نہ جانے اس جہانِ آب و گل میں اچھے لوگوں کی قلت کیوں ہیں اور کبھی کبھار تو یہ قلت قحط کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس وقت سکون کا سانس آدمی لے لیتا ہے جب کوئی مرنجانِ مرنج شخصیت پیدا ہوتی ہے اور آگے چل کر وہ معاشرے کےلیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم ثابت نہیں ہوتی۔ جو اس ذرخیز مٹی کی ذرخیزی میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ انہی نابغہ روزگار شخصیات میں سے ایک وادی سوات سے تعلق رکھنے والے ہمہ جہت شخصیت ساجد علی خان ابو تلتاند صاحب کی بھی ہیں، جن کیے فیض عام سے سبھی مستفید ہوتے ہیں ۔
متوسط جسم، درمیانہ قد، سانولی رنگت، پرتاب آنکھیں اور ان پر کالا چشمہ (دور سے دیکھا جائے تو مستی اور عیش کی گمان ہوتا ہے لیکن وہ لوازمات جو مستی اور عیش کےلیے موصوف اس پر پورے نہیں اترتے، اس لیے نزدیک سے یہ گمان غلط ثابت ہوتا ہے کہ شاید یہ چشمہ نظر کی کمی کےلیے ہو)، آپ بالکل جمع پونجی کی قائل نہیں اس لیے جیب پیسوں سے اکثر خالی پڑی ہوتی ہے۔ خود بہترین کھانے کا شوقین نہیں، اس لیے مہمانوں کو بھی پرتکلف کھانا کھلانے کی عادت نہیں اور کھلے دل سے ماحضر تناول فرمانے کی دعوت دیا کرتے ہیں۔ کالج میں دوستوں کے ساتھ گپ شپ لیکن کلاس میں ہوم ورک نہ کرنے پر بچوں کو ڈانٹ، باہر اندازِ گفتگو کچھ اور، لیکن کلاس میں پڑھانے کا انداز کچھ اور، داڑھی مونچھ صاف، اخباری کالم والی تصویر میں 1990ء کے شاہ رخ خان دکھائی دیتے ہیں۔ اگر چہ تصدیق اقبال بابو نے انہیں متن چکروتی کا نام دیا ہے۔ آج دیکھا جائے تو بھی وہی شاہ رخ خان دکھائی دیتے ہیں مگر درمیانی عمر والے۔ آواز میں دھیما پن، لہجہ پرتاثیر، چال ڈھال میں سلاست روی، مہین مسکراہٹ اور روشن چہرہ جس سے متانت اور سنجیدگی ٹپکتی ہے ۔
ابو تلتاند صاحب یکم جون 1976ء کو یوسف زئی قبیلے کے اکاخیل خاندان میں احمد جان کے گھر برہ درش خیلہ میں پیدا ہوئے۔ ساتویں جماعت تک ریگولر تعلیم حاصل کی۔ پھر آٹھویں جماعت کا امتحان پشاور بورڈ سے پرائیویٹ طور پر پاس کیا اور جماعت نہم میں داخلہ لے لیا۔ 1993ء کو میٹرک امتحان پاس کیا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد پرائیویٹ امتحانات دیتے ہوئے اردو میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ اسی طرح تعلیم سے وابستگی کی بنا پر بی ایڈ بھی کیا ہوا ہے۔
قارئین! آپ اپنے بچپن اور گاؤں کے دوستوں، ہم جماعت ساتھیوں اور رشتہ داروں سے راہ و رسم رکھتے ہیں۔ زندگی میں کئی اتار چڑھاؤں آئے ہیں، لیکن جواں مردی دکھاتے ہوئے ان حالات اور واقعات کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا ہے۔ الجھی ہوئی زندگی کو سنوارنے کی غرض سے ہر قسم محنت مزدوری سے کھبی منھ نہیں موڑا۔ لیکن اس کے باوجود موصوف کو زندگی میں خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہوئی، جس کا ان کو افسوس بھی نہیں ہے۔ البتہ اپنے تلخ تجربات کو بروئے کار لاتے ہوئے کئی دیرینہ دوستوں اور رشتہ داروں کی سرپرستی کرکے انہیں کامیابی سے ہم کنار ضرور کیا ہے۔
ادب سے کس دور میں جڑے…؟ یہ معلوم نہیں، تاہم پرائمری میں میاں نظیر جان مولوی صاحب (مرحوم) سے خوش خطی سیکھتے ہوئے قلم سے رشتہ جوڑ بیٹھے۔ بچپن ہی میں خط و کتابت ایک قسم کا مشغلہ بن گیا تھا۔ چوتھے جماعت میں پڑھتے تھے کہ پہلا خط تحریر کیا۔ بچپن ہی سے مطالعے کے شوقین تھے۔ ہر قسم کی کتب پڑھنے کا شوق تھا۔ سکول کے زمانے میں مولانا مودودی کی خلافت و ملوکیت اور دیگر کتابیں مطالعہ کرچکے تھے۔ اسی طرح ٹارزن کے کہانیاں، ڈائجسٹ اور نسیم حجازی کے مختلف ناولوں کو گھول کر پی گئے۔ زندگی میں کسی چیز کی چوری نہیں کی، البتہ کتاب سے دلی لگاﺅں کی وجہ سے اپنے بڑھے بھائی سے پڑھنے کےلیے کتابیں ضرور چوری کیا کرتے تھے۔ اپنی نصابی کتب محض امتحان کی خاطر پڑھتے تھے۔ ادبی، تاریخی، سیاسی، جغرافیائی اور دیگر معلوماتی کتابیں جہاں سے ملتیں، اسے لانے کی حتی الوسع کوشش کرتے تھے۔ علم و ادب سے دلی لگاؤں کی وجہ سے ڈھیر سارے شاگرد بھی رکھتے ہیں جن میں راقم (اخترحسین ابدالؔی) بھی شامل ہے۔
ادب، خط وکتابت، کتاب اور مطالعے کے جنون نے “حکیم زے برادران” کے ساتھ تعلق جوڑنے پر مجبور کیا۔ جن کی محفل ایک علمی درس گاہ سے کم نہ تھی۔ حکیم زے برادران سے کچھ سیکھنے کی غرض سے روز ان کے ہاں جایا کرتے ہیں۔ یہ سفر جاری تھا کہ فروری 2009ء میں ابدالی سکول اینڈ کالج (مٹہ) سے وابستہ ہوئے۔ جہاں کے علم دوست اور دانشور پرنسپل بخت منیر صاحب نے ابدالی کالج کی لائبریری (ابدالی کتابتون) کی ذمہ داری انہیں سونپ دی۔ ساتھ ہی ساتھ ابدالی ایجوکیشن سسٹم کے سالانہ میگزین ”گلدستہ ابدالی “ کی ادارت بھی ان کی سپرد کی۔ اس سے آپ کو منفرد تجربہ حاصل ہوا، جب کہ قلم کو مزید تقویت روزنامہ “آزادی” سوات نے دی۔ جب مذکورہ اخبار کے ادارتی صفحہ کی مدیر امجد علی سحابؔ نے ان کی تحاریر کوادارتی صفحہ میں مناسب جگہ دی اور تب سے اب تک سرپرستی کر رہے ہیں۔
ابو تلتاند صاحب خدادا اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے اچھی طرح لیس ہیں۔ اردو اور پشتو زبان و ادب پر اسے خوب دسترس حاصل ہے۔ جس کی مثال سر عزیز الحق کی تاثرات میں کچھ یوں ملتی ہے: ”ساجد صاحب کے ادیبانہ اور پیشہ ورانہ تکمیل ان کے اخلاقی اور ذاتی زندگی کے سنہرے اصولوں پر ہی اختتام تک پہنچتی ہے۔ جس میں دیانت داری، ایمان داری، محنت، لگن اور جذبہ جیسے مواد سے ہمیشہ آراستہ پائے جاتے ہیں۔“
آپ نے اپنے دوستوں اور طلبہ کی حتی الوسع رہنمائی کی ہے۔ آپ اپنے طلبہ کو ہر ممکن فائدہ پہنچانے کی کوشش میں ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ اسی طرح اکبر علی ابشارؔ ان کے بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں” آپ زندگی کے ہر مشکل کا صبر و تحمل سے مقابلہ کرنے کے عادی ہے اور ہر مسلئے کا حل تدبر اور غور و فکر سے نکالتے ہیں۔ گفتگو میں انتہائی نفیس لہجے کا انتخاب، سلاست اور حوالہ جات آپ کے انداز کو قابل تعریف بناتا ہے۔ سننے والے پر کبھی بوجھ نہیں بنتا کیوں کہ آپ کی گفتگو علمی ہونے کے ساتھ ساتھ مزاحیہ اور طنزیہ ہوتی ہے جو لوگوں کو محظوظ کرنے کا سامان بنتی ہے۔“
پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زئی صاحب اپنی تاثرات کچھ یوں لکھتے ہیں: ”ساجد علی خان انتہائی ایمان دار، دیانت دار، مخلص، صادق و امین، خود دار، مستقل مزاج اور دوستی میں وفادار ہیں۔ میں کافی تحقیق اور بحث و مباحثے کے بعد یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ساجد علی خان واقعات پر نہیں بلکہ ان کی محرکات اور نتائج پر نظر رکھتے ہیں اور اپنی دلائل اور تجربات سے حل کی طرف بڑھتے ہیں۔ ساجد خان کے لکھنے کا انداز یکسر مختلف ہیں، ان کی زیرِ طبع کتاب ایک نیا شاہکار ہوگی جو لکھنے کا روایت بدل ڈالے گی، انشاءاللہ! اگر آپ خیبر پختون خوا کے نہیں تو سوات کا ابن خلدون بننے جارہے ہیں۔“
اسی طرح خیرالحکیم   آپ کے بارے میں کچھ یوں فرماتے ہیں ”برہ درشخیلہ کے ایک یوسف زئی قبیلے اور اکاخیل گھرانے کا چشم و چراغ، بہترین کالم نگار، افسانہ نگار، تاریخ دان اور چھپے رستم ساجد علی خان ابو   کے بارے میں کون جانتا تھا کہ یہ خوبصورت نوجوان آگے جاکر ایک بہترین محقق اور لکھاری بنے گا۔ جنہوں نے ایسی عرق ریزی سے کام کیا کہ میری لکھی ہوئی تاریخ کی کتاب ”د بر سوات تاریخ“ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اللہ کرے کہ یہ جزیہ اور سلسلہ تاحیات جاری و ساری رہے، آمین۔“
قارئین! میں اگر آج کچھ ضبطِ تحریر میں لانے کے قابل ہوں، تو اس کا سہرا تین شخصیات پرنسپل بخت منیر صاحب، ساجد علی خان ابو تلتاند اور امجد علی سحابؔ کے سر ہے۔ اگر اللہ تعال نے توفیق دی تو ان دو باقی شخصیات بارے بھی اپنی جذبات اور احساسات کو الفاظ کا جامہ پہناؤں گا۔
موصوف کے درجہ بالا دوستوں، اساتذہ، قریبی رشتہ داروں کے آراء اور راقم الحروف کا موصوف کے ساتھ قریبی مراسم سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ موصوف اپنی خداداد صلاحیت، باکمال کردار، خوش گفتار مباحثوں اور سماجی تعلق داری کی وجہ سے ایک منفرد اخلاق وکردار کے مالک شخص ہیں۔ یقیناً ایسے لوگ دوسروں کےلیے چراغ ثابت ہوتے ہیں جو خود تو جلتے ہیں مگر دوسروں کوروشنی دیتے ہیں۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا ان کو لمبی زندگی اور اچھی صحت سے نوازیں، آمین
تھوڑی سی تحریف کے ساتھ ایک شعر آپ کے نام کرنا چاہوں گا کہ
ایک روشن دماغ ہے، اور رہے
شہر میں اِک چراغ ہے، اور رہے
___________________________________
محترم قارئین! راقم کے اس مضمون کو 22 اگست 2019ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بارشرف قبولیت بخش کر شائع کروایا تھا۔
شیئرکریں: