چشتی چمن جان کا اصل نام ختم النسا تھا، لیکن موسیقی کی دنیا میں “چشتی چمن جان” کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ ایسا اس لیے تھا کہ وہ چشتیہ سلسلے کی پیر و کار تھیں۔
ختم النسا کے والد کا نام عزت خان تھا، جو سارندہ (آلۂ موسیقی) بجانے کا ماہر تھا۔ عزت کا ایک اور بھائی بھی تھا جس کانام لذت خان تھا۔ لذت خان بھی سارندہ بجاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پرانے زمانے میں لوبے (پشتو شاعری کی صنف) اور گیت سارندے کے ساتھ گائے جاتے تھے۔ اس لیے سارندے کے کئی فن کار ہوگزرے ہیں۔ عزت خان اور لذت خان اصل میں پنجتار (ضلع بونیر) کے رہایشی تھے، مگر معاش کے سلسلے میں موضع ٹوپی آئے۔ پنجتار پہاڑی علاقہ تھا۔ ٹوپی صوابی کی زمین کاشت کاری کے لحاظ سے زرخیز تھی اور روزگار کے دیگر ذرائع بھی دست یاب تھے۔
صوابی کے پختون (جنھیں یوسف زئی کہا جاتا ہے) پوری دنیا میں اپنے حسنِ اخلاق، محبت، بھائی چارے، دوستی اور خاص کر مہمان نوازی کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ عزت اور لذت کے آبا و اجداد اپنے اہلِ خانہ سمیت ٹوپی میں آباد ہوگئے۔ یہاں اکثرموسیقی کی محفلوں کا اہتمام ہوتا۔ عزت اور لذت ایک ساتھ مذکورہ محفلوں میں شرکت کرتے۔ لذت خان نے جیسے ہی سارندہ دیکھا اور اس سے جو ں ہی میٹھی آواز نکلی، تو کانوں کے راستے سیدھا اُس کے دل میں گھر کر گئی۔ اُس کے بعد اُس نے باقاعدہ طور پر سارندہ سیکھنے کی ٹریننگ حاصل کرنا شروع کی۔
دوسری طرف عزت خان نے جب اپنے بھائی کو سارندہ سیکھتے وقت دیکھا، تو اُس نے بھی اثر لیا۔ یوں دونوں بھائیوں نے سا رندہ بجانے میں مہارت حاصل کرکے ہی دم لیا۔
لذت خان کے ہاں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ایک کا نام صبر النسا تھا، دوسری کا مہر النسا اور تیسری کا نام بخت النسا تھا۔ بخت النسا بعد میں “مردانئی” کے نام سے مشہور ہوئی جس کے بطن سے مشہور پشتو گلوکارہ کشور سلطان نے جنم لیا۔
اس طرح عزت خان کے ہاں صرف ایک بیٹی نے جنم لیا، جس کا نام ختم النسا رکھا گیا۔ ختم النسا جب بڑی ہوئیں، تو چشتی چمن جان کے نام سے مشہور ہوئیں۔
موسیقی گویا چشتی چمن جان کی سرشت میں تھی۔ اُن کے چچا لذت خان گھر ہی پر ریاض کرتے۔ سارندہ بجاتے اور ساتھ لوبے اور گیت لہک لہک کر گاتے۔ جب چشتی چمن جان 12 سال کی ہوئیں، تو محلے میں شادی بیاہ کے مواقع پر گیت گانے لگیں۔ اُن کی ماں کا نام گل بی بی تھا، جنھیں عام طور پر گلئی کی عرفیت سے یاد کیا جاتا تھا۔
یہ اُس دور کی بات ہے جب کلکتہ (متحدہ ہندوستان) میں آواز ریکارڈ کرنے والی ایک کمپنی ’’ہز ماسٹر وائس‘‘ کے نام سے قائم تھی اور فن کار اپنی آواز ریکارڈ کرنے کی غرض سے کلکتہ جایا کرتے۔ 1925ء کے آس پاس لذت خان اور عزت موضع ہوتی (مردان) نقلِ مکانی کرگئے۔ وجہ یہ تھی کہ اُس دور میں تمام بڑے فن کار “ہوتی” میں رہایش پذیر تھے۔
اب اُس دور کا آغاز ہوا جب چشتی چمن جان اپنی چچا زاد بہنوں کے ساتھ موسیقی کی دنیا میں قدم رکھ گئیں۔ اُس زمانے میں اُمت حسین المعروف امتی جو باجا (ہارمونیم) بجایا کرتے تھے اور دلبر جو “دلبر راج” کے نام سے مشہور تھے (اور نظیر جان کے بیٹے تھے) کی مدد سے چشتی چمن جان نے باقاعدہ گروپ بنایا اور شادی بیاہ کے پروگراموں کو چار چاند لگانا شروع کیا۔
چشتی چمن جان ایک اچھی رقاصہ بھی تھیں۔ وہ میانہ قد تھیں، رنگت بھی سانولی تھی، لیکن آواز کے ساتھ اُس کے حسن کا بھی شہرہ ہوگیا۔ جب 1934ء میں دہلی (متحدہ ہندوستان) میں ’’بانگا فون‘‘ نامی کمپنی کی بنیاد رکھی گئی، تو چشتی چمن جان بھی دلبر راج کے ہم راہ دہلی چلی گئیں۔ وہاں چار نغمے گول بڑے کالے ڈیسک میں ریکارڈ کیے۔ ان نغموں میں ایک ’’اَخ شہ نا نہ نا‘‘، دوسرا ’’دَ زلفو چم چمارہ‘‘، تیسرا ’’باران وریگی زہ لمدہ ولاڑہ یمہ‘‘ اور ٹپے جن میں ’’ستا بہ دَ حسن دوران تیر شی‘‘ شامل تھے۔ مذکورہ نغمے جب لوگوں نے سنے، تو چشتی چمن جان کا نام نہ صرف پشاور میں مشہور ہوا بل کہ افغانستان تک موسیقی سے لگاو رکھنے والے اُن کی آواز کے سحر میں جکڑ گئے۔
اس دوران میں چشتی چمن جان شادی کے بندھن میں بندھ گئیں۔ اُن کے شوہر کا نام گل امت تھا۔ گل امت خود ہارمونیم بجایا کرتے تھے۔ شادی کے بعد دونوں کی جوڑی بہت مقبول ہوئی۔ جب پشاور ریڈیو نے نشریات کا آغاز کیا، تو چشتی چمن جان کے گیت تواتر کے ساتھ ہوا کے دوش پر سوار رہتے۔ بعد میں پشاور ریڈیو کا حصہ بننے کے بعد وہ ’’لائیو‘‘ بھی گانے لگیں۔ اُس دور میں چشتی چمن جان کے ساتھ سازندوں میں گل اُمت، گلو، خوشو، پذیر اور اول میر شامل تھے۔
اس کے بعد چشتی چمن جان اپنے دور کی بڑی فن کارہ بن گئیں۔ اُنھوں نے آل انڈیا ریڈیو دہلی میں بھی گانے گائے۔ اس طرح ’’بانگا فون کمپنی‘‘ میں نہ صرف مظفر خان اور سبز علی خان کے ساتھ ڈھیر سارے دو گانے گائے، بل کہ چچا زاد بہنوں مہر النسا اور صبر النسا کے ساتھ بھی کئی نغمے گول بڑے کالے ڈیسک میں ریکارڈ کیے۔
چمن جان اور سبز علی خان کے کئی گیت مشہور ہوئے، جیسے ’’ڈیری نیٹی دی د راتلو کڑلی بدلی‘‘۔ اس طرح مظفر کے ساتھ گایا گیا یہ دوگانا: ’’ستا غم دے پہ ما زور‘‘ بھی کافی مشہور ہوا۔ پشاور ریڈیو میں مظفر خان، سبز علی، رحمانِ گل اور دیگر گلوکاروں کے ساتھ گیت گائے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ کابل میں رہیں۔وہاں شاہ کے دربار میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ کابل ریڈیو میں بھی اُنھیں اپنے فن کی بہ دولت کئی انعام ملے۔ آخری عمر میں مردان سے پشاور منتقل ہوگئیں۔ پشاور آکر چشتی چمن جان کا فن مزید نکھر گیا۔
چشتی چمن جان اپنے دور کی واحد فن کارہ تھیں، جنھیں معاصر فن کاراؤں میں سب سے زیادہ معاوضہ ملتا تھا۔ اُن کا صرف ایک بیٹا تھا جس کا نام نوبت خان تھا۔ نوبت خان کا فن سے کوئی تعلق یا لگاو نہ تھا اور دُکان داری کیا کرتا تھا۔ بدلتے دور کے تقاضوں کے ساتھ چشتی چمن جان کا من آہستہ آہستہ موسیقی سے بھرتا گیا۔ وہ جس دور میں محض ایک رقاصہ تھیں، تو اُس وقت بھی اُن کا چہرہ کسی نے دیکھا نہیں تھا۔ وہ ایک عزت دار فن کارہ تھیں۔ اُن کی پاک دامنی کے گواہ اُس دور کے فن کار اور عام عوام تھے۔
چشتی چمن جان نے 1975ء تک پشاور ریڈیو میں ڈھیر سارے گانے ریکارڈ کرائے، جن میں سے ایک گانا انگریزی مقولے “Talk of the town” کے مصداق مشہور ہوا، ملاحظہ ہو: ’’زہ پہ اوربل کی قط پہ قط گلونہ گدمہ۔‘‘
خاوند کے انتقال کے بعد چشتی چمن جان نے موسیقی کی دنیا سے منھ موڑ لیا۔ زندگی کے آخری ایام کشور سلطان کے گھر گزارے۔ کشور سلطان اور چشتی چمن جان کے درمیان دو رشتے تھے۔ اگر ایک طرف کشور سلطان اُن کی ماں کی چچا زاد تھیں، تو دوسری طرف چشتی چمن جان کا خاوند کشور سلطان کا ماموں تھا۔
چشتی چمن جان 1988ء میں پشاور میں انتقال کرگئیں اور باچا جان نامی مقبرے میں دیگر ڈھیر سارے فن کاروں کے ساتھ سپردِ خاک کی گئیں۔
چشتی چمن جان کے مشہور گیت ذیل میں دیے جاتے ہیں:
اشنا زما شو مسافر یوازی پاتی شومہ، زڑگیہ تہ دَ چا دَ لاسہ ڈیر جڑیگے، دا دَ سپرلی پہ سیل اوزی جونہ، دَ تودی چینی دَ خوا انزرہ، سلور دی پانڑی پینزہ گلہ، دَ شاہ دَ زلفو چم چمارہ، دَ زڑۂ پہ سر می چری اُو نہ خورہ دوبارہ، مخ دَ نقابہ راسرگند کہ، رازہ دَ مینی یارہ، اَخ شہ نانہ نانا، نا نا نا، لوری پہ زڑۂ کی می سودا دہ، تل بہ خوار و زار وی د دوؤ خزو خاوند، جانانہ ستا مینی زہ اوسومہ پہ اُور، ڈیری نیٹی دی د راتلو کڑلی بدلی، مستہ پہ ٹولی کی خیالولی پہ نخرو رازی، زہ پہ اوربل کی قط پہ قط گلونہ گدمہ۔
محولہ بالا گیت چشتی چمن جان نے ریڈیو سٹیشن میں ریکارڈ کیے تھے۔ اُن کے گائے ہوئے گیتوں کی تعداد تقریباً 80 ہے۔
نوٹ: یہ تحریر پشتو کی کتاب “تیر ہیر آوازونہ” از حاجی محمد اسلم، دوسری اشاعت سنہ 2020ء، مطبوعہ “اعراف پرنٹرز محلہ جنگی پشاور، صفحہ نمبر 137 تا 141 کا ترجمہ ہے۔
________________________
راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 02 مئی 2024ء کو “لفظونہ ڈاٹ کام” نے پہلی بار شرف قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: