مثنوی (مؤنث، واحد) عربی زبان میں ثلاثی مجرد باب سے مشتق اسم ہے، جو اُردو میں بھی بطورِ اسم استعمال ہوتا ہے۔ لفظ مثنوی عربی زبان کے لفظ “مثنیٰ” سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی “دو” کے ہیں۔
تعریف: “ہیئت کے لحاظ سے ایسی صنفِ سخن اور مسلسل نظم جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو، یا وہ مسلسل ہم وزن اشعار کی نظم جس کی ہر ہیئت کا قافیہ جدا اور ہیئت کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں، مثنوی کہلاتا ہے۔”
قارئین، مثنوی ایک وسیع صنفِ سخن ہے جس میں عموماً لمبے لمبے قصے کہانیاں بیان کیے جاتے ہیں، یعنی نثر میں جو کام ایک ناوِل سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے۔ البتہ مثنوی عموماً چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے، جس کےلیے چند بحریں مخصوص بھی ہیں۔ جن میں بحرِ ہزج، رمل، سریعِ خفیف، متقارب اور متدارک وغیرہ شامل ہیں۔
کچھ نابغہ شخصیات نے تاریخی، اخلاقی، اور مذہبی موضوعات پر خوب صورت مثنویاں لکھی اور کہی ہیں۔ بعض شعرا و ادبا عموماً اس کی پاس داری کرتے ہیں لیکن مثنوی میں شعروں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے، اس لیے کچھ مثنویاں کئی کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔
آخر میں کچھ اشعار بطورِ نمونہ پیش کیے جاتے ہیں۔
لائے اس بت کو التجا کرکے
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
(پنڈت دیا شنکر نسیم )
اسی طرح نواب مرزا شوق کی اشعار بھی ملاحظہ ہوں:
موت سے کس کو رست گاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
زندگی بے ثبات ہے اس میں
موت عین حیات ہے اس میں

شیئرکریں: