عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر راہ نما، ممتاز قوم پرست سیاست دان، پختون قومی وحدت کے علم بردار، سابق وفاقی و صوبائی وزیر، سوات کے بااثر سیاسی خاندان کے چشم و چراغ اور وادئ سوات میں شدت پسندوں کے خلاف مزاحمت کی توانا آواز خان محمد افضل خان لالا (مرحوم) 1926ء کو تحصیل مٹہ کے گاؤں برہ درش خیلہ میں حبیب خان کے گھر میں پیدا ہوئے۔
بھاری بھرکم جسم، سپید داڑھی، بھاری آواز، ایک سلجھے ہوئے عظیم انسان، معاملہ فہم، کم گو، مہمان نواز، باکردار، علم دوست اور خاموش طبع کے مالک تھے لیکن بھاری بھرکم شخصیت رکھنے والے بزرگ تھے۔
افضل خان لالا نے ساٹھ کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے پلیٹ فارم سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا۔ 1970ء کے انتخابات میں (نیپ) کی ٹکٹ پر سوات سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور مولانا مفتی محمود کی کابینہ میں صوبائی وزیر کے حیثیت سے کام کرتے رہے۔ جب کہ دو مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے، 1990ء کو قومی اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ حکومت یعنی 1993ء میں وفاقی وزیر برائے اُمورِ کشمیر بھی رہے ہیں۔ انہیں سوات سے پہلے رکن صوبائی اسمبلی کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

سابق وزیرِ اعلا خیبر پختون خوا امیر حیدر خان ہوتی اور محمد افضل خان لالا، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مٹہ کی اَپ گریڈیشن کا افتتاح کرتے ہوئے۔

اُنیس سو ستانوے کے بعد انتخابی سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ وہ تقریباً ایک برس تک سوات کے طالبان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے شورش زدہ وادی میں اپنے آبائی مکان میں محصور رہے، لیکن اُسے چھوڑا نہیں۔ اُس شورش کے دوران اُنہیں کئی مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کے علاوہ اپنے دو نواسوں، ڈرائیور اور ملازم کے قتل جیسے خونی وار برداشت کرنا پڑے۔ تاہم اُن کا پایۂ استقلال پختہ تھا۔ دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ جانے پر آپ کو پیپلز پارٹی کے تیسرے دورِ حکومت میں ”تمغۂ شُجاعت“ سے بھی نوازا گیا تھا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکریٹری بریگیڈئیر (ر) ڈاکٹر محمد سلیم خان، خان لالا کے بڑے بیٹے ہیں۔ فوٹو: ابدالی ایڈمن

ایک قوم پرست سیاست دان ہونے کی خاطر آپ “پختون قومی وحدت” کے زبردست حامی رہے ہیں اور اس ضمن میں لوگوں میں شعور بیدار کرنے کےلیے باقاعدگی سے سیمینار اور مباحثے بھی منعقد کرواتے رہے ہیں۔ آپ ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ چھ کتابوں کے مصنف بھی تھے۔
یہ عظیم شخصیت یکم نومبر 2015ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ اللہ تعالا جنت الفردوس عطاء فرمائے، آمین۔
جاتے جاتے فیض علی خان فیض کے ان اشعار پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا کہ:
‏د جبر نہ باغی د انقلاب سڑے دی نہ مری
د وخت د گوزارونو د جواب سڑے دی نہ مری
د کرکی گناہ گار دی د دنيا د مخہ ورک شی
د مينی او د امن د ثواب سڑے دی نہ مری
شیئرکریں: