مملکتِ خداداد کی غیر یقینی سیاسی صورت حال میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر NRO لینے اور دینے کے الزامات لگاتے چلے آرہے ہیں۔ اصل میں این آر او ہے کیا…؟بعض دوست اسے جاننے کا بھرپور تقاضا کررہے ہیں۔ اسی لیے آج اپنی بساط کے مطابق اپنے ان پیاروں کی خدمت میں NRO کے نہ صرف قانونی بلکہ سیاسی پہلو پر اپنے خیالات و گزارشات کو سپردِ قلم کررہا ہوں۔
قارئین! این آر او (National Reconciliatin Ordinance) کا مخفف ہے، جس کی اُردو معنی “قومی مصالحتی حکم نامہ” کے ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان میں 12 اکتوبر 1999ء کو ڈکٹیٹر جرنل (ر) پرویز مشرف نے جب عوامی حکومت پر شبِ خون مارتے ہوئے آئین، قانون اور اخلاقیات کی تمام حدوں کو پامال کرتے ہوئے ایک منتخب وزیرِ اعظم کو گرفتار کرکے (مارشل لاء) نافذ کی، تو ڈھیر سارے ماورائے آئین و قانون حکم نامے (Ordinances) پاس کیے، جن میں ایک NRO بھی تھا۔ جس کا بنیادی مقصد اور منشا یکم جنوری 1986ء سے لے کر 12 اکتوبر 1999ء تک جن سیاست دانوں، سیاسی کارکنان، بیوروکریٹس اور فوجی افسران پر منی لانڈرنگ، کرپشن، قتل و غارت اور مالی بدعنوانیوں کے جنتے بھی مقدمات تھے، سب کو معاف کرکے ان مقدمات سے نجات دینے کا حکم نامہ جاری کیا۔ مذکورہ قانون 5 اکتوبر 2007ء کو مشرف حکومت نے جاری کیا۔ جس سے کل 8 ہزار 41 افراد مستفید ہوئے۔ جن میں محض 34 سیاست دان، تین ایمبیسیڈرز جب کہ اکثریت بیورو کریٹس اور اسٹبلشمنٹ کے افراد کی تھی۔
قارئین! ماہرین کے مطابق این آر او کا نفاذ پرویز مشرف نے امریکہ اور برطانیہ کی ایما پر 2008ء کے عام انتخابات میں اُن کی مرضی کی حکومت لانے کےلیے کیا تھا جو کسی حد تک ٹھیک بھی لگ رہا ہے۔
اکتوبر 2007ء کو اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے این آر او کو کالعدم قرار دے دیا لیکن مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو سترہ ویں ترمیم کے ساتھ بحال شدہ آئین کو ایک بار پھر معطل کرتے ہوئے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا، ساتھ ہی چودھری افتخار سمیت دیگر “باغی” ججز کو برطرف کرکے عبدالحمید ڈوگر کو سپریم کورٹ کا نیا چیف جسٹس نامزد کیا اور اس سے پرویژنل کانسٹی چیوشنل آرڈر (پی سی او) کے تحت حلف اُٹھایا۔ یوں عبدالحمید ڈوگر نے مشرف کی منشا کی روشنی میں27 فروری 2008ء کو دوبارہ این آر او کی تجدید کا کام شروع کیا لیکن دوسری طرف چودھری افتخار اور دیگر ججز کی معزولی کے ساتھ ہی وکلا برادری نے ملک کی تاریخ کی زبردست تحریک شروع کی۔ جس کے نتیجے میں 22 مارچ 2009ء کو چودھری افتخار اپنے دیگر “باغی” ججز سمیت بحال کردیے گئے اور یوں اُنہوں نے 16 دسمبر 2009ء کو ایک بار پھر این آر او کو غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دے کر اس کے خاتمے کا اعلان کیا۔ یوں دو سال اور دو ماہ تک زیرِ بحث رہنے والا پرویز مشرف کا پاس کردہ حکم نامہ این آر او اپنی موت آپ مرگیا۔

کیا عمران خان کسی کو NRO دے سکتے ہیں؟
جس طرح کالم کی ابتداء میں کہا گیا ہے کہ عمران خان آج کل کسی کو NRO نہ دینے کے نعرے کی بار بار عہد تجدید کر رہے ہیں لیکن ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ صرف وہ (عمران خان) ہی نہیں بلکہ ملک کا کوئی بھی قانون، طاقتور ترین شخص یا ادارہ کسی بھی شخص کو کسی بھی صورت NRO نہیں دے سکتا۔ اصل میں این آر او نہ دینے کا لاحاصل نعرہ ملک اور عوام کے اصل مسائل، مہنگائی، غربت، بے روزگاری، تعلیم اور صحت کے مسائل سے آنکھیں چُرانے اور عوام کی توجہ ہٹانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ جس سے حکومتِ وقت سیاسی فائدہ اُٹھا کر عوام کے جذبات اور احساسات سے کھلواڑ کررہی ہے۔

شیئرکریں: