مشہور تاریخ دان سرن زیب سواتی اپنی کتاب “تاریخِ ریاستِ سوات” کے صفحہ نمبر 152 پر لکھتے ہیں کہ؛ 1930ء میں طوطالئی نامی گاؤں سے تعلق رکھنے والے زرد اللہ نامی شخص نے خدائی خدمت گار تحریک کے ایک جلسے میں ایک تماشائی کی حیثیت سے شرکت کی۔ موصوف کے کسی قریبی رشتۂ دار نے یہ خبر والی سوات (باچا صیب) تک پہنچائی۔ جس پر باچا صاحب نے حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ ملزم (زرد اللہ) کی پیٹ پر پتھر باندھ کر اسے دریائے اباسین میں ڈال دیا جائے۔ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ریاستی ملازمین نے زرد اللہ کو اباسین میں ڈال دیا۔
وقت گزر رہا تھا لیکن کسی کو پتا نہ چلا کہ زرد اللہ زندہ ہے یا مر گیا ہے۔ ایک شخص نے زرد اللہ کی بیوی کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ باچا صاحب سے مل کر ان سے دوسری شادی کی اجازت مانگے۔ اگر اجازت ملی، تو زرد اللہ زندہ ہوگا اور اگر نہ ملی، تو وہ مرا ہوگا۔ جب ان کی بیوی نے باچا صاحب سے اجازت طلب کی، تو اسے دوسری شادی کی اجازت مل گئی۔
اسی طرح پشتو زبان کے معروف شاعر ڈاکٹر سینا خیل اولسیار کہتے ہیں کہ جب “سنڈیا باباجی” کے ساتھ “پختون” رسالہ دیکھا گیا، تو ان کو “شیرا ترپ” میں ایک خشک کنویں میں پھینک کر اوپر سے ان پر برف ڈالا گیا۔
شیئرکریں: