٹلنگ کی جنگ میں وہ بہادری دکھائی کہ ہر طرف ان کے چرچے ہونے لگے۔ یہی وہ جنگ تھی جس میں مغلوں کو پہلی بار بدترین شکست کا سامنا ہوا تھا اور جس کے بعد 1520ء میں  “پختون خوا ریاست” وجود میں آئی تھی۔
یوسف زئیوں کے پہلے حکم ران ملک احمد بابا کی وفات کے بعد 1530ء میں یوسف زئیوں کے جرگے نے ملک گجو خان کو صرف 40 سال کی عمر میں اپنا سردار منتخب کیا۔ اس کے بعد ملک گجو خان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ نوزائیدہ مملکتِ یوسفزیہ کو پھیلاتے پھیلاتے پنجاب کے جہلم اور ننگرہار تک وسعت دی۔ گجو خان جنگی بصیرت سے مالامال تھے، انہوں نے اس وقت کوئی ڈیڑھ لاکھ تک تربیت یافتہ فوج بنائی تھی جس میں ان کے پاس کوئی ایک لاکھ تک تربیت یافتہ نیزہ باز اور گھڑ سوار تھے۔ یہ وہ حکم ران ہیں جن کو کسی ایک بھی جنگ میں شکست نہیں ہوئی ہے۔ ان کی بصیرت، بہادری اور تیز نظروں سے مغل بادشاہ بھی خائف رہتے تھے اور جب 1553ء میں مغل حکم ران ہمایون نے کابل کی جانب سے پشاور پر حملہ کیا، تو گجو خان نے ایسا منھ توڑ جواب دیا کہ ہمایون کابل بھاگنے پر مجبور ہو گیا اور اس کے سپہ سالار نے قلعہ بالاحصار میں پناہ لے لی جس کو بعد ازاں جنگی اصولوں کے تحت رہا کیا گیا۔

ملک گجو خان بابا کے مزار میں ایک کتبے پر لکھا گیا شعر ملاحظہ ہو۔
فوٹو: ابدالؔی

قارئین، گجو خان ایک دوراندیش اور قابل انسان تھے۔ ان کی نظر صرف جنگوں پر نہیں تھی بلکہ ساتھ ساتھ اپنی قوم کی خوش حالی کےلیے بھی وہ سرگرم رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے معیشت، زراعت اور تجارت کےلیے بھی بہت کام کیا۔ انہوں نے سڑکیں بنائیں، حفاظتی چوکیاں قایم کیں، مدرسے بنوائے، بارانی پانی کو ذخیرہ کرنے کےلیے تالاب اور ڈیمز بنائے، تجارتی منڈیاں بنائیں، اسلحہ بنانے کےلیے کار خانہ لگایا اور بیت المال کا ادارہ بھی قایم کیا۔ ان کے دور کو یاد کرتے ہوئے اس کے بعد یہ مشہور ٹپہ سارے پختون خوا میں گونج اٹھا کہ:
چی گجو خان د قام باچا وو
د پختنو پہ حجرو بل وو مشالونہ
گجو خان بابا 35 سال تک حکم ران رہے اور 1565ء میں 75 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور اپنے جنگی کمیپ کے علاقے میں ہی دفن کر دیے گئے جس کا انتخاب انہوں نے خود کیا تھا۔ گجو خان صرف یوسف زئیوں کے ہی نہیں بلکہ محمد زئیوں اور گگیانیوں کے بھی متفقہ خان تھے اور اس لیے ان کو “خان الخوانین” بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بعد میں اپنے لوگوں نے اس عظیم حکم ران کو بھلا دیا اور ایک عرصے تک یہ جلیل القدر انسان صوابی کے مشہور گاوں شاہ منصور کے دیہی علاقے “گجوانوں ڈیرئی” میں اپنے مقبرے میں ایک کچی قبر میں پڑے رہے۔ لیکن گم تو وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے کوئی کارنامہ سرانجام نہ دیا ہو۔ وہ لوگ کیسے گم ہو سکتے ہیں جنہوں نے کچھ کیا ہو، اپنی قوم کا سر اونچا کیا ہو، اپنے وقت کے سپر پاور کو ناکوں چنے چبوائے ہوں۔ تاریخ بھی ایسے لوگوں کے ساتھ ظلم نہیں کرتی اور یہی وجہ ہے کہ وقت نے کروٹ لی اور گجو خان نمودار ہو گئے اور ساری دنیا کو ان کے کارناموں کا پتا بھی لگ گیا۔
قارئین، گجو خان کو منظرِ عام پر لانے کا سارا کریڈٹ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی گذشتہ حکومت کو جاتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ کوئی ان کے نام سے بھی واقف نہیں تھا یا ان کا مزار بے نام یا انجان تھا لیکن عام اور سادہ لوگ ان کی قبر کو کسی پیر یا ولی کی قبر تصور کرتے تھے لیکن دوسری جانب تاریخ سے باخبر لوگوں کو پتا تھا کہ یہ قبر عظیم گجو خان بابا کی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تاریخ سے باخبر لوگ تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں اور بات جب اپنے ہیروز کی ہو تو پھر تو ہم بالکل گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں۔
اے این پی حکومت میں 2011ء میں مرحوم اعظم خان ہوتی اور ان کے بیٹے اور اُس وقت کے وزیرِ اعلا امیر حیدر خان ہوتی نے اس طرف خصوصی توجہ دی، اس بارے تحقیق کی ذمے داری عبدالولی خان یونی ورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر احسان علی کو سونپ دی گئی جہنوں نے مورخ فرہاد علی خاور کے ذمہ یہ کام لگایا اور اس طرح تحقیق کے بعد مستند معلومات اور حوالوں کی بنیاد پر اس عظیم سالار اور حکم ران کی زندگی پر “خان الخوانین گجو خان” کے نام سے کتاب بھی چھپ گئی اور گجو خان بابا کے مقبرے کو بھی ایک عالی شان مزار اور کمپلیکس میں تبدیل کر دیا گیا۔
اُس وقت اس کمپلیکس پر صوبائی حکومت کا 8 کروڑ خرچہ آیا تھا۔ 2012ء میں اس وقت کے وزیرِ اعلا امیر حیدر خان ہوتی نے کمپلیکس کا دورہ کیا اور اس طرح پختونوں کا یہ بے مثل بادشاہ اپنی شان و شوکت کے ساتھ دنیا کے سامنے آ گیا۔
گجو خان بابا کے مزار پر انتہائی خوب صورت اور کشادہ کمپلیکس بنایا گیا ہے۔ کمپلیکس کے استقبالیہ پر 6 بڑے سفید کتبوں پر گجو خان کی تاریخ پشتو، اردو اور انگریزی زبانوں میں تحریر شدہ ہے۔ مزار کے گنبدی حصے میں مختلف کتبوں پر گجو خان بابا کے بارے میں مشہور “ٹپے” لکھے گئے ہیں جو کہ سیدھا دل کو چھو لیتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان کی شجاعت، بہادری، لیاقت اور اصول پسندی کی داستانیں بھی سناتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پچھلے دو سالوں سے یعنی (تحریکِ انصاف حکومت میں) بجلی کے بل کے مسئلہ پر اس کمپلیکس کی بجلی کاٹ دی گئی ہے جس کی وجہ سے یہاں ایک طرف پودے اور چمن سوکھ رہے ہیں تو ساتھ ہی مسجد میں بھی نماز پڑھنے کےلیے پانی دستیاب نہیں ہوتا اور نتیجے میں کمپلیکس ویران پڑ رہا ہے۔ ہمارا حکومت اور متعلقہ انتطامیہ سے پرزور مطالبہ ہے کہ جلد از جلد سارے مسائل کو حل کرے تا کہ یہ کمپلیکس دوبارہ آباد ہو جائے۔ یہ جگہ لوگوں کےلیے تفریح اور سیر و سیاحت کا بھی ذریعہ ہے لیکن جب بجلی اور پانی کا مناسب انتظام نہیں ہوتا، تو پھر لوگوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سب سے اہم بات یہ ہے کہ گجو خان بابا کوئی چھوٹے آدمی نہیں تھے بلکہ پختونوں کے محسن تھے، خان الخوانین تھے، مصلح اور دوراندیش حکم ران تھے۔
گجو خان یوسف زئیوں کے دوسرے منتخب حکم ران تھے، ان سے پہلے ملک احمد بابا تھے، تیسرے مصری خان، چوتھے غازی خان، پانچویں ملک کالو خان اور چھٹے ملک بہاکو خان تھے۔
گجو خان جیسے لوگ ہمارا قومی اثاثہ ہیں۔ ان کو تاریخ بھی نہیں مٹا سکتی۔ جو لوگ ان کی خدمت کرتے ہیں ان کو بھی تاریخ زندہ رکھتی ہے اور جو لوگ طاقت اور وسائل کے باوجود بھی اپنے محسنوں اور مشاہیر کو نظر انداز کرتے ہیں، ان کو تاریخ تاریکی کی گھاٹیوں میں دھکیل کر ہمیشہ کےلیے بدنامی کا طوق پہنا دیتی ہے۔
____________________________
قارئین، یہ تحریر معروف کالم نگار ساجد ٹکر کا ہے جسے 28 فروری 2022ء کو “ٹی این این” نامی ویب سائٹ نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شایع کروایا تھا۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: