فلسفۀ عدمِ تشدد کے نظرئیے پر ایمان کی حد تک یقین رکھنے والے اعلا شخصیت کے مالک اور خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان نے اگر ایک طرف پختون قوم کی بھلائی اور عظمت کی خاطر اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جیل کی نظر کیا، تو دوسری طرف عبدالغنی خان، عبدالولی خان اور عبدالعلی خان جیسی شخصیات قوم کو عطا کرکے قوم پر احسانِ عظیم کیا۔ مذکورہ شخصیات میں ایک علم و ادب، شعر و شاعری اور مصوری میں ید طولی، تو دوسرے میدانِ سیاست میں ایک منجھے ہوئے کھلاڑی ثابت ہوئے۔ انہی شخصیات کے چھوٹے بھائی اور بارُعب شخصیت کے مالک خان عبدالعلی خان 10 اکتوبر (بعض ذرائع کے مطابق 20 اگست) 1922ء کو اتمان زئی چارسدہ میں اُس وقت پیدا ہوئے جب ان کے والد باچا خان بابا جیل میں اسیری کی زندگی گزار رہے تھے۔ آپ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ گھر میں سیاسی ماحول ہونے کے باوجود پوری زندگی سیاست سے دور رہے۔
ابتدائی تعلیم دہرادون کے کرنل براؤن کیمبرج سکول سے حاصل کی، جب کہ بیچلر کی ڈگری اسلامیہ کالج یونی ورسٹی پشاور سے حاصل کرنے کے بعد اعلا تعلیم کے حصول کےلیے انگلستان چلے گئے اور آکسفورڈ یونی ورسٹی لندن سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔
انگلستان سے واپسی پر عملی زندگی کا باقاعدہ آغاز اسلامیہ کالج یونی ورسٹی پشاور میں ہسٹری اور پولیٹیکل سائنس کے لیکچرار کی حیثیت سے کیا۔ وہاں کچھ عرصہ ذمہ داریاں نبھانے کے بعد ان کا تبادلہ گورنمنٹ کالج سرگودھا اور پھر دو سال بعد گورنمنٹ کالج میانوالی میں بحیثیتِ پرنسپل ہوا۔ میانوالی میں بھی دو سال تک خدمات انجام دینے کے بعد 1961ء کو ایچی سن کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے اور سال 1970ء تک بحیثیتِ پرنسپل خدمات سرانجام انجام دیتے رہے۔
1970ء سے 1972ء تک بطورِ صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) کے سیکرٹری ہیلتھ ایجوکیشن اینڈ سوشل ویلفیئر تعینات رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں پشاور یونی ورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے اور وہاں تین سال تک ذمہ داریاں نبھانے کے بعد فیڈرل سیکرٹری آف ایجوکیشن کے منصب پر فائز ہوئے۔ تین سال تک مذکورہ عہدے پر خدمات سرانجام دینے کے بعد گومل یونی ورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے وائس چانسلر مقرر کئے گئے، جہاں دو برس تک اُمور نمٹانے کے بعد ایک مرتبہ پھر پشاور یونی ورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے اور 1981ء تک اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ایک سال تک آبائی گاؤں اتمان زئی (چارسدہ) میں مقیم رہے کہ اس دوران گورنر صوبہ سرحد جنرل ریٹائرڈ فضلِ حق نے مردان میں “فضلِ حق کالج مردان” کا سنگ بنیاد رکھا اور موصوف کو مذکورہ کالج کے پرنسپل کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ جہاں اُنہوں نے دس برس تک اپنی فرائض انجام دیے۔ ان کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے اُنہیں “ستارۂ امتیاز” سے نوازا۔
پختون قوم میں تعلیم عام کرنے والے یہ عظیم شخصیت اور ماہر تعلیم 19 فروری 1997ء کو 75 برس کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ آپ اتمان زئی چارسدہ میں آسودۂ خاک ہیں۔
ربِ کائنات سے دست بہ دعا ہوں کہ ان کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب فرمائے، آمین!