عالم کی ذات عالمِ انسانیت کی جاں
عالم کی ذات جوہرِ خلقت کی ترجماں
علما کسی بھی معاشرے کا حسن اور وقار ہوتے ہیں۔ کیوں کہ علما کا وجود معاشرے کےلیے اس اعتبار سے انتہائی ضروری ہے کہ عوام ان سے شرعی، دینی، سماجی اور دیگر روزمرہ معاملات میں راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔ ان کے خطبات، مجالس اور تحاریرکے ذریعے اپنے عقاید، نظریات اور اعمال کی اصلاح کرتے ہیں۔
تاریخِ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد ہر دور میں پختہ علما اور آیمہ کے ساتھ وابستہ رہی ہے اور ان کے دروس اور خطبات کو عقیدت و احترام کے ساتھ سنا جاتا رہا ہے۔
پختہ اور سنجیدہ علما کے ساتھ تعلق ہونا یقیناً ہر سنجیدہ اور باشعور شخص کےلیے باعثِ عزت و افتخار رہا ہے ۔ کیوں کہ جید علما کی رفاقت دین و دنیا کی بہتری کا ذریعہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی جید عالم کی دنیا سے رخصتی ایک بڑا سانحہ قرار دی جاتی ہے اور اس کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا طویل مدت تک پُر نہیں ہوسکتا۔ تادیر معاشرے میں ان کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔
کسی بھی باعمل عالِم کی رحلت پر ہر ذی شعور انسان بے چینی اور غم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ اُن کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ علما کی روحوں کے قبض ہوجانے سے انسان نہیں بلکہ عِلم بھی اُٹھ جاتا ہے۔
قارئین! گذشتہ دن اچانک اُستاد العلما، محبوب الصلحا، نوجواں عالم اور مدرس، جامعہ دارالعلوم مٹہ حضرتِ اقدس مولانا اقبال علی صاحب کی وفات کی خبر ملی، تو وقتی طور پر میرا ذہن اس بات کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہو رہا تھا لیکن انسان کو اللہ تعالا کے فیصلوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے۔ کیوں کہ یہ دنیا ناپائیدار ہے اور یہاں کسی کو بھی دوام نہیں۔ جو بھی یہاں آیا ہے اس کو جلد یا بدیر اپنے خالقِ حقیقی سے ملاقات کےلیے روانہ ہونا پڑے گا۔ بقولِ شاعر:
عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے ، اُفق پہ مہرِ مبیں نہیں
تِری جدائی سے مرنے والے وہ کون ہے جو حزِیں نہیں ہے
مگر تِری مرگِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
یہ وہ اشعار ہیں جو شورش کاشمیری نے مولانا ابو الکلام آزاد کی وفات پر کہے تھے۔ اب 19 فروری 2022ء بروزِ ہفتہ کو بھی کچھ یوں ہوا، جس کا بیان کرنا اشک بہائے بغیر ممکن ہی نہیں۔ کیوں کہ مولانا اقبال علی صاحب کے انتقال نے دلوں پر بجلی گرادی ہے۔
اس الم ناک خبر نے دل و دماغ کو ہر دوسرے موضوع سے بے گانہ کردیا ہے۔ کیوں کہ کچھ جانے والے اپنے پیچھے ایک ایسا خلا چھوڑ کر جاتے ہیں کہ اُس کے پُر ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ جہاں تک علم کے حروف و نقوش، کتابی معلومات اور فن کا تعلق ہے، اس کے کرنے والوں کی تو کوئی کمی نہیں لیکن دین کا ٹھیٹھ مزاج و مذاق، تقوا و طہارت، سادگی و قناعت اور تواضع جو کتابوں سے نہیں بلکہ صرف اور صرف بزرگانِ دین کی صحبت سے حاصل ہوتی ہے، دھیرے ھیرے ختم ہوتی جا رہی ہے۔
خوب صورت اور پُر وقار چہرہ، سنجیدگی، متانت اور دھیما پن ان کی شخصیت کے نمایاں عناصر تھے۔ دراز قد، اکہرا بدن، سرخی مایل بال اور داڑھی، ہمیشہ سفید کپڑے اور واسکٹ زیبِ تن کیا کرتے۔ کوئی اگر ان کو دیکھتا، تو آنکھ ہٹانے کو دل نہ چاہتا۔ کیوں کہ ان کا رنگ گورا اور چہرے سے نورانیت ٹپکتی تھی۔ داڑھی پوری سنت کے مطابق اور چہرہ بارعب تھا۔ غصے کے وقت ان کے چہرے پر جلال کی ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ خلقِ خدا کے ساتھ ان کی محبت پورے علاقے میں ایک مثالی حیثیت رکھتی تھی۔ بات کرتے، تو ہر کوئی ان کا گرویدہ ہوجاتا۔ صاف صاف الفاظ میں گفتگو فرماتے، جسے ہر کوئی باآسانی سمجھ جاتا۔
1982ء کو تحصیلِ مٹہ کے گاؤں بیدرہ میں ہاشم علی خان المعروف “سپین دا” کے ہاں پیدا ہوئے۔ میٹرک امتحان گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول بیدرہ سے پاس کیا۔ اس کے بعد دینی علوم کے حصول کےلیے کراچی چلے گئے۔ وہاں سے تین درجے پڑھنے کے بعد واپس آئے اور باقی پانچ درجے سمیت دورۂ حدیث جامعہ دارالعلوم مٹہ سے کیا اور یہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔ بہت ذہین اور قابل تھے جس کی دلیل یہ ہے کہ جامعہ دار العلوم مٹہ سے فراغت کے بعد یہاں کے اساتذہ نے ان کو جامعہ ہی میں تدریس کی پیش کش کی، جسے منظور کرتے ہوئے یہاں استاد مقرر ہوئے۔ جامعہ کے تمام اساتذۂ کرام کو اپنے اس شاگرد پر ناز تھا۔ ہزاروں علما نے ان کے مدرسے سے فراغت حاصل کی اور سب اپنے اپنے مقام پر ان کے فیض کو پھیلا رہے ہیں۔
مولانا صاحب کی شخصیت ایسے درخت کی سی تھی جس کے سایے میں پہنچ کر ہر کس و ناکس راحت و سکون پاتا۔ ان کی شخصیت ایسی دل نواز، حیات افروز اور باغ و بہار تھی جس کی خصوصیات کو ایک مختصر تحریر میں سمونا ناممکن اگر نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔ عرصۂ دراز سے جامعہ دارالعلوم مٹہ میں درس وتدریس اور دین کی اشاعت کا فریضہ انجام دیتے چلے آرہے تھے۔ فنِ خطابت میں اللہ تعالا نے انہیں ایک خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ لوگ ان کی سلاست، خطابت اور فکرِ آخرت کے بارے میں خوب صورت گفت گو اور موت کا احساس دلانے والے وعظ و نصیحت کو دل کی گہرائیوں میں اُترتا محسوس کرتے تھے۔ اللہ تعالا نے ان کو زُہد، تقوا اور للہیت کی عظیم صفات سے نوازا تھا۔ کتاب و سنت کے استحضار کے ساتھ ساتھ آپ کو فقہی مسائل کے استنباط میں بھی غیر معمولی مہارت تھی۔ جب کوئی سایل آپ سے سوال کرتا، تو آپ جواب دیتے ہوئے دلایل کے انبار لگا دیا کرتے جس کی وجہ سے پورے سوات میں بے مثال تھے اور یہی وجہ تھی کہ ان کے سامنے بڑے بڑے نیچے بیٹھ جاتے۔ ان کی پشتو اور اُردو کی تقریریں اتنی بے ساختہ، سلیس، رواں اور شگفتہ تھیں کہ ان کے ایک ایک فقرے پر ذوقِ سلیم کو حظ ملتا۔ ان میں قدیم و جدید اسالیب اس طرح سے جمع ہوکر یک جاں ہوگئی تھیں کہ سننے والا جزالت اور فصاحت دونوں کا لطف ساتھ ساتھ محسوس کرتا۔ فنِ خطابت پر خوب دست رس رکھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا خطاب انسان کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا تھا اور انسان کو اپنے مقصدِ تخلیق کا صحیح طور پر احساس ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے سخت دل لوگ بھی آپ کی گفت گو سن کر چونک جایا کرتے اور اپنی زندگی میں کی گئی بد اعمالیوں پر ندامت محسوس کرنے لگتے۔
آپ جمعیت علمائے اسلام کے مخلص کارکن تھے لیکن کبھی کسی عہدے کی لالچ نہیں کی، نہ کسی نشست پر انتخابات میں حصہ ہی لیا۔ طلبہ سے بے انتہا محبت کرتے اور ان کے ساتھ شفقت کا معاملہ فرماتے۔ ان کے مزاج کے سبب طلبہ لطف اور خوشی محسوس کرتے۔ خوش مزاجی، سادگی اور حلم ان کی فطرتِ ثانیہ بن گئی تھی۔ ان کی گفتگو ہر سامع کے لحاظ سے مختلف ہوتی تھی۔ سامع اگر عالم ہوتا، تو گفتگو عالمانہ ہوتی اور اگر عامی ہوتا، تو ان کی گفتگو عامیانہ ہوتی۔ بیان کا انداز پانی کے بہاؤ کی طرح رواں ہوتا تھا۔ سبق پڑھاتے وقت مشکل سے مشکل مسئلہ چٹکیوں میں حل فرمایا کرتے ۔ جب بیان فرماتے، تو گویا لوگوں پر سحر طاری ہوجاتا، ہمہ تن گوش ہوکر ان کا بیان سنتے۔
تدریس اور تبلیغ کے کام کو پوری شد و مد سے جاری رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر محفل اور اجتماع میں باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ سخاوت میں بھی بے مثل تھے۔ اگر کوئی فقیر آپ کے پاس آتا، تو عام لوگوں کی طرح پانچ کا سکہ نہیں، بلکہ نوٹ نکال کر دیتے۔ ان کی علمی حیثیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ محض “صرف و نحو” اور منطق کے استاد نہیں بلکہ علومِ عقلیہ اور نقلیہ کے امام بھی تھے۔
مولانا صاحب ایک ممتاز عالمِ دین اور روحانی شخصیت تھے جن کو سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں میں عزت و احترام اور عقیدت و محبت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ بڑے بڑے علما ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ آپ کی قوتِ حافظہ، وسعتِ مطالعہ، ذوقِ کتب بینی، اکابر و اسلاف کے تذکروں سے شغف، دین کےلیے خاص جذبہ، اُردو اور پشتو کی تقریریں اور اسباق، علمائے دیوبند اور مسلک سے محبت، ذوقِ مہمان نوازی، باغ و بہار استادوں اور شاگردوں سے علمی مجلسیں، ان میں سے کوئی ایسی چیز نہیں جسے ہم بھلا سکیں۔
دینی علوم کا یہ درخشاں ستارہ 19 فروری 2022ء بروزِ ہفتہ کو اپنے سوگواران میں 4 بیٹے، 1 بیٹی، ہزاروں شاگردوں اور عقیدت مندوں کو چھوڑ کر 40 سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے رحلت فرما گئے۔ آبائی گاؤں بیدرہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔
قارئین! جنازے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے جہاں ہر دل مغموم اور ہر آنکھ اشک بار نظر آئی۔ ان کی وفات سے یوں محسوس ہوا جیسے زمین پر ایک پہاڑ کم ہوگیا ہے یا زمین کا دامن قدرے تنگ ہو گیا ہے۔ کیوں کہ کچھ لوگ رخصت ہوتے ہوئے صرف گھر، خاندان اور قریبی رشتہ داروں کو سوگوار چھوڑ کر جاتے ہیں لیکن مولانا اقبال علی جیسے لوگ ساری گلشن کو ویران کر جاتے ہیں۔
سڑے چی مڑ شی کور پی وران شی
پہ بعض خلکو باندے وران شی وطنونہ
مولانا صاحب کی موت یقیناً پورے علاقے کےلیے کسی بڑے سانحہ سے کم نہیں۔ بقولِ شاعر
تعزیت کون کرے آج تیرے جانے پر
شہر کا شہر تو شامل لواحقین میں ہے
قارئین! مولانا اقبال علی جیسے نوجواں عالم کی رحلت نے دل اور دماغ کو بوجھل کردیا ہے۔ اب اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اگر اتنے بلند پایہ علما دنیا میں نہیں رہے، تو یقیناً ہمیں بھی ایک نہ ایک دن اپنے خالق سے ملاقات کےلیے اس دنیا کو خیرباد کہنا ہوگا اور اللہ تعالا کی بارگاہ میں پیش ہونے کے بعد ہمارے پاس مزید اعمال کرنے کے امکانات ختم ہوچکے ہوں گے ۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا ہمیں اپنی ملاقات سے قبل کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مولانا صاحب کے احباب اور رشتہ داروں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ ان کو اپنی آغوشِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے، آمین!
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی
______________________________________
محترم قارئین، راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 25 فروری 2022ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔
شیئرکریں: