کراچی کے بعد پاکستان کی دوسری بڑی بندرگاہ گوادر ہے جو کراچی سے تقریباً 300 میل اور پاک ایران سرحد سے 45 میل کے فاصلے پر صوبہ بلوچستان میں واقع ہے۔
قارئین، گوادر سترھویں صدی کے اوائل میں ریاستِ مکران میں شامل ہوا اور 1778ء میں خان آف قلات کے زیرِ نگیں آگیا۔ 1781ء میں مسقط کے شہزادہ سلطان بن ناصر خاں اوّل نے اپنے باپ سے بغاوت کرکے مکران میں پناہ حاصل کی۔ خان آف قلات نے گوادر کی سالانہ آمدنی شہزادے کی گزر اوقات کےلیے اُس کے حوالے کردی۔ 1792ء میں باپ کی وفات کے بعد یہ شہزادہ مسقط کا سلطان بن گیا، تاہم اس نے گوادر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ انگریزوں نے جب قلات پر قبضہ کیا، تو یہ صورتِ حال بدستور قائم رہی اور 1947ء میں قیامِ پاکستان کے وقت بھی گوادر سلطنت مسقط و اومان کا حصہ تھا۔
قارئین، قیامِ پاکستان کے بعد مختلف لوگوں نے گوادر کےلیے آواز اُٹھائی جس کی وجہ سے 1949ء میں دونوں ممالک کے مذاکرات بھی ہوئے، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ 1956ء میں جب سر فیروز خان نون پاکستان کے وزیرِ خارجہ بنے، تو انہوں نے دوبارہ اس مسئلے کو اُٹھایا۔ 1957ء میں وہ وزیرِ اعظم بنے، تو انہوں نے یہ قانونی نکتہ اُٹھایا کہ گوادر کی حیثیت ایک جاگیر کی ہے۔ ان چوں کہ حکومت پاکستان نے وہ تمام جاگیریں منسوخ کر دی ہیں جو حکومتِ برطانیہ نے سیاسی اسباب کی بنا پر دی تھیں۔ اس لیے گوادر کی جاگیر کی تنسیخ بھی کی جا سکتی ہے۔ جس پر تاجِ برطانیہ نے پاکستان کے اس مؤقف کی تائید کی اور ان کی مدد کے باعث معاوضہ کی ادائیگی کے بعد گوادر کا علاقہ 08 ستمبر 1958ء کو باقاعدہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔
شیئرکریں: