یہ مارچ 1979ء کی بات ہے جب پاکستان کے سابق صدر اور وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو (Zulfiqar Ali Bhutto)، نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے مقدمے میں راول پنڈی جیل میں اپنی زندگی کی آخری گھڑیاں گزار رہے تھے۔ ہائی کورٹ اس مقدمے میں انہیں سزائے موت سنا چکی تھی، سپریم کورٹ اس فیصلے کی توثیق کر چکی تھی اور اب ان کی اپیل نظرِثانی کے مرحلے سے گزر رہی تھی۔
ایسے میں 20 مارچ 1979ء کو بھٹو نے سابق گورنر مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) سید ہاشم رضا (Syed Hashim Raza) کو ایک خط لکھا جو غالباً ان کا آخری خط ہے۔ بھٹو نے یہ خط لکھ کر اپنے شریکِ حیات نصرت بھٹو (Nusrat Bhutto) کے حوالے کیا۔ انہوں نے اپنی بہن فخری بیگم کو دیا، تاکہ وہ اسے کراچی میں مقیم سید ہاشم رضا تک پہنچا دیں۔ لیکن بد قسمتی سے وہ سوٹ کیس جس میں یہ خط پڑا تھا، کراچی ایئر پورٹ پر فخری بیگم کے سامان سے کہیں گم ہو گیا۔ یوں یہ خط سید ہاشم رضا تک بروقت نہ پہنچ سکا۔ ہاشم رضا کو جب اس بات کا علم ہوا، تو انہیں بہت افسوس ہوا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے بعد ان کی زیرِ استعمال تمام اشیا جیل حکام نے نصرت بھٹو کے سپرد کیے۔ نصرت بھٹو سے یہ اشیا بے نظیر بھٹو (Benazir Bhutto) تک پہنچیں۔ جنوری 1983ء میں بے نظیر بھٹو کو جبری جلا وطنی پر مجبور کردیا گیا۔ لیکن 1986ء میں جب وہ وطن واپس لوٹیں، تو انہیں اپنے والد سے تعلق رکھنے والی اشیا کو تفصیل سے دیکھنے کا موقع ملا۔
قارئین، ممتاز محقق احمد سلیم بتاتے ہیں کہ "ان اشیا میں کچھ خطوط کی کاربن کاپیاں بھی تھیں جو بھٹو نے بے نظیر، مرتضیٰ بھٹو سمیت دیگر افراد کو لکھے تھے۔ غالباً انہی میں اس خط کی کاربن کاپی بھی تھی جو انہوں نے ہاشم رضا کو لکھا تھا۔
مئی 1987ء میں بے نظیر بھٹو نے ایک خط کے ذریعے ہاشم رضا کو مطلع کیا کہ انہیں حال ہی میں بھٹو کے اس آخری خط کی ایک کاربن کاپی ملی ہے، جسے وہ آپ کے مطالعہ کے لیے ارسال کر رہی ہیں۔ ہاشم رضا کے لیے یہ خبر بہت خوش کن تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اس خط کا متن اپنی خود نوشت سوانح "ہماری منزل” میں شامل کیا جو 1991 میں شائع ہوئی۔
قارئین، ذیل میں ہم اسی خط کا اُردو ترجمہ کر رہے ہیں۔ کیوں کہ اصل خط انگریزی میں تھا۔ اس خط کے مطالعے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کے اس وزیرِ اعظم کی ذہنی توانائیاں موت کی کوٹھڑی میں بھی کس قدر جوان تھیں اور وہ ان حالات میں بھی پاکستان کی تاریخ کے مختلف گوشوں پر کتنی دسترس رکھتے تھے اور انہیں موضوعِ بحث بنا رہے تھے۔
20 مارچ 1979ء
میرے عزیز ہاشم رضا،
یادوں کے شکستہ آئینے میں ایک ایسے دور کے بارے میں آپ کی بھر پور دل چسپی نے میرے دل میں آپ کا احترام بڑھا دیا ہے جو ایک اور ہی دنیا کا زمانہ لگتا ہے۔
موت کی مختصر سی کوٹھری کی تنہائی میں، مَیں نے ان معاملات اور دیگر بہت سے معاملات کے بارے میں بار بار گہرائی اور گیرائی سے سوچا ہے۔ جب آپ لاڑکانہ کے کلکٹر تھے، دوسروں کی بہ نسبت آپ کے میرے خاندان اور شہداد کوٹ کی کھہاوڑ قوم سے گہرے مراسم تھے۔ مزید براں میں اپنے لڑکپن کو یاد کرتا ہوں، تو مجھے اپنے ضلعے کے نفیس کلکٹر یاد آتے ہیں جن کی شائستگی اور مہذبانہ طور اتوار نے میرے نوجوان ذہن کو بہت متاثر کیا تھا۔
پھر کئی برس بعد میں صدر ایوب خان کے ساتھ نانک ہاؤس ڈھاکہ کی انیکسی میں قیام پذیر تھا، ان دنوں گورنمنٹ ہاؤس ڈھاکہ میں تعمیر و مرمت کا کام ہو رہا تھا۔ وہ مسئلہ جس پر ہم تینوں میں بحث ہو رہی تھی، یہ تھا کہ صدر ایوب خان کی منشا کے برعکس جنرل اعظم خاں آپ کی بطورِ چیف سیکریٹری مشرقی پاکستان (East Pakistan) کے معاملے میں آپ کا ساتھ دے رہے تھے۔ جنرل اعظم خان ان دنوں مشرقی پاکستان کے گورنر تھے اور (آپ کو یاد ہو گا) ان دنوں مشرقی پاکستان مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔
اگر کوئی مجھ جیسا بے رحم آمر اپنے خوش آمدی مصاجین کی چکنی چپڑی باتوں میں آ جاتا، تو آج لارڈ ماؤنٹ بیٹن (Lord Mountbatten) آپ سے خط، کتابت اور مراسلت کرتے ہوئے آپ کو سابق گورنر سندھ مزید برآں سابق گورنر مشرقی پاکستان لکھ رہا ہوتا۔
تحریکِ پاکستان میں لفظوں کی انقلابی معنویت کو پیشِ نظر رکھا جائے، تو میں ڈائریکٹ ایکشن کے ایام سے ہی ایک کارکن کے طور پر جد و جہدِ آزادی میں شامل رہا ہوں۔ مگر مَیں غیر منقسم ہندوستان کے آخری وائس رائے کے کردار کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پچھلے 18 ماہ کے دوران میں تقسیم کے زمانے کے بارے میں، مَیں نے خاصا پڑھا ہے اور بار بار پڑھا ہے۔ پاکستان کی سیاست کے بارے میں اپنے تجربے اور 30 سال تک چیزوں کو دیکھنے، جانچنے اور سمجھنے کی استطاعت نے مجھے سیاست کا وسیع تر تناظر میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت دی ہے۔
میرا خیال ہے کہ جب کوئی شخص مجھ جیسے موجودہ حالات سے گزر رہا ہو، تو اس کے اندر ایک خاص قسم کی فیاضی اور رحم دلی پیدا ہو جاتی ہے۔ مگر آپ یقین کیجیے کہ مَیں جذباتیت اور ماضی پرستی کے میٹھے دکھ کا شکار نہیں ہورہا ہوں۔ تاریخ کے لیے میرا احترام ہمیشہ افضل اور برتر رہے گا۔
ماؤنٹ بیٹن نے اپنے پیش روؤں کی روایات کی پیروی کی اور ان کی حکومت کے سیاست کے انداز بھی ویسے ہی تھے جیسی مثالیں ان سے پہلے گزر جانے والے حکم رانوں نے چھوڑی تھیں، اس معاملے میں انہیں کوئی استثنا حاصل نہیں اور بشمول ایڈن کوئی بھی ہوتا جس کے کاندھوں پر برِصغیر کی آئینی اور پارلیمانی تقسیم کی ذمہ داری ہوتی، اسے استثنا حاصل ہوتا۔ مگر وہ یکساں طور پر متنازع بھی ضرور پاتا۔ یہ سب کچھ معروضی انقلابی عمل کی بجائے آئینی ذرائع سے عمل میں آ رہا تھا، دو عملی اور دہرا پن ایک شان دار طریقہ کار کا لازمی اور ناگزیر حصہ تھے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن منقسم ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل کہلائے جا سکتے ہیں مگر وہ غیر منقسم ہندوستان کے آخری وائس رائے تھے۔ وہ نہ مسلمان تھے اور نہ ہندو۔ انہیں تاجِ برطانیہ نے ایک ذمہ داری سونپی تھی اور یہ ذمہ داری ہندوستان میں برطانوی سلطنت کے خاتمہ کے بعد بھی انجام دی جاتی رہی۔
تقسیم اور آزادی کے بعد ہم نے کم از کم دو مرتبہ اپنے ملک پاکستان میں یہ دیکھا کہ ایک مسلط شدہ طاقت یا اگر ہم جمہوری پیرائے میں بات کریں، تو ایک اجنبی طاقت نے انتقالِ اقتدار کے وقت اقتدار کو اپنے پاس رکھنے کے لیے بہت لیت و لعل سے کام لیا۔ رضاکارانہ طور پر مکمل اور جامع انتقالِ اقتدار ایک موہوم سا تصور ہے۔ کسی جد و جہد کے بغیر اقتدار کا غلط ہاتھوں سے صحیح ہاتھوں میں منتقل ہونا ایک مصالحت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ادل بدل ہوتا ہے۔ غیر ملکی نوآبادیاتی اقتدار اور فوجی آمریت کی صورت میں انتقالِ اقتدار بنیادی طور پر مذاکرات کے ذریعے طے پانے والا سمجھوتہ ہوتا ہے۔
بیرونی نوآبادیاتی مقتدرہ یا داخلی نوآبادیاتی سے عوام کو اقتدار کی منتقلی طاقت اور قوت کا امتحان نہیں ہوتا، بلکہ یہ ذہانت کا امتحان ہوتا ہے اور اس میں فائدے کا تناسب اتنا زیادہ ہوگا جتنا اقتدار حاصل کرنے والا فریق باصلاحیت ہو گا۔ ایسی صورتِ حال میں اقتدار کے خواہش مند عنصر کی یہ سوچ غیر حقیقت پسندانہ ہوگی کہ وہ سستے میں چھوٹ جائے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے اطمینان سے بیٹھ رہے۔
آخر کار ہمیں سوچنا چاہیے کہ اقتدار حاصل کرنا فرد کا مسئلہ ہے۔ فرد حاصل کرنا اقتدار کا مسئلہ نہیں ہے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ امن اور عدمِ تشدد کے حامیوں نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ خدا کے لیے ہمیں "عالمِ نراجیت” میں ہی چھوڑ دیا جائے۔ اگر ماؤنٹ بیٹن کے اندر نغمگی جیسی ملائمت نہ ہوتی، تو مقسم ہندوستان کی سرحدیں ریڈ کلف کے سرخ قلم کی نوک سے نہ بنتیں بلکہ انسانی لہو کے دریاؤں سے تشکیل پاتیں۔
یہ بات حتمی طور پر بیان کرنا بہتر نہ ہوگی تاہم میں وثوق سے کہتا ہوں کہ مشرقی و مغربی پاکستان کو مزید طویل عرصے کے لیے متحد رکھے جانے کے مواقع تھے۔ اگر یحییٰ خان کی فوجی ڈکٹیٹر شپ نے 1970-71ء میں مجیب الرحمان اور مجھے اقتدار کی منتقلی کے سلسلے میں سیاسی داؤ پیچ نہ کھیلے ہوتے۔ یحییٰ خان نے اپنے لیے اور فوج کو اقتدار میں پوزیشن دلوانے کی خاطر اقتدار کی منتقلی میں فریب دیے۔ میرا یہ بیان تعصب پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس نظریہ کو "حمود الرحمان کمیشن” رپورٹ میں ظاہر کیا گیا ہے۔ دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کل پاکستان ایک بار پھر یہی شرم ناک کھیل کھیلا جا رہا ہے صرف اس فرق کے ساتھ کہ یہ آج زیادہ سنگ دلانہ اور ظالمانہ طریقہ سے جاری ہے۔ چنانچہ میں اتنا زیادہ مضطرب اور پریشان ہوں کہ ہمارے اس نازک اتحاد کا انجام کیا ہوگا۔
1971ء میں ہم کشمیر اور گور داسپور سے زیادہ رقبے سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 1979ء یا 1980ء میں ہم اتنا نقصان اُٹھائیں گے کہ اگر زیادہ نہیں، تو جتنا نو سال پہلے ہم نے اٹھایا تھا۔ میں دعاگو ہوں کہ میرے یہ خدشات بے بنیاد ثابت ہوں لیکن 1971ء میں ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف کہاں تھے…؟
اقتدار کی آئینی منتقلی میں برطانیہ کے پاس ایک سہارا تھا اور ماؤنٹ بیٹن اس سہارے کو حاصل کرنے کے لیے سیاست کر رہا تھا۔ یہ سہارا یا کھونٹا برطانوی دولتِ مشترکہ (Common Wealth) میں پاک و ہند کی شمولیت تھی۔ ان کے راہ نماؤں کا خیال تھا کہ یہ دولتِ مشترکہ برطانوی سلطنت کا بہترین نعم البدل ثابت ہوگی۔ اس قسم کی چیز کو ہم کم زور لوگ نیا نوآبادیاتی نظام کہتے ہیں۔ ماؤنٹ بیٹن کے کھیل کا محور یہ مقصد حاصل کرنا تھا۔ وہ اس بات کا مصمم ارادہ کیے ہوئے تھا کہ دونوں مملکتوں کو دولتِ مشترکہ میں شریک ہونے پر آمادہ کر لے، بلکہ وہ برطانیہ سے مضبوط روابط قائم رکھیں۔ پاکستان کی مدد نہ حاصل کرنے کی صورت میں وہ بھارت سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے میں جٹا رہا جو کہیں زیادہ وسیع مملکت تھی۔ بھارت سے پاکستان کی نسبت "کچھ لو کچھ دو” کی بنیاد پر معاہدہ کرنے کی زیادہ گنجائش تھی۔ اس معاملے میں ماؤنٹ بیٹن کے ذاتی کردار کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔
ہمارے ساتھ بھی کچھ خامیاں تھیں کہ ہم 14 اگست 1947ء تک اسے پاکستان اور مسلمانوں کا عظیم دوست گردانتے رہے لیکن اگلے دن ہی ہمیں یہ معلوم ہوا کہ وہ ایک عظیم رقیب ہے۔ ہماری لیڈر شپ نہ تو اتنی معصوم تھی نہ اتنی نافہم تھی کہ وہ ایک ایسے شخص کا مکمل تجزیہ نہ کر سکی جو ہمیں اقتدار کی منتقلی اور تقسیمِ ہند پر کسی حد تک اثر انداز ہو سکا اور جس کے ہاتھ میں ہماری اور آیندہ آنے والی نسلوں کی تقدیر کی کنجی تھی۔ ہمارے راہ نماؤں نے اس سے طویل مذاکرات کیے لیکن یہ نتیجہ نکالنا نادرست نہ ہوگا کہ انہوں نے اس کی شخصیت کا پورا جایزہ نہ لیا۔ یہ ہمارے راہ نماؤں کا غیر حقیقت پسندانہ تصور ہوگا بجائے اس کے کہ اس سے آخری برطانوی وائس رائے کی غداری کا ثبوت ملے۔
دولتِ مشترکہ کی اقوام کا سہارا لے کر برطانوی عمال نے خیال کیا کہ برطانیہ امریکا کےلیے ایسا ہی ہوگا جیسا کہ روم کے لیے یونان کی اہمیت تھی۔ لیکن جلد ہی ان کو معلوم ہو گیا کہ ان کا سابقہ جدید رومنوں سے نہیں بلکہ اچھے پرانے اطالویوں سے ہے، چنانچہ جنگ کے ختم ہونے سے پہلے ہی امریکی تیل کے مفادات بےدردی اور دغا بازی کے ذریعہ مشرقِ وسطیٰ میں برطانوی مفادات پر اثر انداز ہونے لگے۔ یہ ایک علاحدہ کہانی ہے۔ میں نے اس کا تذکرہ اس لیے کیا کہ دنیا کی سیاست دوبارہ انتہائی خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔
ہمارے یہاں اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر ڈالنے کا رجحان ہے۔ ہم پیچیدہ معاملات کو عام فہم نہیں بنا سکتے۔ یہ دوسری بات ہے کہ انقلاب کے خون کے ذریعے تختی کو صاف کر دیا جائے۔ معاملے کو تنگ دلی سے طے کرنا یا ڈرائنگ روم کی سازشوں کا اس عظیم جد و جہد میں کوئی موقع نہیں ہوگا۔ یہ خیال کرنا غیر حقیقی ہوگا کہ امپیریل پاور امن کے ساتھ اور خوشی سے اپنے تاج کا سب سے قیمتی ہیرا 40 کروڑ انسانوں کے حوالے کر دے اور اس سہل پسندانہ منتقلی کی کوئی قیمت وصول نہ کرے۔ مہربانی کر کے میرے بارے میں یہ خیال نہ کریں کہ میں خون کا پیاسا ہوں۔
المیہ یہ ہے کہ اس امن پسندانہ منتقلی کے ضمن میں بہائے جانے والے خون کا ایک چوتھائی بھی تقسیم سے پہلے قربان کر دیا جاتا، تو ہم کو برِصغیر میں ایک زیادہ خوش کن اور پائیدار توازن حاصل ہو جاتا۔ یہ لگاتار ذہنی کھنچاؤ اور غیر یقینی حالات اس لیے ہیں کہ عظیم قربانیاں غلط مواقع پر پیش کی گئیں۔
جس خط کتابت کا حوالہ دیا گیا ہے، اس میں "برطانوی سیانے پن” پر کافی زور دیا گیا ہے خواہ سیاست میں اس کے اطلاق کا کچھ اور ہی مطلب ہو۔ ماؤنٹ بیٹن کی رگوں میں برطانوی، جرمن اور یونانی خون دوڑ رہا تھا۔ باوجود یہ کہ یہ تمام خون شاہی خاندان کا ہی تھا۔ ایسا ملاپ تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ تاہم اس سے زیادہ تباہ کن نہیں جتنا کہ عام انگریز کا عام خون جیسا کہ معروف وزیرِ اعظم بنجمن ڈزرائیلی کا تھا۔ ڈزرائیلی اور اس جیسے دوسرے افراد سیاست میں اپنی مہارت کے ضمن میں مشہور ہوئے نہ کہ "سیانے پن” کی وجہ سے۔ اسے سیاست کی زبان میں "شریف بدمعاش” کہا جاتا ہے۔ برطانوی سیاست دان اس قسم کی سیاست کے ماہر ہیں۔ آپ "سر فرانس مودی” گورنر سندھ کے پرائیویٹ سیکریٹری تھے۔ انہیں ان کی خدمات پر کیسے نوازا گیا یا شاید ان کے "سیانے پن” کی وجہ سے جب وہ پنجاب کے گورنر بنے…؟
جب میں آکسفورڈ میں طالب علم تھا، تو کرائسٹ چرچ میں میرے قانون کے استاد مسٹر کرانٹ بیلے تھے۔ انہوں نے ’سیویلے‘ میں لا لارڈز کے اعزاز میں ایک نہایت پرتکلف دعوت دی۔ انہوں نے میرے ساتھ بڑی مہربانی کرتے ہوئے مجھے سائرل ریڈ کلف کے بالمقابل جگہ دی۔ اس سے پہلے میں کبھی ریڈ کلف سے نہ ملا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ یہی وہ شخص تھا جس کے چاقو نے برِصغیر کو تقسیم کیا۔ جب انہیں یہ علم ہوا کہ میں پاکستان سے تعلق رکھتا ہوں، تو انہوں نے خود بخود ان حقائق کو بڑی وضاحت سے بیان کرنا شروع کر دیا جو ان کے ایوارڈ پر اثر انداز ہوئے تھے۔ انہوں نے ان آب پاشی کے پیچیدہ ذرائع، چٹاگانگ کے پہاڑی سلسلہ کی جنگی اہمیت، سکھوں کے مقدس مقامات، سیالکوٹ اور گور داسپور کے حالات کا علاحدہ علاحدہ اور مجموعی طور پر حوالہ دیا۔ انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ گور داسپور کو کشمیر کے مقصد کے طور پر بدنیتی سے انڈیا کو منتقل نہیں کیا گیا۔
جب انہوں نے اپنی بات ختم کی، تو میں نے انہیں بتایا کہ میں مستقبل کے بارے میں زیادہ فکرمند ہوں اگرچہ ماضی بھی اس سے غیر متعلق نہیں ہے۔ میں نے کہا ان تمام ناموافق حالات کو درست کرنے کے لیے ایک عظیم عوامی انقلاب آئے گا۔ میں نے انہیں بتایا کہ گذشتہ دور کے ڈوبتے ہوئے سورج کے بجائے میری نظریں آیندہ طلوع ہونے والی صبح پر مرکوز ہیں اور میں اپنے اس مقصد پر قائم ہوں۔ یہ آزادی "نیم شب” نہ ہوگی جو پنڈت نہرو نے پارلیمنٹ میں حاصل کی بلکہ یہ روشن دوپہر میں عوام کی عظیم فتح ہوگی۔ میں جب ایک لڑکا تھا، تو میں نے اس عظیم فتح کا خواب اپنے پیارے دریائے سندھ کے کناروں پر دیکھا تھا۔ تقدیر کے تمام انقلابات کے باوجود میں ایک لمحہ کے لیے بھی اس خوب صورت خواب کے وژن کو نہیں بھولا ہوں۔ اس ضمن میں ’ریڈ کلف اور ماؤنٹ بیٹن سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ گور داسپور کا کچھ ہی مقصد کیوں نہ ہو، کشمیر یقینی طور پر پاکستان کا 1962 میں بھی حصہ رہا ہے اور 1965 میں بھی۔ اب ہم تیار ہیں اور حالات کا بہاؤ ہم کو پانی کی طرح اپنے ساتھ کھینچے لیے جا رہا ہے۔ ماضی کی ناکامیوں پر مباحثہ کے بجائے اس بات کی زیادہ ضرورت ہے کہ ہم مستقبل پر غور و فکر کریں۔ برطانوی اس سرزمین میں ہماری مدد کے لیے نہیں آئے تھے۔ تم ہم یہ کیوں سوچتے ہیں کہ انہوں نے یہاں سے واپس جا کر ہماری مدد کی؟ ماؤنٹ بیٹن صرف ایک آلہ کار تھا، ہم اس کے اوزار ہیں۔ ہم آزادی کی نسل کے بعد بھی ہٹیلے پن سے اس کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
اس سے پہلے کہ میں خط مکمل کروں دو چھوٹے اور اہم نکتے بیان کرنا چاہوں گا۔ میرے والد جنہیں آپ اچھی طرح جانتے ہیں، ان کو قائدِ اعظم نے اپنے دوست ڈاکٹر جل آر پٹیل کے ذریعہ آمادہ کیا کہ وہ جا کر جونا گڑھ کو پاکستان میں شامل کرائیں، خواہ کچھ بھی ہو۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ تاہم جس طرح جواہر لال نہرو کی ذاتی وابستگی کشمیر کے ساتھ تھی، قائدِ اعظم کی ذاتی وابستگی کاٹھیاواڑ کے ساتھ نہ ہونے کے برابر تھی۔
دوم ازراہ مہربانی یاد رکھیں کہ ہم نے پاکستان کی جد و جہد اس لیے کی تاکہ برابری حاصل کریں، برابری سے کم نہیں، آزادی، آزادی سے کم نہیں عزت و وقار، عزت و وقار سے کم نہیں، بھائی چارہ مگر تعصب نہیں، متحدہ ہندوستان کا خوف ہمارے ملک پاکستان میں ہر ڈر اور خوف سے زیادہ شدت رکھتا ہے۔ چنانچہ اب جو منصوبہ باندھا جارہا ہے اس کو کوئی طاقت بھی نہیں روک سکے گی اور نہ ہی مجھ پر پابندی لگا کر اسے روکا جاسکتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ ہندوستان کے آخری وائسرائے کو گورنر آف بمبئی لارڈ بروبورن (Lord Broborne) سے نسبت ہے۔ لارڈ بروبورن میرے والد کے بہت قریبی دوست تھے۔ ہو سکتا ہے کہ اس لمحے یہ وجہ آپ کو بتانے کے لیے کافی ہے اور میں یہ چاہوں گا کہ آپ اس خط کی ایک نقل لارڈ ماؤنٹ بیٹن آف برما کو روانہ کر دیں۔
آپ کا بے حد مخلص
ذوالفقار علی بھٹو
_________________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔