خیبر پختون خوا میں جہاں انگریز حکومت کے حمایت یافتہ جاگیردار اور خوانین موجود تھے، وہاں سر تور فقیر جیسی شخصیت کو دشمنی میں ’’میڈملا‘‘ کا خطاب بھی ملا تھا۔ اس عظیم شخصیت پر متعدد لوگوں نے تاریخی مقالے لکھے ہیں، جو یقیناً اس کے حق دار ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے اپنے وقت کی سپر طاقت ’’برطانیہ‘‘ کو للکارا تھا۔ پختون قوم کا یہ عظیم ہیرو صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع بونیر کے ریگا نامی گاؤں میں 1820ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے تھے۔ آپ کا اصل نام سعداللہ خان تھا، لیکن لوگ انہیں میڈ ملا، ملا مستان، اور لیونے ملا جیسے ناموں سے جانتے اور پکارتے تھے۔ جب کہ بر سوات میں ’’سر تور فقیر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ آپ کے والد کا نام ملک حمد اللہ تھا، جو ’’بونیر وال ملک‘‘ کے نام سے مشہور تھے، اور ان کا تعلق ابازئی قبیلے سے تھا۔
آپ جنون کی حد تک انگریز سامراج کے مخالف تھے۔ اس لیے ’’ملا مستان‘‘ یا ’’لیونے ملا‘‘ کہلایا۔ پہلے پہل آپ کو بر سوات میں ’’بونیر وال‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ سرتور فقیر جوانی میں کبڈی کے ماہر اور زبردست کھلاڑی تھے۔ آپ نے بچپن ہی سے مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔ اس مقصد کے حصول کےلیے وہ اجمیر (ہندوستان)، افغانستان اور تاجکستان تک گئے تھے۔
اس بات کا ابھی تک کوئی تصدیق نہیں ہوا کہ سرتور فقیر کے اولاد میں کتنے بیٹے اور بیٹیاں تھیں۔ کیوں کہ انہوں نے مختلف علاقوں میں شادیاں کی تھیں  جہاں انہوں نے سکونت اختیار کی تھی۔ آپ کی سکونتی علاقوں میں بونیر کا علاقہ ’’ریگا‘‘ اور سوات کا فتح پور شامل ہیں۔ آپ نے فتح پور میں آخری شادی سے پہلے دو اور شادیاں کی تھیں۔ اس بارے روشن خان کچھ یوں لکھتے ہیں:
“جس وقت سرتور فقیر کا انتقال ہوا اس وقت ان کے چار بیٹیاں اور ایک چار سالہ بیٹا عمرا خان ان کے سوگواروں میں شامل تھے۔ فتح پور (سوات) میں اس اولاد کے علاوہ بونیر ریگا میں بھی ان کے چار بیٹے آزاد خان، عبداللہ، مجیب اللہ اور امیر افضل رہتے تھے۔ آزاد خان سوات آیا تھا اور ساتال (مدین) میں رہائش اختیار کی تھی۔ عبداللہ، سرتور فقیر کی زندگی میں ہی سدھار گیا تھا اور باقی دو بیٹے ریگا (بونیر) میں رہ گئے تھے۔ کانڑا میں سرتور فقیر کا ایک اور بیٹا امیر فقیر بھی تھا۔ ایک بیٹی باچا زرینہ بشام میں تھی۔ امیر فقیر ریاست سوات کی فوج میں ایک چھوٹے درجے کا افسر تھا۔ ایک بیٹا عمرا خان جو فتح پور میں رہتا تھا، 1988ء کو اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے ہیں۔”
آپ کچھ عرصہ اجمیر اور ہندوستان کے دیگر علاقوں میں رہے۔ دورانِ سفر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا جذبہ موجزن ہوا۔ اسی جذبۂ حریت کی بدولت واپس آکر بونیر کی بجائے سوات میں سکونت اختیار کی اور فتح پور میں میں رہنے لگے۔ کیوں کہ ان کے مطابق یہی جگہ لشکر تشکیل دینے کےلیے موزوں تھی۔ آپ نے لوگوں کی نفسیات کے مطابق اپنے آپ کو پیری اور بزرگی کی شکل میں آشکارا کیا، جوں ہی عقیدت مندوں میں اضافہ ہوا، تو آپ نے انگریزوں کے خلاف اعلانِ جہاد کیا۔ وہ سیدھے سادھا آدمی تھے اور سیاسی چالوں سے ناواقف تھے۔ ہندوستان سے واپسی پر جب بونیر واپس آئے، تو انہوں نے لوگوں کو انگریز کے خلاف جہاد کرنے کو کہا لیکن اس مقصد کے حصول میں ناکام رہے۔ لنڈاکی (سوات) میں قیام پذیر ہونے سے پہلے آپ مختلف علاقوں میں گھومے اور پھرے تھے، جس کی وجہ سے “ھڈا ملا‘‘ کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔
1887ء کو آپ نے لنڈاکی کے مقام پر ڈیرہ ڈال دیا اور اس کی کرامات کا شہرہ ہوگیا۔ لنڈاکی میں ان کے ڈیرہ کا ذکر ایک لوک گیت میں کچھ یوں ہوا ہے:
پہ لنڈاکی ورتہ دیرہ سرتور فقیر دے
ڈینگ فرنگے د زان پہ ویر دے
18جولائی 1897ء کو انگریزوں تک یہ خبر پہنچی کہ ایک فقیر نے لنڈاکی میں ڈیرہ ڈال کر لوگوں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ کے بارے میں مشہور ہیں کہ سونیگرام (بونیر) کے مقبرہ میں چار فقیروں کے ساتھ اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ جنہوں نے سرتور فقیر کہا کہ ہم آپ کےلیے دعاگو رہیں گے اگر تم ملاکنڈ کی ذمہ داری اپنے سر لے لو۔ اس کے بعد انہوں نے سرتور فقیر کےلیے دعا مانگی اور یوں انہوں نے ذمہ داری لیتے ہوئے جہاد شروع کیا۔ ملاکنڈ کا جہاد بہت مشہور ہے۔ تبھی تو اولسی ادب میں اس کے کئی حوالے پائے جاتے ہیں۔
سرتور فقیر نے لنڈاکی سے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ 26 جولائی 1897ء کو وہ کچھ لڑکوں بالوں کے ساتھ لنڈاکی سے نیچے کی طرف روانہ ہوئے۔ تین دنوں میں سرتور فقیر نے بیس ہزار افراد جمع کر لیے۔ یہ لشکر ایک ہزار افراد سے ہوتا ہوا چکدرہ میں آٹھ ہزار اور مالاکنڈ میں 12 ہزار افراد تک پہنچ گیا۔ اس لشکر نے رات نو بجے ملاکنڈ پر ہلہ بول دیا اور کوارٹر گارڈ کو قبضے میں لیتے ہوئے سارے اسلحہ پر قبضہ جما لیا۔ لیوی کے ایک جمع دار نے رات کے سوا نو بجے میجر ڈین کو یہ خبر دے دی کہ قبائل ملاکنڈ تک پہنچنے والے ہیں۔ فوجی بمشکل اپنی بندوقوں تک پہنچے تھے کہ حملہ ہوگیا۔ اس دن ملاکنڈ پر جو لڑائی شروع ہوئی تھی، وہ یکم اگست تک جاری رہی تھی۔ جب کہ 26 تاریخ کو چکدرہ پر جو حملہ ہوا تھا وہ دوم اگست تک جاری رہی تھی۔ 27 جولائی کو لندن اور شملہ کی سرکار کو ان حملوں کی نوعیت کا اندازہ ہوا اور انہوں نے 30 جولائی 1898ء کو ملاکنڈ فیلڈ فورس کی منظوری دے دی۔ ملاکنڈ اور چکدرہ پر حملے ایک وقت اور ایک ہی دن ہوئے تھے۔ مذکورہ لڑائی بارے روشن خان لکھتے ہیں:
“ملاکنڈ کی جنگ میں 19 قبائلی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور انگریز فوج کا ایک کرنل، ایک میجر، ایک لیفٹیننٹ اور 521 سپاہی مرگئے تھے۔ جب کہ 1023 سپاہی زخمی ہوئے تھے۔ اسی طرح چکدرہ حملہ میں انگریز فوج کے دو آفیسر، 16 سپاہی اور 26 گھڑ سوار مرگئے تھے۔ دوسرے حملہ میں ایک انگریز صوبیدار، ایک میجر، ایک لیفٹیننٹ اور 110 پولیس سپاہی مرگئے تھے جب کہ اور 120 زخمی ہوگئے تھے۔”
لیکن جیمز سپین کہتے ہیں کہ اس جنگ میں برطانوی فوج اور قبائلی دونوں کے مردوں کی تعداد چند سو تھی۔ اس نے اس جنگ کو “Great Tribal Rising” کہا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ انگریزوں کو اس جنگ میں قبائلیوں کے مقابلے میں زیادہ جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دوران جنگ سرتور فقیر زخمی ہوئے اور ان کے دائیں ہاتھ کی ایک انگلی بھی کٹ گئی مگر وہ پھر بھی بڑی بے جگری سے لڑے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سرتور فقیر نے انگریزوں کو ملاکنڈ جنگ میں کافی جانی نقصان سے دوچار کیا تھا۔ اُس جہاد میں ایک شخص عبدالغنی بھی بنفس نفیس شریک تھے۔ اس کے علاوہ فتح پور کے میاں دم خان اور ان کے والد حبیب خان (خان بابا) جو جنکی خیل نامی قبیلے کے سردار بھی تھے، سرتور فقیر کے کمان میں مصروف جہاد تھے کہ شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ میاں دم خان اور ان کے والد بزرگ وار خان بابا فتح پور کے جنوبی حصہ یعنی باغ ڈھیرئی کے قبرستان میں سرتور فقیر کے جائے مرقد سے پیوست مدفن ہیں۔ میاں دم خان کی کتبہ پر تاریخ پیدائش 1870ء اور وفات 1954ء درج ہے۔
25 جولائی 1897ء تک پورے علاقے کے لوگوں کو سرتور فقیر ایک پاگل دکھائی دیتا تھا۔ کوئی اسے ’’ملا مستان‘‘ کہتا اور کوئی سرتور فقیر، لیکن جب اس نے شہرت حاصل کی، تو انگریزوں نے اس کے حوالے سے میاں گلوں سے مشورہ کیا۔ میاں گلوں نے پولیٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ سے کہا کہ اسے کوئی ترجیح نہ دیں اور ہم اس کے پیچھے نوکر بھیج کر اسے اٹھوا لیں گے۔ جس کے بعد میاں گلوں نے موسیٰ خیل خانان کے تعاون سے سرتور فقیر کی راہ میں روڑے اٹکائے اور علاقہ بدر کرنے کی غرض سے اس کے پیچھے نوکر بھیج دئیے۔ لیکن مذہبی (جذبات) کے ذریعے اس نے پوری وادیٔ سوات، حتی کہ دیر تک کافی طاقت پکڑی تھی۔ میاں گلوں نے تادم آخر سرتور فقیر کے خلاف ہر قسم کے راز انگریزوں تک پہنچائے ہیں۔ اس لیے کہ ان کا پولیٹیکل ایجنٹ کے ساتھ بڑا تعلق تھا۔ ایک بار تو اسے سیدو شریف میں اپنی خان قاہ میں مہمان کے طور پر بلایا بھی گیا تھا۔ میاں گل عبدالودود نے 1908ء کو پولیٹیکل ایجنٹ تک یہ خبر پہنچائی کہ سرتور فقیر اپنے لشکر کے ساتھ عزی خیل تک پہنچ گیا ہے اور پولیٹیکل ایجنٹ کو اپنے تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔
قارئین! اگرچہ سر تور فقیر نے شکست کھائی مگر انہوں نے اس شکست کو تسلیم نہیں کیا۔ اس کے بعد وہ ہر سال انگریزوں پر حملہ کرنے کے منصوبے بناتے تھے۔ جس سے انگریز سخت مشکلات میں گھرے ہوئے تھے۔ اس لیے انگریزوں نے ان کو مارنے کا منصوبہ تیار کیا اور ایک خان کو رشوت دی جس نے ایک بوڑھی عورت کے ذریعے شکر کدو میں زہر ملا کر فقیر بابا کو کھلایا۔ زہر کے اثر سے وہ بیمار پڑگئے اور آخر کار 1917ء کو یہ عظیم مجاہد ہمیشہ کےلیے اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ آپ فتح پور کے جنوب میں واقع باغ ڈھیرئی کے قبرستان میں مدفن ہیں۔
شیئرکریں: