افغان نیپولین کے نام سے مشہور عمرا خان جندولی 1859ء کو ریاست دیر کے جندول نامی گاؤں میں خان امان خان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ موصوف کی تاریخِ پیدائش کے حوالے سے مؤرخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ راقم (امجد علی اُتمان خیل) نے موصوف کی سکیچ کا جایزہ لے کر یہ اندازہ لگایا ہے کہ ان کی تاریخِ پیدائش 1840ء اور 1850ء کے درمیان ہے۔
قارئین، 1880ء میں عمرا خان اپنے گاؤں (جندول) کے خان بنے اور 1895ء تک ان کی خانی “جندول” (دیر) سے باجوڑ کے حدود تک پھیل گئی۔ مارچ 1895ء میں پھر عمرا خان نے امیرالملک بن امان الملک اور شیر افضل کے ساتھ مل کر چترال پر اپنی حکم رانی کا جھنڈا لہرانے کا پروگرام بنایا لیکن سلطنتِ برطانیہ نے “چترال ریلیف فورس” (Chitral Relief Force) کی مدد سے “رابرٹ لو” (Robert Lo) کی کمان میں دیر چترال کی طرف مارچ کرکے عمرا خان کی حکیم رانی کا سورج رو بہ غروب کیا۔ 17 اور 18 اپریل کی درمیانی شب عمرا خان “منڈا قلعے” سے اپنے بھائیوں میر حسن خان، زین اللہ خان اور میر افضل خان کے ساتھ “اسمار” کی طرف چلے گئے جہاں سے افغان فوج کے کمانڈر غلام حیدر خان نے ان کو امیرِ افغانستان عبدالرحمان کے دربار میں پہنچایا۔
قارئین، افغانستان پہنچنے کے بعد امیر عبدالرحمان نے عمرا خان جندولی کو کہا کہ آج کے بعد آپ کو سالانہ 25 ہزار افغانی روپے وظیفہ دیا جائے گا اور ساتھ ہی آپ (عمرا خان) افغان فوج کے ایک سپاہی تصور ہوں گے لیکن انہوں نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ کیوں کہ موصوف کا دل جندول کےلیے تڑپتا رہتا اور جلا وطنی میں دن رات گزارنے لگے۔
فروری 1896ء میں موصوف حج کرنے کی عرض سے کوئٹہ کے راستے بمبئی گئے۔ پھر سمندری سفر کرکے حجازِ مقدس پہنچے اور حج ادا کی۔ 27 جولائی 1896ء کو حج سے واپسی پر کوئٹہ میں گورنر جنرل “جے اے کرافورڈ” نے موصوف کی مہمان نوازی کی اور ساتھ ہی 13 تا 17 اگست تک عمرا خان زیارت کے مقام پر ایک مہمان کی حیثیت سے قیام پذیر رہے۔ زیارت میں قیام کے دوران میں گورنر جنرل کرافورڈ نے عمرا خان سے کہا کہ حکومتِ برطانیہ نے آپ کی تمام کوتاہیوں کو معاف کیا ہے کیوں کہ چترال کی مہم جوئی کے دوران میں آپ نے فاؤلر اور ایڈورڈ کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ اس لیے آپ مکمل آزادی کے ساتھ یہاں (بلوچستان) میں اپنی زندگی گزار سکتے ہیں لیکن عمرا خان نے جواب دیا کہ میری آزادی کی قیمت میری خانی ہے جو مجھے نہیں مل سکتی۔ اس لیے یہاں زندگی گزارنا میرا مقصد نہیں۔
26 اگست کو عمرا خان کوئٹہ آئے اور پھر وہاں سے چمن آگئے اور سپین بولدک افغان سفیر کو پیغام بیجھا کہ کیا اُن کی واپسی کے لیے انتظامات مکمل ہے کہ نہیں۔ لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ مجبوراً عمرا خان کو سپین بولدک کے سرحد پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ جانا پڑا جہاں چیک پوسٹ پر موجود افسر خیراللہ خان نے آپ سے کہا کہ کابل سے آپ کی واپسی کے لیے انتظامات کرنے کے بارے میں کوئی پیغام نہیں آیا ہے۔ عمرا خان نے مایوسی کی حالت میں وہاں رات گزاری۔ پھر مجبوری کی حالت میں “قلاتِ غلزئی” کے راستے کابل پہنچے۔ لیکن وہ کابل حکومت کے رویے پر نالاں تھے۔ یوں مجبوری اور لاچاری میں زندگی گزارنے لگے۔ پھر 1903ء میں کابل میں وفات پاکر وصال آباد کے مقام “چاردہ” میں سپردِ خاک کردئے گئے۔ اللہ تعالا موصوف کو جنت الفردوس عطا فرمائے، آمین۔
قارئین، عمرا خان کے کل چھے بھائی تھے جن میں محمد زمان خان، میر افضل خان، میر حسن خان، زین اللہ خان، عمرا خان اور محمد شاہ خان شامل تھے۔ یاد رہے کہ میر افضل خان کی اولاد آج کل ڈھیرئی جولگرام تحصیل بٹ خیلہ میں رہائش پذیر ہیں جن میں نامور شخصیات میر افضل خان کے پڑ پوتے ڈاکٹر زبیر (مرحوم) اور مشتاق احمد مست خیل جو اعلا پوسٹوں جیسے (پرنسپل رائٹ ملاکنڈ تھانہ، ڈی ای او ملاکنڈ، چئیرمن مردان تعلیمی بورڈ) کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، شامل ہیں۔
عمرا خان نے تین شادیاں کی تھیں۔ ان کی ایک بیوی نوابِ دیر شریف خان کی بہن تھی۔ دوسری بیوی مہترِ چترال شجاع الملک کی بہن تھی جب کہ تیسری اور آخری بیوی کا تعلق نورستان سے تھا۔ عمرا خان کے دس بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ ان کے بیٹوں کے نام عبدالمتین خان، عبدالرحیم خان، عبدالحمید خان، عبدالوہاب خان، عبدالاکبر خان، عبدالواحد خان، عبدالکریم خان، عبدالغفور خان، عبدالقادر خان اور عبدالحکیم خان ہیں۔ موصوف کی ایک بیٹی نوابِ دیر اورنگ زیب خان کو بیاہ کی گئی۔ دوسری بیٹی امیر افغانستان عبدالرحمان کے بیٹے نصراللہ خان جب کہ تیسری بیٹی کونڑ کے خان محمد زمان خان کو بیاہ کی گئی۔
_____________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔