سچی لگن، محنت اور جذبوں کی صداقت انسان کو فن کی معراج پر پہنچاتا ہے۔ پھر تو مذکورہ انسان رہتی دنیا تک یاد رکھا جاتا ہے۔
آج میرا موضوعِ سخن ساجد علی خان ابوتلتاند کی کتاب “درش خیلہ (سوات) تہذیب کے دریچے میں” ہے۔ موصوف کی یہ کتاب پڑھنے کی لایق ہے۔ اس میں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کےلیے ان کی پسند کا مواد موجود ہے۔
مصنف کالم نگاری، انشا پردازی، فلسفہ اور تاریخ سے رغبت کے ساتھ ساتھ ادبی دنیا میں انوکھی پہچان رکھتے ہیں۔ مطالعہ بیسیار کا نتیجہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے جذبات، احساسات اور مشاہدات کو قلم کے سپرد کرتے ہوئے عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ کتاب اگرچہ ایک علاقے (درش خیلہ) تک محدود ہے، لیکن سوات کے باسیوں کواس میں اپنے کام کا مواد بہر حال مل جاتا ہے۔ اس ضمن میں مرحوم تصدیق اقبال بابو لکھتے ہیں؛ ساجد خان کا کارنامہ یہ ہے کہ اُس نے اپنے گاؤں درش خیلہ کا دریچہ سب کےلیے کھول دیا ہے۔ جو بظاہر تو اس کے گاؤں کا تہذیبی، سماجی اور تاریخی گہوارہ ہے، لیکن اس میں سوات بھرکی تاریخ، ثقافت، تہذیب اور تمدن کی تمام وہ نشانیاں موجود ہیں جو ہر گھر، ہر گاؤں اور ہر پختون خاندان کااثاثہ ہے۔”
قارئین، یہ کتاب اہلِ علاقہ کےلیے خوشی کی باعث ہوگی۔ کیوں کہ اس میں گذشتہ زمانے کے حالات اور واقعات کی بہترین انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔ اس میں تاریخ، معیشت، ثقافت، تہذیب و تمدن، رسم و رواج، عقاید، علوم و فنون، ذاتیں اور نسلیں، انتظامیہ، عمارات، خانقاہیں، کسب، خوشی و غمی، امیر و غریب، خان و دہقان، مالک و مزدور، تعلیم و تربیت، کھیل تماشے، صحت غرض ہر موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
اگر تحقیقی حوالے سے دیکھا جائے، تو یہ ایک بہترین کام بھی ہے اور کئی حوالوں سے تحقیقی لوازمات پر پورا اترتا ہے۔ موصوف نے درش خیلہ کو موضوعِ تحقیق قرار دے کر درحقیقت سوات کا سماجی نقشہ کھینچا ہے۔ مذکورہ کتاب نہ صرف تحقیق بلکہ تحقیق پر ایک احسان بھی ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر بدر الحکیم حکیم زئی صاحب لکھتے ہیں: “مَیں سمجھتا ہوں کہ ساجد خان کی یہ تحقیق نہ صرف آرکیالوجی، سوشیالوجی، انتھراپالوجی، اقتصادیات، تاریخ، تہذیب و ثقافت، سیاسیات اور ادبیات کی تحقیق کے لیے حوالے کا ایک معتبر مآخذ ثابت ہوگی بلکہ ساتھ ہی نئی تحقیقات کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرے گی۔”
یہ کتاب مصنف کا اپنے گاؤں اور گاؤں کے باسیوں سے شدید محبت کا اظہار ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بہترین پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ بلا امتیاز ہر اُس شخص کو جگہ دی ہے جس نے کوئی کاکردگی یا کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ غرض مصنف نے گہرائی اور گیرائی سے تمام حالات و واقعات کا بہ نظرِ غایر جایزہ لیا ہے۔ اس بارے میں پرویش شاہین لکھتے ہیں؛ میرے خیال میں مصنف آسمان پر نہیں چڑھا ہے۔ ورنہ اگر چاہے تو بندہ عجیب و غریب ہمت کا سکندر اور حوصلے کا پہاڑ ہے۔ جو آسمان پر بھی چڑھ سکے گا۔ ان کا یہ کام پچھلے وقتوں کا آئینہ ہے۔ یہ ایک انسائیکلو پیڈیا اور آرکائیوز ہے۔”
ساجد علی خان ابوتلتاند کو قومی زبان سے دلی لگاؤ اور والہانہ محبت ہے، تبھی تو زبان پر پورا عبور رکھتے ہیں۔ موصوف لکھتے ہوئے لفظوں کے دریچے سے کھولتے ہیں۔ اُن کی تحریر میں شہد جیسی مٹھاس، دریا جیسی روانی اور سمندر جیسی گہرائی پائی جاتی ہے۔ خیرالحکیم حکیم زئی لکھتے ہیں؛ ساجد کمال کا بندہ ہے جو لکھتا ہے، کمال لکھتا ہے۔”
مصنف کی یہ کاوش نسلِ نو کے لیے سوغات سے کم نہیں۔ اس دریچے سے وہ اپنی ماضی میں جھانک کر مستقبل کےلیے لائحہ عمل طے کرسکتے ہیں۔ نسلِ نو جو عموماً ماضی سے کوئی سروکار نہیں رکھتی، اس دل چسپ کتاب کے ذریعے اپنے اسلاف کے کارناموں اور خوبیوں سے خوب روشناس ہوسکتے ہیں اور اُن کے نقشِ قدم پر چل کر کام یابی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔
مصنف نے وسعت نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقوقِ نسواں کا بھی خیال رکھا ہے اور گاؤں کی مثالی خواتین کاتذکرہ کرتے ہوئے اُن کی بھر پور حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس بارے اُمت ساجد یوں رقم طراز ہیں؛ ایک عورت ہونے کے ناتے مجھے اس کتاب میں حقوقِ نسواں کی جھلک پوری آب و تاب سے جلوہ گر نظر آتی ہے۔”
نثار احمد گران اس کو ایک منفرد اور لاجواب کتاب قرار دیتے ہیں اور پرویش شاہین صاحب کتاب کو ابو تلتاند کی بہترین کاوش، اہلِ سوات کی داد کے مستحق اور مبارک باد کے قابل گردانتے ہیں۔
غرض اہلِ سوات کے لیے یہ ایک بہترین تحفہ ہے۔ اس خدمت کے صلے میں ان شاء اللہ اُن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ آخر میں اللہ تعالا سے دست بدعا ہوں کہ مصنف کی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشے اور اُنہیں زندگی کے ہر میدان میں کام یابی و کامرانی عطا فرمائے، آمین۔
________________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو روزنامہ آزادی سوات نے 24 فروری 2021ء کو پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شایع کروایا تھا۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: