جدید پشتو نظم کے بانی، معروف انقلابی اور ترقی پسند شاعر، ادیب، دانش ور، صحافی، کثیرالجہت شخصیت کے مالک اور بزرگ قوم پرست سیاست دان اجمل خٹک 15 ستمبر 1925ء کو ایک عام زمیں دار حکمت خان کے گھر اکوڑہ خٹک میں سات بہنوں کے بعد پیدا ہوئے۔ آپ کا نام اپنے گاؤں اور قبیلے کے سردار محمد زمان خان نے رکھا تھا۔
ابتدائی دینی علوم آبائی گاؤں کی مسجد میں مولانا عبدالقیوم، مولانا عبدالحق اور قاضی محمد امین سے حاصل کیے۔ جب کہ گھر میں ان کی پھوپی جب قرآن مجید اور پشتو کی دیگر منظوم کتابیں نورنامہ، جنگ نامہ اور قصے کہانیاں خوش آوازی اور ترنم میں پڑھتیں، تو اجمل خٹک ہمہ تن گوش ہوکر اسے سنتے۔
1935ء کو جماعت دوئم میں داخل کیے گئے۔ موسیقی سے دلی لگاؤں حجروں میں روایتی موسیقی کی محفلوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے سے پیدا ہوئی۔ خود بھی کئی مہینوں تک ستار اور رباب سیکھنے کا جنون پڑا تھا، مگر دوستوں کے مشورے سے اپنے آپ کو محض شاعری تک محدود کرلیا گیا۔ سکول سے جب فارغ ہوتے، تو گاؤں کے اردگرد علاقوں میں منعقدہ عوامی میلوں میں مداریوں کے قصے کہانیاں اور تماشے شوق سے سنتے اور دیکھتے تھے۔ دوران طالب علمی ان کے سکول میں اس وقت کے وزیر تعلیم ثمین جان خان ایک تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک تھے، تو آپ نے مہمان خصوصی سے منظوم مطالبہ کیا کہ ان کے گاؤں کے سکول کو ہائی سکول کا درجہ دیا جائے، جس پر انہیں زمان خان (خان بابا) نے پانچ روپے بطور انعام دیئے تھے۔
آپ نے خوش حال خان خٹک کے مزار پر منعقدہ مشاعرہ میں محمد زمان خان کی اشعار سنائے، جس سے ان کو ایک نیا تجربہ ہوا۔ سکول میں ہفتہ وار منعقد ہونے والے ادبی محفل کےلیے پہلے انہیں اپنے استاد محمد عاصم کچھ لکھ کر دیتے، لیکن بعد میں آپ خود لکھتے رہے۔ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے کہ “بدمعاش ھلک” یعنی بدمعاش لڑکا کے نام سے ایک چھوٹا سا ڈرامہ لکھ کر اسے پیش کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
گھر میں ان کی بڑی بہن امر سلطان بی بی جب اونچی مترنم آواز میں ’’پختون اخبار‘‘ کی نظمیں اور غزلیں سناتی، تو آپ بھی ان کے ساتھ گاتے۔ 1938ء کو جب خوش حال خان خٹک کے مزار پر مشاعرہ منعقد ہوا، تو پہلی بار آپ اپنی نظم پڑھنے کےلیے سٹیج پر آئے، اس وقت آپ اتنے کم عمر تھے کہ کرسی پر کھڑے ہو کر اپنی نظم سنانی پڑھی۔ نظم پڑھنے کے دوران لوگ چہ میگوئیاں کرتے رہے کہ یہ عبدالخالق خلیق کا بیٹا ہے اور یہ نظم انہوں نے لکھ اسے دی ہے۔ چوں کہ ان کا اپنا گاؤں خدائی خدمت گاروں کا مرکز تھا اور جب باچا خان ان کے حجرے میں تشریف لے آئے، تو ان کی باتیں سنتے ہی آپ ان سے بہت متاثر ہوئے۔
آپ نے عملی زندگی کا باقاعدہ آغاز بطور معلم 1943ء کو زیارت کاکا صاحب کے سکول سے کیا۔ 1943ء تا 1948ء تک ہر وقت خفیہ ایجنسیوں کے زیر عتاب رہنے کی وجہ سے کبھی معلم تو کبھی بے روزگار رہے۔ یکم اپریل 1948ء کو ریڈیو پاکستان پشاور میں بطور سکرپٹ رائٹر ملازمت اختیار کی جہاں ان کو احمد ندیم قاسمی، ن م راشد، ناصر انصاری، احمد فراز اور خاطر غزنوی جیسے اعلا پائے کے شعرا و ادبا کی رفاقت نصیب ہوئی۔1947ء کو پاکستان کا پہلا پشتو ملی ترانہ لکھا جو اس وقت کے معروف گلوکار استاد سبز علی خان کی آواز میں نشر ہوا۔ گھر پر پولیس چھاپوں کی ڈر سے ان کی والدہ نے ان کی شاعری اور نثر کے بیشتر نمونے تندور میں پھینک کر جلا ڈالے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ “دغیرت چغہ” بھی ان کے دوستوں نے ادھر ادھر کی تلاش کے بعد یکجا کرکے شائع کیا۔ آپ اپریل 1953ء کو شادی کے بندھن میں بند گئے۔ ان کے پانچ بچے ہیں، جن میں دو بیٹیاں اور تین بیٹے شامل ہیں۔ اسی سال “پختون لیگ” کے نام سے سیاسی تنظیم بنانے کے الزام میں چار ماہ پبی اور نظام پور تھانے میں قید رہے۔ اکتوبر 1953ء کو دس ہزار روپے کی ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا ہوئے، لیکن دوبارہ “تحفظ امن وعامہ” کے تحت گرفتار ہو کر پشاور جیل میں چھ ماہ تک نظر بند رہے۔ 1956ء کو روزنامہ “بانگ حرم” کے ساتھ بطور ایڈیٹر منسلک ہوئے۔ اس کے علاوہ کئی سال تک مختلف اخبارات میں بطور ایڈیٹر کے فرائض سرانجام نبھاتے ہے۔
قارئین! آپ کو لفظ “انقلاب” سے شناسائی تب ہوئی جب گاؤں میں ایک شادی کے دوران قاضی شریف اللہ نے ان سے سے کہا کہ “میرے ہاتھ میں موجود اس پرچے پر لکھا ہوا یہ نام کیا ہے…؟” تو آپ نے فوراً جواب دیتے ہوئے کہا کہ “انقلاب”۔ کیوں کہ قاضی صاحب کے ہاتھ میں روزنامہ انقلاب ہی تھا۔

لازوال سیاسی جدوجہد کے مالک اجمل خٹک بابا کا ایک یادگار تصویر
فوٹو: عطاء اللہ جانؔ ایڈوکیٹ

ان کے والد اپنے بیٹے کے قابلیت اور ذہنیت کو دیکھتے ہوئے ان کےلیے بیٹے “دیوان خوش حال خان خٹک” اور “دیوان عبدالرحمان بابا” لے کر آئے، جس کے مطالعے سے ان کے اندر کا شاعر انگڑائیاں لینے لگا۔ آٹھویں جماعت میں تھے کہ پورے صوبے میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور پشاور کے ہائی سکول نمبر ایک میں جونیئر سپیشل کلاس میں داخل ہوئے۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے ان کےلیے ماہانہ چار روپے وظیفہ بھی مقرر کیا گیا۔ آپ اور راج کپور پشاور میں ایک ہی سکول کے طالب علم تھے۔ آپ فٹ بال کے مایا ناز کھلاڑی تھے، اور ہر ٹورنامنٹ یا میچ میں سکور کرنے کا اعزاز اپنے نام کرتے۔ دیگر لڑکوں کی طرح راج کپور بھی اجمل خٹک کے کارکردگی سے متاثر تھے۔ راج کپور چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے کہ اجمل خٹک سے دوستی ہوگئی۔ اس وقت پورے متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف “ہندوستان چھوڑ دو” تحریک شروع ہوئی جس میں ہائی سکولوں اور کالجوں کے طالب علموں نے بھرپور حصہ لیا۔ یہ 1943ء کا زمانہ تھا کہ اجمل خٹک جو پہلے ہی سے خدائی خدمت گار تحریک اور باچا خان سے متاثر تھے، نے سکول میں تحریک کی حمایت شروع کردی اور سکول میں خفیہ طور پر طالب علموں کے یونٹ کے انچارج مقرر ہوئے۔ “ہندوستان چھوڑ دو” تحریک میں شامل ہونے کی بنا پر آپ اپنی تعلیم کا سلسلہ آگے نہ بڑھا سکے۔ 1943ء کو ہی محکمہ تعلیم میں 20 روپے ماہانہ تنخواہ پر معلم بھرتی ہوئے۔ دوران معلمی انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پشتو آنرز، منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔ جس کے بعد ایف اے، بی اے اور فارسی زبان میں ایم اے کیا۔
ترقی پسند نظریات سے اس وقت واسطہ پڑا، جب آپ کو ایک ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کےلیے اپنے دوست غلام محمد کے ساتھ پشاور جانا پڑا۔ جہاں ان کی ملاقات ایک تنگ وتاریک کمرے میں زمین پر دری میں بیٹھے شخص سے ہوئی۔ جس نے واپسی پر ان کو دو کتابیں بطور تحفہ دیئے۔ جن میں ایک “مشین اور انسان” اور دوسرا “سرمایہ” نامی کتاب شامل تھا۔ مذکورہ کتابوں کے مطالعے نے اجمل خٹک کو “مارکس ازم” اور “لینن ازم” کی جانب راغب کیا۔ چالیس سال بعد جب کراچی کے ایک ہوٹل میں در نظامانی بلوچ اور علی احمد تال پور کے ساتھ اس آدمی کو دیکھا اور تعارف ہوا تو پتا چلا کہ وہ ہزارہ کے رہنے والے محمد حسین عطاء تھے، جو کمیونسٹ پارٹی پشاور کے سیکرٹری جنرل تھے۔ اس کے علاوہ جب اجمل خٹک اپنے پھوپی زاد بھائی محمد عمر کے ساتھ فتح پور گئے، تو وہاں انجمن ترقی پسند کے مصنفین سجادظہیر، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو، پریم چند اور سرجیت سنگھ سے ملاقات ہوئی۔ ان ادیبوں کے ساتھ کئی نشستیں اور کافی بحث مباحثے ہوئے۔
قارئین، آپ نے کئی سال تک جیل کاٹی اور جیل میں اس قدر ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار ہوئے کہ دوران قید “دا زہ پاگل اوم” جیسی کتاب لکھی۔
قارئین، آپ چار آنے جیب میں لیے اکوڑہ خٹک سے سیاسی سفر پر نکلے تو آدھی دنیا دیکھ ڈالی۔ اس دوران عام آدمی سے لے کر سربراہان مملکت، نامور سیاست دانوں، شہرہ آفاق ادیبوں اور شاعروں سے ملاقاتیں کیں۔ ساٹھ سال کی سیاسی اور ادبی جدوجہد کے بعد جب دارِ فانی سے رخصت ہوئے تو ان کی جیب میں چار آنے بھی نہیں تھے۔
 آپ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے مرکزی سیکرٹری جنرل رہے۔ پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، ہری پور اور مچھ جیل میں کئی سالوں تک پابند سلاسل رہے۔ اسی سیاسی نظریات کی بنا پر ریڈیو کی ملازمت سے فارغ کیے گئے۔ لیکن باچا خان، ولی خان اور اے این پی سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔

رہبر تحریک خان عبدالولی خان، حاجی غلام احمد بلور اور اجمل خٹک کا ایک یادگار تصویر

آپ جب اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا تذکرہ کرتے، تو سسکیاں لینا شروع کردیتے تھے۔ آپ کے بقول!
ایک دن پولیس والے مجھے ہتھکڑیوں میں باندھ کر مار پیٹ اور زخمی حالت میں جب اپنے گھر کی تلاشی لینے کےلیے لائے، تو سامنے چارپائی پر بیٹھی میرے والدہ کی نظریں مجھ (لاڈلے بیٹے) پر لگتے ہی آپ پولیس والوں کو بد دعائیں دینے لگیں۔ جس پر پولیس والوں نے میرے آنکھوں کی سامنے میرے بوڑھی والدہ کو بالوں سے پکڑ کر چارپائی سے نیچے گرایا اور اسے زمین پر گھیسٹتے رہے۔”
کہ چا پہ کانڑو ویشتے کہ چا رٹلے اجمل
کہ چا غدار یاد کڑے کہ چا شڑلے اجمل
د ھر یو دور یزید خہ ازمئیلے اجمل
نہ چا ٹیٹ کڑے اجمل نہ پرزولے اجمل
ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں لیاقت باغ راولپنڈی میں اپوزیشن کے جلسے پر حکومتی سرپرستی میں حملہ ہوا تو اس وقت اجمل خٹک نیشل عوامی پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے۔ نواب اکبر خان بگٹی کے گھر کوئٹہ میں نواب خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو، اکبر خان، عطاء اللہ مینگل اور ولی خان کے مشورے پر انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد ان کے قریبی دوست “تور لالے” نے بڑی مشکل قبائلی راستوں سے افغانستان تک پہنچایا۔ پندرہ سالہ طویل جلا وطنی کے دوران آپ نے افغانستان میں ظاہر شاہ کی بادشاہت کے خاتمے، داؤد خان کی حکومت، ثور انقلاب، سوویت یونین کی فوج کی افغانستان آمد اور اس کی پھر شکست و ریخت، پاکستان میں ستر کی دھائی میں پشتون نوجوانوں کی گوریلا جنگ سمیت یہ تمام واقعات انہوں نے نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ وہ ان میں اہم کردار کے طور پر بھی شامل رہے۔  پندرہ سال تک جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد 1988ء کو واپس پاکستان آئے۔ 1990ء کو عوامی نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں اپنے حلقے سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1994ء سے لے کر 1999ء تک ایوان بالا یعنی سینیٹ آف پاکستان کے ممبر رہے۔ اس کے علاوہ آپ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر بھی رہے ہیں۔ اکتوبر 1999ء کو نوازشریف حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے ان سے ملاقات کی اور صدارت کاعہدہ پیش کیا جس کی وجہ سے اے این پی قیادت اور اجمل خٹک کے درمیان اختلافات پیدا ہوئیں۔ اختلافات کی بنا پر اے این پی سے علاحدگی اختیار کرتے ہوئے “نیشنل عوامی پارٹی پاکستان’ کے نام سے الگ جماعت بنائی تاہم چند سالوں کے بعد دوبارہ اے این پی میں شامل ہوئے اور مرتے دم تک مذکورہ پارٹی سے وابستہ رہے۔
خلق اوخیاران دی د وختونو سرہ تلل کوی
مونگہ لیونوں د زمانے گریوان نیولے دے
موصوف کو 2007ء کو “اکادمی ادبیات پاکستان” نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں “کمالِ فن” ایوارڈ سے نوازا۔
قارئین، یہ عظیم شخصیت 07 فروری 2010 ء کو 85 سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے اور اکوڑہ خٹک نوشہرہ میں آسودۂ خاک ہوئے۔ ربِ تعالا سے دعا ہے کہ اللہ تعالا ان کو جنت الفردوس عطاء فرمائیں، آمین۔
جاتے جاتے موصوف کے ان اشعار پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا کہ:
غٹان غٹان نیکان نیکان پیدا دی
دوی خو لہ زایہ جنتیان پیدا دی
رازئی چی هغو لہ جنت وگٹو
سوک چی لہ مورہ دوزخیان پیدا دی
__________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو روزنامہ آزادی سوات نے آج یعنی 26 نومبر 2021ء بروزِ جمعہ کو پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: