پشتو زباں کے مشہور رومانوی شاعر اشرف مفتون یکم اپریل 1922ء کو ضلع چارسدہ کے گاؤں رجڑ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام قلندر خان تھا۔
اشرف مفتون چارسدہ کے بہت بڑے جاگیردار تھے۔ وہ باچا خان کے بھانجے، رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان کے پھوپھی زاد اور پروفیسر جہانزیب نیاز کے خالہ زاد بھائی تھے۔ وہ ایک بڑے شاعر، ادیب، فلسفی اور انسان دوست شخصیت تھے۔
ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی، جب کہ اسلامیہ کالج پشاور سے بی اے (B.A) کرنے کے بعد فلسفہ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ لیکن 1950ء کو ریڈیو پشاور میں “پروگرام اسسٹنٹ” کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالنے کی وجہ سے ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ آپ نے باقاعدہ شاعری کا آغاز 1945ء میں کیا تھا۔
موصوف کا پروفیشنل کیرئیر 1972ء میں اُس وقت تنازع کا شکار ہوا، جب ریڈیو پاکستان پشاور میں لفظ “پختون” اور “پختو” پر ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے سے پابندی لگا دی گئی۔ جس پر انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت بطورِ احتجاج استعفا دیا اور یوں 22 سالہ ملازمت کا اختتام ایک خاموش مزاحمت کے ذریعے ہوا۔ استعفا نے ان کو تنہائی میں دھکیل دیا اور تا دمِ مرگ وہ اس تنہائی سے نہ نکل سکے۔ کیوں کہ اس تنہائی کو عروج اُس وقت ملا جب اپنے اکلوتے لختِ جگر زرک مفتون کی دایمی جدائی دیکھی۔
قارئین، پشتو شاعری میں اگر رومانیت کا ذکر کیا جائے، تو غنی خان (لیونے فلسفی) کے بعد دوسرے نمبر پر اشرف مفتون کا نام آئے گا۔ آپ کی تصانیف میں “د شاعر دنیا”، “د جوند سندرہ”، “کاواکے”، “سڑیکے”، “تڑمی اوخکے”، “لوخڑے”، “وگمے”، “ترخی شکرے”، سکونڈاری (کلیات)” اور “حیدر (چھ ریڈیائی ڈرامے” شامل ہیں۔
ان کی فن اور شاعری پر ڈاکٹر اختر علی نے تحقیق کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ پشتو زباں و ادب کا یہ درخشاں ستارہ 14 مارچ 2004ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے اور اپنے آبائی گاؤں رجڑ کے مقبرہ میں آسودہ خاک ہیں۔
(پروفیسر ڈاکٹر محمد سہیل کی تصنیف “تاریخِ چارسدہ” مطبوعہ “مفکورہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹر پشاور”، صفحہ نمبر 277 سے انتخاب)
شیئرکریں: