سینئر صحافی اور کالم نگار شبیر درانی اپنے کالم بعنوان “جب ہاتھی ناچتے ہیں، تو دس بیس چیونٹیاں ضرور مرتے ہیں” میں لکھتے ہیں کہ؛ چارسدہ میں ہمیشہ سے یہ روایت چلی آ رہی تھی کہ الیکشن کے دوران میں اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر سیاست دان ایک دوسرے پر تعمیری تنقید کیا کرتے تھے۔ انتخابی مہم کے دوران میں ایک دوسرے کے سیاسی کم زوریوں کو عوام کے سامنے رکھتے تھے اور انتخابات کے بعد جس پارٹی کا امیدوار جیت جاتا تھا، ہارنے والے پارٹی کا امیدوار ان کو مبارک باد دینے ان کے حجرے تشریف لے جاتے۔
ایک دن مَیں (شبیر درانی)، شوکت حسین حسرت اور قمر نڑیوال (مرحوم) رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان کے ساتھ موجود تھے۔ میجر مختیار (مرحوم) پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اسفندیار ولی خان کے مقابلے میں اسی حلقے سے الیکشن لڑ رہے تھے جس پر اب ایمل ولی خان اور فضل محمد خان مدِ مقابل ہے۔ دوپہر کا وقت تھا کہ ہم خان ولی خان بابا کے ساتھ پڑانگ چارسدہ میں میجر مختیار (مرحوم) کے حجرے کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ میجر صاحب کے ایک ہاتھ میں پانی کا لوٹا اور دوسرے میں تولیہ تھا اور اپنے حجرے کے گیٹ پر لگے ایک انتخابی پوسٹر سے کیچڑ صاف کر رہے تھے۔
یہ صورتِ حال دیکھ کر ہم حیران رہ گئے کہ یہ میجر صاحب بھی عجیب آدمی ہے۔ اگر کسی مخالف پارٹی کے ورکر نے اس کی پوسٹر پر کیچڑ ڈالا ہے، تو میجر صاحب کو چاہیے تھا کہ یہ پوسٹر اُتار کر کوئی دوسرا پوسٹر لگوا دیتا۔
اس زمانے میں پوسٹر کاغذ کے ہوا کرتے تھے کیوں کہ فلیکس وغیرہ کا رواج نہیں تھا۔ اس لیے کاغذ کے پوسٹر سے کیچڑ صاف کرنا بہت مشکل تھا۔ جب ہم میجر مختیار کے نزدیک  پہنچے، تو ولی خان نے میجر مختیار سے کہا کہ آپ نے کیوں اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے…؟
میجر صاحب نے پانی کا وہ لوٹا اور تولیہ زمین پر رکھ کر ولی خان سے گلے لگتے ہوئے کہا کہ میرے ہاتھوں پر نالے کے کیچڑ لگے ہیں، اس لیے آپ سے ہاتھ نہیں ملا سکتا۔ جواب میں ولی خان نے بچوں کی طرح میجر مختیار کے ساتھ پیار کیا۔
اسی اثناء میں جب ہم نے پوسٹر کی طرف دیکھا، تو وہ پوسٹر جو میجر مختیار کی حجرے کے گیٹ پر لگا ہوا تھا، میجر مختیار کا نہیں بلکہ اسفندیار ولی خان کا تھا جس پر باچا خان بابا اور ولی خان بابا کے تصاویر تھے۔
دراصل عوامی نیشنل پارٹی کے کسی ورکر نے میجر مختیار کے حجرے پر اسفندیار ولی خان کا پوسٹر لگایا تھا۔ جب پیپلز پارٹی کے کسی ورکر نے یہ دیکھا ہے کہ یہ تو میجر مختیار کے حجرے پر اے این پی والوں نے اپنا پوسٹر لگوایا ہے، تو اس نے نالے کے کیچڑ اس پر ڈال دئیے تھے۔
قارئین، الیکشن کے بعد راقم (شبیر درانی) نے جب میجر صاحب سے مذکورہ واقعہ بارے دریافت کرنا چاہا، تو انہوں نے کہا کہ میں الیکشن کمپین سے واپس آ کر جب حجرے کے گیٹ سے اندر جا رہا تھا، تو دیکھا کہ اسفندیار ولی خان کے پوسٹر پر ہمارے پارٹی کے کسی بے وقوف ورکر نے نالے سے کیچڑ ڈالا تھا۔ اگر یہ پوسٹر میرا ہوتا، تو کوئی بات نہیں تھی۔ کیوں کہ میں اس پوسٹر کی جگہ دوسرا نیا پوسٹر لگوا دیتا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ اسفندیار ولی خان کا تھا۔ اگر میں اس پوسٹر کو حجرے کے گیٹ سے اتار لیتا، تو اسفندیار ولی خان کا دوسرا پوسٹر میرے ساتھ نہیں تھا جو میں اس پوسٹر کے جگہ پر لگوا دیتا۔ اس لیے پہلے تو میں نے حجرے میں پانی کا پمپ لگا کر پائپ لے آیا لیکن اس کی پریشر دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ تو اس پوسٹر کو پھاڑ دے گا۔ اس لیے پھر پانی کا لوٹا اور تولیہ لے آیا تاکہ پوسٹر اپنی جگہ پر قائم بھی رہے اور صاف بھی ہو جائے۔
قارئین، چارسدہ میں یہ روایت صرف پاکستان پیپلز پارٹی یا میجر مختیار تک محدود نہیں تھی بلکہ یہاں پر جمیعت علمائے اسلام (ف) کے مولانا عبدالباری جان صاحب، عبد الفتاح صاحب، شہید مولانا حسن جان صاحب، مولانا گوہر شاہ صاحب، حیات محمد خان شیرپاؤ اور افتاب احمد خان شیرپاؤ تک قائم رہی۔
قارئین، آج کل ضلع چارسدہ کے سیاست میں جو روایت پروان چڑھا ہے، کافی خطرناک ہے۔ کیوں کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے سیاسی پارٹیاں انتخابات کی تیاریوں کے بجائے لشکر کشی کےلیے فورسز تیار کر رہے ہیں۔ 08 فروری 2024ء کو عام انتخابات شیڈول ہے۔ اس لیے تمام پارٹیوں کے ورکرز کو بالعموم اور پاکستان تحریکِ انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی کے ورکرز کو بالخصوص یہ بات ذہن نشین کرنا چاہیے کہ “جب ہاتھی ناچتے ہیں، تو دس بیس چیونٹیاں ضرور مرتے ہیں۔
شیئرکریں: