دنیا میں اولوالعزم انسانوں کے تین خواہشات ہوتے ہیں۔ شہرت، دولت اور عزت، تینوں میں شہرت ہی ایسی چیز ہے جو باقی دو اپنے ساتھ خود بخود لے کر آتی ہے۔ حالیہ دہائیوں میں پینٹاگان سے لے کر نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی اسلام آباد تک، میں جرنیلوں کو لیکچر دینے کےلیے بڑے احترام اور باری معاوضہ دے کر بلائے جانے والے شخصیت، افغان اُمور کے ماہر اور سینیئر صحافی و تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی، جن سے ڈپلومیٹس، وزرا اور صدر مشورے طلب کرتے، صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع مرادن کے تحصیل کاٹلنگ کے نواحی گاؤں بابوزئی میں 10 ستمبر 1953ء کو پیدا ہوئے۔
1918ء کو آپ کے والد محترم پیدا ہوئے، تو پیدائیش کے چند سال بعد ان کے والدین گزر گئے۔ والدین گزرنے کے بعد اجرت پر علاقہ مکینوں کی بھیڑ بکریاں چرانے لگے اور یوں چرواہا بن گئے۔ تیرہ، چودہ برس کی عمر میں کچھ تھوڑی بہت نوشت و خواند سیکھ لی۔ مطلوبہ عمر تک پہنچنے پر برٹش انڈین آرمی میں بطورِ سپاہی بھرتی ہوئے اور ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے صوبیدار کے عہدے تک پہنچ گئے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران مصر، لیبیا اور لندن تک کی سفر کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد ملازمت چھوڑی، لیکن 1971ء کو واپس پاکستان آرمی میں ایک مرتبہ پھرشامل ہوگئے، لیکن دوران جنگ قید ہوگئے۔ سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جنگی قیدیوں کے کیمپ رام پور سےان کو چھڑوایا۔
رحیم اللہ یوسف زئی کے والد فوج میں ملازم تھے تب ہی تو انہوں نے اپنی تعلیم ملک کے ان مختلف شہروں سے حاصل کی، جہاں ان کے والد تعینات ہوتے تھے۔ آپ نے چھٹی تک کی تعلیم پشاور کینٹ سکول سے حاصل کی اور مزید تعلیم کے حصول کےلیے کیتھولک کنوینٹ سکول جہلم کا انتخاب کیا جب کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان کراچی کے آرمی پبلک سکول سے پاس کیا۔ آپ کے سابق کلاس فیلوز میں پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی بھی شامل تھے جس کی اپنی ایک پہچان تھی۔
آپ کے والد چاہتے تھے کہ بیٹا آرمی میں افسر بنے۔ جس کےلیے اُنہوں نے ISSB کے تمام مراحل طے کئے لیکن میڈیکل ٹیسٹ میں نظر کی کمزوری آڑے آئی اور یوں آپ ایک کمیشنڈ آفیسر منتخب ہونے سے رہ گئے، جس پر باپ، بیٹے کو انتہائی دکھ کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن آپ ہمت نہ ہارے اور شعبہ طب کا انتخاب کیا۔ کراچی میں پارسیوں کی سائنس کالج میں داخلہ لینے گئے لیکن میڈیکل کالج میں داخلے کےلیے انٹری ٹیسٹ کے نتائج آئے تو دو نمبروں  سے ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔ یہ وہ وقت تھا جب والد بنگال میں قید تھے اور پوری اہلِ خانہ کو کٹھن حالات نے گھیر رکھا تھا۔ تعلیمی اور گھریلو اخراجات کےلیے 80ء کی دہائی میں کراچی سے نکلنے والے اخبار روزنامہ “سن” سے پروف ریڈر کی حیثیت سے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا۔ جب کالج سے آتے تو گھر پر کچھ آرام کرنے کے بعد شام 06 بجے اخبارات کے دفاتر جاتے اور رات دو بجے تک اپنی فرائض انجام دیتے۔ جس کی عوض ان کو ماہانہ 180 روپے یعنی اس وقت کے 09 ڈالرز ملتے۔ مزدوری نے پیشے کی شکل اختیار کرتے ہوئے سب ایڈیٹر بنادیا۔ 1986ء کو پشاور منتقل ہوئے جہاں انہوں نے چند سال روزنامہ “دی مسلم” کے بیورو چیف کی حیثیت سے کام کیا، اور بعد میں روزنامہ “دی نیوز” سے منسلک ہو گئے، جو رشتہ ان کی موت تک قائم رہا۔
 بطورِ پختون فطرتاً آپ افغان اُمور سے بہ خوبی واقف تھے۔ انہوں نے اُسامہ بن لادن کی انٹرویو کی جس کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ آپ ان چند صحافیوں میں سے تھے جنہوں نے طالبان کے کارروائیوں کو رپورٹ کیا اور 1995ء کو خود قندھار گئے۔ آپ روزنامہ جنگ کے ساتھ بطورِ کالم نگار کام کررہے تھے۔ اس سے پہلے ٹائم میگزین کےلیے بھی کام کر چکے تھے۔ بی بی سی اردو اور بی بی سی پشتو کے نمائندہ خصوصی بھی رہے۔ افغانستان، شمالی علاقہ جات اور صوبہ خیبر پختون خوا کے سیاسی و سماجی اُمور کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ دن رات ایک کرکے اس میدان میں اپنے خامیوں اور کمزوریوں کی تلافی کی اور ایک وقت وہ بھی آیا کہ 180 روپے کا ایک معمولی پروف ریڈر، انٹرنیشنل میڈیا کو چند منٹ انٹرویو دینے کےلیے 5000 ڈالرز کا معاوضہ لیتے تھے، اور یوں رحیم اللہ یوسف زئی ملکی اور بین الاقوامی میڈیا پر ایک نام بن گئے۔
ان کے صحافت خدماتی کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے ان کو 2004ء کو تمغہ امتیاز اور 2009ء کو ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔
قارئین! زندگی نے رحیم اللہ یوسف زئی کو ایک موقع دیا اور انہوں نے وہ ضائع نہیں کیا بلکہ اس سے فائدہ اٹھا کر دکھایا۔ زندگی ہر کسی کو ایک نہیں درجنوں مواقع فراہم کرتی ہے مگر اس سے فائدہ اٹھانے والے بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں۔ اگر آپ فوج میں جنرل ہوتے، تو شاید پاکستان میں اپنے سپاہی بھی شاید ان کے نام سے واقف ہوتے۔ اگر ڈاکٹر ہوتے، تو کہیں ایک کلینک کی چار دیواری میں دس مریضوں کے ہوکر رہ جاتے۔ مگر بطورِ ایک سنجیدہ صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے چہار دانگ عالم میں ایسی شہرت حاصل کی کہ شاید ہی کسی کی حصہ میں آئی ہو۔ نامور صحافی و تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی ایک چرواہے کا بیٹا ہیں۔ جو 09 ستمبر 2021ء کو کینسر کی وجہ سے کوچ کرگئے، جن کا نماز جنازہ اگلے ہی دن یعنی جمعے کو گیارہ بجے مردان میں کاٹلنگ انٹرچینج سوات ایکس پریس وے کے قریب ادا کی گئی اور یوں صحافتی تاریخ کا ایک روشن عہد تمام ہوا۔
اللہ تعالا مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور لواحیقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!
شیئرکریں: