برِصغیر کی آزادی کی تاریخ میں جب اور جہاں کہیں صوبہ سرحد (اَب خیبر پختون خوا) کی تاریخی پلڑے کا ذکر آئے گا، تو وہ باچا خان کے بغیر نامکمل ہوگا۔ جب کہ پاکستان میں جب اور جہاں کہیں جمہوریت، آئین کی بالا دستی، پِسے اور محروم طبقات و قومیتوں کے حقوق، برداشت، صبر، جہدِ مسلسل، تعلیم برائے امن و آشتی، وسائل پر مساوی حقوق، بنیادی بشری حقوق، تعلیم و تربیت، ادب کے فروغ، متبادل نصاب کے ذریعے متبادل تعلیم، دھرتی سے جڑے محبتوں اور حقوق و فرائض کے درمیان توازن کا ذکر باچا خان کے سابقے اور لاحقے کے بغیر بے معنی اور بے کار ہوگا۔
قارئین، باچا خان اپنی ذات میں انتہائی مذہبی لیکن باہر سے ہمہ وقت سیکولر، وہ تعلیم میں جدید رجحانات کے داعی مگر تربیت کے لیے اپنی اقدار اور روایات کے امین تھے۔ وہ بلاشبہ پختون نیشنل اِزم کے بانی لیکن دوسرے قومیتوں سے امن محبت اور بھائی چارے کے متلاشی بھی تھے۔ وہ خود کرشماتی شخصیت کے مالک مگر سیاسی جد و جہد میں شخصیت پرستی کے مخالف، وہ ایک ناقابلِ فراموش سیاسی ورکر تھے لیکن سیاسی جد و جہد کے لیے قانون، آئین اور جمہوری رویہ اپنانے کے راہ نما تھے۔
باچا خان نے فرنگی راج میں 14 سال اور پاکستان میں ساڑھے اٹھارہ سال جیلیں اس لیے کاٹیں کہ اگر وہ عوام میں رہتے، تو عوام ہی کے کہتے اور عوام ہی کے رہتے۔ یہی ایک نکتہ تھا کہ جس سے فرنگیوں اور ریاستِ پاکستان کو خطرہ تھا۔ عوام کے ذہنوں پر قبضہ کے لیے جہاں آج کل کثیر سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے، میڈیا کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ان لاکھوں دلوں پر راج کرنے والے باچا خان کے پاس نہ تو سرمایہ تھا اور نہ ہی ریاستی وسائل۔ ہاں اگر تھی، تو محبت، وقت کا بہترین استعمال اور خود تک کارکن کی سہل ترین رسائی۔
 قارئین، باچا خان کے پاس معاشرے کی تربیت کا اگر ہدف تھا، تو حصول کے لیے تصوراتی فلسفہ کی بجائے عملیت پسندی کا طریقہ کار۔ اسی عملیت پسندی کے فلسفہ کو لے کر باچا خان نے اپنی دھرتی، زبان، ادب، وسائل اور قوم سے محبت کی تبلیغ کی۔ دوسرے اقوام، زبانوں اور ان کے مشترکہ وسائل پر حقوق کی تسلیمیت کا پرچار بھی کیا۔
قارئین، آج آپ اخبار کے آٹھ صفحات میں جرم و سزا کی بڑھتیں ہوئی خبریں پڑھیں، تو آج بھی ان کا فلسفہ عدم تشدد وقت کے بہترین حل کے طور پر بہ روئے کار لایا جا سکتا ہے۔ آج بھی مٹی سے لاتعلق رکھنے والا نصابِ تعلیم دیکھیں، تو باچا خان کا متبادل نصاب کا تصور اتنا ہی تازہ اور موزوں لگے گا۔ ان کی تعلیمات کل بھی اپنوں اور مخالفوں کے لیے مشعل راہ تھے اور آج بھی ہے۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے، آمین۔
_______________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: