اللہ تعالا جب کسی شخصیت کو نوازتا ہے، تو ان میں بہ یک وقت کئی اعلا صفات یکجا کرکے ان کو اپنی ذات نکھارنے اور سنورنے کا ہنر عطا کرتا ہے۔ وادئ سوات کے تحصیلِ مٹہ کے گاؤں کوزہ درش خیلہ کی ذرخیز مٹی نے بھی ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت کو جنم دیا ہے جس کو اللہ تعالا نے بہ یک وقت کئی صفات اور نعمتوں سے نوازا ہے۔ موصوف اپنے تحریر و تقریر میں بحرِ بیکراں کی مانند اپنے لیے اُردو اور پشتو ادب کی شعر و شاعری میں اپنا ایک الگ مقام و مرتبہ بنالیا ہے۔
ان کا شیریں لب و لہجہ اور دانش مندانہ گفتگو اپنے مخاطب کو سحر زدہ کرکے محفلِ یاراں کو کشتِ زعفران بنا دیتی ہے۔ کیوں کہ وہ ایک باذوق انسان ہونے کے ساتھ ساتھ علم پرور، ادب شناس اور بیدار تخیل کے حامل شخصیت ہیں۔ سماج میں مثبت انسانی قدروں اور رویوں کے حامی ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں امن، بھائی چارے اور علم و ادب کے فروغ کےلیے عملی کردار کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عملی طور پر بہتر علمی و تہذیبی معاشرے کے قیام کےلیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔
قارئین، ان کا بھاری بھر کم جسم اب ایسا بھی نہیں کہ اسے فربہی یا موٹاپے پہ مملو کیا جائے۔ اپنے جسم کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ خاص کر پیٹ تو بالکل نہیں بڑھنے دیتے کیوں کہ ان کو احساس ہے کہ کمان سے نکلا ہوا تیر اور بڑھا ہوا پیٹ کھبی واپس نہیں آتے۔ لمبے ہاتھ، بازوں تگڑے، سینہ چوڑا، کندھے مناسب اور گھٹی گردن سے قدرے اوپر چہرے کی خدوخال پہ نظر ڈالی جائے، تو ان کی سرخ و سپید رنگت میں اپنی اک خاص جاذبیت موجود دکھائی دیتی ہے۔ ہلکی سی سیاہ داڑھی اور اسی تناسب سے ہلکی سیاہ مونچھوں کے مابین دو عنابی ہونٹوں پہ ہلکی مسکان سجی رہتی ہے۔ قدرے اُبھرے سرخ و سفید گال، متناسب ناک، نرم لب و لہجہ، شیریں گفتار، کانوں میں رس گھولتی آواز اور جھیل ایسی گہری آنکھیں جن پہ نازک سا نظر کا چشمہ ان کی شخصیت کو اور بھی پرکشش بنا کر چار چاند لگا دیتے ہے۔ تا ہم سر کے بالوں کی اب وہ نوعیت نہیں رہی جو کھبی ہوا کرتی تھی۔ ماتھے سے اُڑے ہوئے بالوں نے ان کی شفاف پیشانی کو اور بھی کشادہ بنادیا ہے۔ بالوں کی کمی نے سر کے دائیں بائیں ہلکی کھڑکیاں بھی بنانا شروع کردی ہیں۔ بظاہر ہلکے اور سیاہ نظر آنے والے بالوں کو غور سے دیکھیں، تو ان میں کہیں کہیں چاندنی کے وہ تار بھی چکمتے نظر آنے لگتے ہیں جو ان کو عندیہ دے رہی ہیں کہ یہ گرانڈیل جوانی اب پختگی کی دہلیز پہ پہنچنے والی ہے۔ وجاہت، نفاست اور شرافت کا یہ پیکر ادبی و سماجی حلقوں میں عزیز اللہ غالبؔ کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ میری خوش نصیبی ہے کہ ان سے ایک عرصہ سے ربط و ضبط ہے۔
آپ کا اصل نام عزیز اللہ جب کہ عزیز اور غالب کا معنا ایک ہونے کی خاطر غالبؔ تخلص کرتے ہے۔ آپ نے یکم اگست 1992ء کو تحصیل مٹہ کے گاؤں کوزہ درش خیلہ میں ایک علمی و ادبی گھرانے کے چشم و چراغ شاہ زیب قمر کے گھر آنکھ کھولی۔
ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول کوزہ درش خیلہ سے حاصل کی، لیکن کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر فیملی سمیت کراچی منتقل ہوئے جس کی وجہ سے ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ 2011ء میں اپنی تعلیمی سفر کا دوبارہ آغاز کرتے ہوئے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بورڈ آف کراچی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
آپ نے عملی زندگی کا باقاعدہ آغاز 2016ء میں بطورِ ٹیکر آپریٹر خیبر نیوز (کراچی سٹوڈیو) سے منسلک ہوکر کیا۔ جب کہ دو سال بعد “بول نیوز” کراچی میں مذکورہ منصب پر فائز ہوئے۔ شعبہ صحافت سے وابستہ ہونے کی خاطر سال 2015ء میں کراچی سے “جرنلزم” کا ڈپلومہ بھی حاصل کرلیا ہے۔
آپ کو بچپن ہی میں شاعری سے دلی لگاؤ تھا اور یہی وجہ ہے کہ زمانہ طالب علمی سے ہی ٹوٹی پھوٹی شعر و شاعری کیا کرتے تھے، لیکن اپنی شاعری کا باقاعدہ آغاز 2003ء میں عبدالرحمان بابا کی شعر،
کر د گلو کڑہ چی سیمہ دی گلزار شی
ازغی مہ کرہ پہ خپو کے بہ دی خار شی
سے متاثر ہوکر کیا۔ آپ کی شاعری کا فنی خوبی اور بنیادی وصف اس کی سلاست اور روانی ہے۔ قاری بہت جلد آپ کے شعر سے معنا اخذ کرتے ہوئے ان کی خیال اور جذبہ تک پہنچتا ہے۔ کیوں کہ اُنہوں نے زبان کے طے شدہ اصول اور مزاج سے کبھی روگردانی نہیں کی۔
آپ شاعری کے مختلف اصناف یعنی غزل، نظم، قطعہ اور حمد و نعت پر طبع آزمائی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جب کہ خود ان کا پسندیدہ صنف غزل ہی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اب تک سات سو سے زائد غزلیں لکھ چکے ہیں۔ جس پر وقتاً فوقتاً مختلف گلوکاروں یعنی استاد خیال محمد، شہنشاہ باچا، رئیس باچا اور جمال وغیرہ جیسے قدآور شخصیات نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔
قارئین، نوجوان کسی بھی قوم اور معاشرے کا اثاثہ اور مستقبل ہوتے ہیں۔ جب وہ اپنی قومی احساس و فریضہ، ثقافت اور تہذیب و تمدن سے عاری ہوکر سیاسی و مذہبی جنونیت، ٹک ٹاک اور پب جی کی لت میں مبتلا ہوجاتا ہے، تو اس کیفیت کو غالبؔ نے اپنے ایک شعر میں کچھ یوں سمویا ہے کہ
د ھغہ   قام  دغہ   خکارہ زوال  دے
پہ خوب اودہ چی ئی زلمی پاتی  شی
زہ چی  پختو  پریگدمہ  پت  پریگدمہ
بيا  خو  دی  ژوند  لما بيخی پاتی شی
جب کہ پختون قوم کے شہدا کی عظمت اور غیرت کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
د غزنوی  او  ابدالی   پہ  رنگ  کے
د ہر دخمن مخی تہ ڈال شومہ زہ
د  محبت    معراج  تہ  ورہ  سیدم
زکہ د سيالو سرہ  سيال  شومہ زہ
زما  پہ  مرگ  بہ  جہان  فخر  کوی
پہ خپلو  وينو کے  سمبال شومہ زہ
اس کے علاوہ غالبؔ میں ہوں بندہ تیرا، خدا کا نام کافی ہے، خدا کا نور ہے غالب، اصحابؓ سارے پھول ہیں، میں نوکر ہوں صحابہؓ کا، ہم صحابہؓ کے غلام اور میری ماں کتنی پیاری ہے، جیسے سپر ہٹ نعتوں اور نظموں کے خالق بھی ہے۔
آپ 2011ء سے معروف مذہبی پارٹی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ایک فعال کارکن کی حیثیت سے کام کررہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے اب تک مولانا فضل الرحمان، مولانا زرولی خان (مرحوم)، سینیٹر حافظ حمداللہ اور جمعیت کےلیے چار سو کے لگ بھگ ترانے لکھے ہیں۔ جن میں مولانا آرہا ہے، مولانا آگیا ہے، کون بچائے گا پاکستان، قائد دلیر ہمارا ہیں، گلی گلی شور ہے اور سب اسلام آباد چلو، جیسے ترانوں کو پاکستان ڈیمو کریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) جلسوں میں خوب پذیرائی ملی۔ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ آج تک تحصیل سطح سے لے کر قومی سطح تک پارٹی کی جانب سے ان کی کوئی خاطر خواہ حوصلہ افزائی نہیں ہوئی جو ان کے خدمات سے منھ پھیرنے کی مترادف ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان کو اس بات کا افسوس تک نہیں۔ ان کے بقول، “میں جمعیت علمائے اسلام یا اس کے قائدین و اکابرین کےلیے نظمیں اس لیے نہیں لکھ رہا کہ یہ لوگ مجھے اس کا صلہ دیں گے۔ یہ میری ضمیر کی آواز ہے جس پر میں نے لبیک کہا ہے۔”
اس کے علاوہ آپ نے اُردو اور پشتو ملی نغمے بھی لکھے ہیں۔ جن میں “اس پرچم کے سائے تلے اب آنا ہے، اپنے پاکستان کو بچانا ہے” کو 2007ء میں پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ (ISPR) کی جانب سے ریلیز کردیا گیا تھا جس کے آج یوٹیوب پر لگ بھگ ایک کروڑ ویورز ہے۔
قارئین، شاہ سوارِ ادب اور فکر و فن کے اس جان باز سپاہی نے اپنی سادگی اور سادہ بیانی سے سامعین کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا ہے۔ کیوں کہ غالبؔ صاحب وقت کے تقاضوں پر اترنے والی وہ تگڑی آواز ہے جو احساس کی مختلف راہوں سے ہوکر گزرتی ہے۔ ان کے ہر قسم کے مضامین جن میں سیاسی منظر نامے کی تصویر ہو، عشقیہ ہو، یا اس میں اپنے پسے ہوئے عوام کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی کی گئی ہو، اس میں انہوں نے فنی نزاکتوں کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ ان کی شاعری میں شعری حسن ہی نہیں، فنی لوازمات بھی ہیں اور معنی بھی۔ لفظ اور خیال سے ہم آہنگ اتنا نرم و ملائم، دل کش اور رومانی انداز کے ساتھ ہوتا ہے کہ جس سے ان کی اعلا شاعری اور ہنر کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔
پشتو زبان کے معروف شاعر امجد علی سورجؔ، غالبؔ صاحب کے شاعری اور گھرانے کے بارے میں کچھ یوں کہتے ہیں: “غالب کی شاعری اور شخصیت پر سیر حاصل بحث کی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ غالب نے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی ہے۔ ایک ایسی علمی گھرانے میں جو علمی حوالہ سے منفرد اور روشن نام رکھتے ہوئے اپنے اندر ایک اور ادبی شخصیت حبیب اللہ ہمدردؔ بھی رکھتے ہیں۔ جنہوں نے غالبؔ سے پہلے اپنے آپ کو ادبی و صحافتی میدان میں منوایا ہے۔ میں ذاتی طور پر غالبؔ کو پچھلے بیس سال سے جانتا ہوں جب ہم کراچی میں ایک ساتھ ادبی بحث مباحثے کیا کرتے تھے۔ غالبؔ عہدِ حاضر کے جوانوں کا نمائندہ شاعر ہے۔ کیوں کہ ان کی شاعری میں شعریت کے ساتھ ساتھ مقصدیت بھی صاف نظر آتی ہے۔ لب و لہجہ اور انداز بیان دل کش ،اسلوب بیان سلیس اور رواں ہے۔ کلام اور اظہار خیال کو مشکل پیرائے میں بیان کرنے سے بچاتے ہیں۔ اشعار مصنوی گہرائی و گیرائی کے حامل معلوم نہیں ہوتے ہیں۔”
قارئین، یہ ایک حقیقت ہے کہ مشاعرے کبھی شاعروں کو ثبات و استحکام نہیں بخشتے۔ کیوں کہ شاعر کے قدم تاریخ کی زمین پر اُس وقت جم جاتے ہیں، جب ان کے الفاظ جاکر کاغذ پر ٹہر جائیں۔ اسی وجہ سے ہم غالبؔ کو زیرو مارکس ہی دیں گے۔ کیوں کہ اُن کے نام کے ساتھ ابھی تک کسی کتاب کے مصنف ہونے کا لاحقہ نہیں لگا۔ لیکن غالبؔ، پھر بھی ادبی لحاظ سے تحصیل مٹہ کو آپ جیسی شخصیت کا مسکن ہونے پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ یہاں کی علمی درس گاہوں، سماجی حلقوں اور شخصی کرداروں کو ہمیشہ آپ جیسے لوگوں کی ضرورت باقی رہے گی۔ جاتے جاتے غالبؔ کے یہ اشعار قارئین کی نذر کرنا چاہوں گا کہ
درد سے لبریز آہیں خود بہ خود رک جائے گی
اپنے دل میں میری یادوں کو بسا کر دیکھنا
زندگی کیا چیز ہے یہ راز بھی کھل جائے گا
دل لگا کر دیکھنا یا دل جلا کر دیکھنا
_______________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 29 اپریل 2022ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: