وطنِ عزیز پاکستان کا قومی پرچم امیر الدین قدوائی نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر تیار کیا۔ قیامِ پاکستان سے تین دن قبل یعنی 11 اگست 1947ء کو اسے قومی پرچم کا درجہ دیا گیا۔
قارئين، جون 1947ء میں انگریزوں نے جب تقسیمِ ہند کا اعلان کیا، تو سندھ کی صوبائی اسمبلی نے تقسیم کی شرائط کے مطابق اس کے حق میں تجویز منظور کی۔ پاکستان کی طرف سے قائدِ اعظم اور بھارت کی طرف سے پنڈِت جواہر لال نہرو اس کمیٹی میں شامل کیے گئے۔ کمیٹی کے اجلاس صبح وائس رائے کے گھر اور سہ پہر اورنگ زیب روڈ دہلی میں واقع قائدِ اعظم کی رہائش گاہ پر ہوتے تھے، جس میں صبح کے نتیجے اور آیندہ اجلاس کے ایجنڈے پر غور کرنے کے ساتھ دوسرے مسایل کا تصفیہ کیا جاتا تھا۔ ایک دن وائس رائے ہند نے پاکستانی پرچم سے متعلق بحث چھیڑتے ہوئے کہا کہ بھارت کے نمایندے تو اس بات پر راضی ہیں کہ باقی نوآبادیوں (کالونیز) کی طرح اپنے جھنڈے میں پانچواں حصہ برطانوی پرچم یعنی “یونین جیک” کےلیے مختص کردیں، آپ کیا کریں گے…؟ قائدِ اعظم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مَیں اپنے رفقا سے مشورہ کرکے آپ کو مطلع کروں گا”۔ اس پر سردار عبدالرب نشتر نے گزارش کی کہ یہ تجویز نہیں ماننی چاہیے، کیوں کہ ہماری صورتِ حال باقی ماندہ برطانوی نوآبادیوں سے جدا گانہ ہے۔ وہ ممالک برطانوی لوگوں کے قبضے میں ہیں۔ برطانوی پرچم سے ان کا خاص تعلق ہے، ہم تو برطانیہ کے قبضے سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہمارا ان سے نہ نسلی تعلق ہے اور نہ مذہبی۔ ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہوگا۔ ایسا پرچم ہماری غلامی کی یاد گار رہے گا”۔ سب کی متفقہ رائے یہی قرار پائی کہ وائس رائے کی تجویز نہیں ماننی چاہیے، لہٰذا قائدِ اعظم نے وائس رائے کو کہا کہ بھارت کی اپنی صوابدید ہے لیکن پاکستان کئی وجوہات کی بنا پر “یونین جیک” کو پرچم میں جگہ نہیں دے سکتا۔
بالآخر یہ طے پایا کہ چوں کہ پاکستان میں کئی اقلیتیں موجود ہیں، اس لیے اگر سب کی نمایندگی کےلیے علاحدہ علاحدہ رنگ یا نشان کے پرچم رکھے گئے، تو موزوں نہ ہوگا، اس کے بجائے ایک حصہ سفید رکھا جائے جو تمام رنگوں کا مجموعہ ہے۔ اس طرح ایک تو سب اقلیتوں کی نمایندگی ہوجائے گی اور دوسرا پرچم میں سفید رنگ کا موجود ہونا ہمارے اسلامی ملک کی امن و صلح کی پالیسی کا بھی مظہر ہوگا۔ قائدِ اعظم نے فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ پاکستان کے پانچ صوبوں کی نمایندگی کےلیے پرچم میں پانچ ستارے بھی رکھے جائیں…؟ سردار عبدالرب نشتر نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ریاستوں کا الحاق بھی ہوگا۔ چند روز طویل بحث رہی اور پرچم کے کئی ڈیزائن تیار کیے گئے۔ پھر قائدِ اعظم کو ایک نمونہ پسند آیا، جس کا ڈیزائن امیر الدین قدوائی نے تیار کیا۔ ماسٹر الطاف حسین اور افضال حسین نے پہلا پرچم اپنے ہاتھ سے تیار کیا۔ تاہم کچھ عرصے بعد پرچم کے حوالے سے خاصی دشواریاں سامنے آئیں، تب تک قائدِ اعظم محمد علی جناح رحلت کر چکے تھے۔
لیاقت علی خان کی طرف سے دشواریوں کا ذکر جب وزراء اور اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا، تو مسلسل بحث کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ پرچم کو اُسی حالت میں رہنے دیا جائے، جس طرح مجلس دستور ساز میں فیصلہ کیا گیا تھا۔
بحوالہ، جنگ نیوز سپیشل ایڈیشن 14 آگست 2019ء
____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔