وطنِ عزیز پاکستان میں مزدوروں کے پتلی حالات اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کی فلاح و بہبود کےلیے ضروری اور مناسب قانون سازی نہیں کی جاتی اور اگر کی بھی جاتی ہیں، تو صرف کاغذی کاروائی تک محدود، یہ کاروائی عملی جامہ اختیار نہیں کرتی۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں یکم مئی کو “یومِ مزدور” کے طور پر تو منایا جاتا ہے لیکن ان کے ساتھ حکومتی سطح پر انصاف کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے نمائندگی کرنے والی لیبر یونین ان کی حقوق کےلیے خلوصِ نیت سے کوششیں کرتے ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ مزدور کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب تر ہوتی چلی جارہی ہیں۔ مزدوروں کی فلاح میں اربابِ اقتدار اور یونینز اگر مخلص ہے، تو عملی بنیادوں پر مزدور پالیسیوں میں درج تمام قوانین کو من و عن نافذ کرنا ہوگا۔
قارئین، مملکتِ خداداد میں اب تک چھ لیبر پالیسیاں بنائی گئی ہیں۔ پہلی لیبر پالیسی 1955ء، دوسری 1959ء، تیسری 1969ء، چوتھی 1972ء، پانچویں 2002ء اور چھٹی لیبر پالیسی 2010ء میں بنائی گئی۔ لیکن یہ پالیسیاں بھی محض فائلوں تک محدود رہی۔ عملی طور پر اگر دیکھا جائے، تو بندۂ مزدور کے تلخ حالات سنورنے کے بجائے آئے روز مزید تلخ ہوتے چلے جارہے ہیں۔ کیوں کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک بننے والے چھ لیبر پالیسیاں صرف کاغذی کاروائیاں ہی ثابت ہوئیں، کیوں کہ مزدور سے کم اُجرت میں زیادہ مشقت لینا ایک معمول بن چکا ہے۔ بقولِ شاعر،
اُجرت میں نہ ہوا اضافہ اور بھی کام بڑھ گیا
مزدور کا دن تھا ………. امیر کا آرام بڑھ گیا
دیگر مزدوروں کی طرح کوئلے کے کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حالات نہ تو مالی لحاظ سے آسودہ ہے اور نہ ہی خطرات سے خالی ہے۔ سالانہ اوسط لحاظ سے صرف صوبہ بلوچستان میں 80 کے لگ بھگ کوئلے کے کانوں میں کام کرنے والے مزدور کانوں میں زہریلی گیس بھرنے سمیت دیگر حادثات کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان سنٹرل مائینز لیبر فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ سال 2018ء میں کوئلے کے کانوں میں کام کرنے والے 93 مزدور کام کے دوران پیش آنے والے حادثات کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کانوں کی کھدائی ٹھیکہ داری کے بنیادوں پر ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ٹھیکہ داروں کی زیادہ توجہ فراداں منافع حاصل کرنے پر ہوتی ہیں۔ اس لیے مزدوروں کی حفاظتی انتظامات کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور یوں دو وقت کی روٹی پیدا کرنے کی غرض جان ہتھیلی پہ رکھنے والے محنت کش ٹھیکہ دار حضرات کی لالچی پالیسیوں کی وجہ سے موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔ گذشتہ سالوں کی طرح رواں سال بھی کوئلے کے کانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے سر پر موت کے بادل منڈ لا رہے ہیں۔ حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے سال نو کے دوسرے ہی روز ایک حادثے میں 4 محنت کش ضلع دکی کے ایک کان میں گیس بھرنے کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے تھے۔ چیف انسپکٹر مائینز بلوچستان کے مطابق ضلع دکی کی کان میں رونما ہونے والا یہ چوتھا واقعہ تھا جن میں مجموعی طور پر 10 مزدور جاں بحق ہوگئے ہیں۔ کوئلے کے کانوں میں حادثات سے نمٹنے کےلیے ضروری حفاظتی انتظامات کا نہ ہونا ہلاکتوں کا باعث ہے۔
قارئین، اگر چند ایک ضروری حفاظتی انتظامات کےلیے عملی اقدامات کی جائے، تو حادثات کی شرح کو صفر تک لایا جاسکتا ہے۔
کانوں میں زہریلی گیس چیک کرنے اور اس سے بچنے کےلیے اقدامات کے ساتھ ساتھ کانوں میں آکسیجن چیک کرنے کا انتظام بھی ہونا چاہیے، تاکہ زیرِ زمین آکسیجن کے زائل ہونے سے بچا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک سے زائد متبادل راستوں کا انتظام کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ کان میں حادثے کی صورت میں مزدوروں کو متبادل ایمرجنسی راستوں کے ذریعے سے نکالا جا سکے۔ دیگر امور کی طرح معائنے کےلیے سرکاری انسپکٹروں کی وافر مقدار میں تعیناتی بھی ضروری ہیں تاکہ وہ کانوں کے اندر سیفٹی کے ضروری اقدامات کو یقینی بنائے تاکہ جان لیوا حادثات سے بخوبی نمٹا جاسکے۔ بقولِ شاعر،
یہاں مزدور کو جلدی یوں بھی ہے محسن
کہ زندگی کی کشمکش میں کفن مہنگا نہ ہوجائے
_________________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو 21 مارچ 2019ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا تھا، لیکن آج عالمی یومِ مزدور کی مناسبت سے دوبارہ ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کیا جارہا ہے۔