خیبر پختون خوا کی سر زمین کو دنیائے علم و تحقیق اور شعر و ادب میں ایک نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ فکر و دانش سے معمور اس زر خیز و شاداب خطے نے نہ صرف پشتو زباں و ادب کے کئی قد آور شخصیات پیدا کیں، بلکہ اُردو زبان کے بہت سے نامور مفکرین، جیّد شعراء، جلیل القدر نقاد اور بلند پایہ اکابرین ادب کی جنم بھومی ہونے کا اعزاز بھی اس دھرتی کو حاصل ہے۔ اس ضمن میں خوشحال خان خٹک، رحمان بابا، غنی خان، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، امیر حمزہ خان شنواری، اجمل خٹک اور رحمت شاہ سائل وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہے۔  پشتو زبان و ادب کے اُفق پر ستاروں کی طرح چمکنے والے ان شعراء و ادباء میں ایک معتبر نام قلندر مومند کا بھی ہیں، جن سے پشتو زبان میں ایک نئے ادبی دبستان کا آغاز ہوتا ہے۔
قارئین، موصوف کا اصل نام صاحب زادہ حبیب الرحمان ہیں، جب کہ ادبی حلقوں میں قلندر مومند کے نام سے مشہور ہیں۔ قلندر مومند یکم ستمبر 1930ء کو پشاور کے نواحی علاقے “بازید خیل” نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ میٹرک امتحان پاس کرنے کے بعد اسلامیہ کالج پشاور میں داخلہ لیا، لیکن سیاسی وجوہ کی بناء پر تعلیم مکمل نہ کر سکے اور محکمۂ زراعت میں ملازمت اختیار کرلی۔ چند عرصے بعد اکاؤنٹنٹ جنرل آفس (A.G Office) چلے گئے۔ وہاں بھی دل نہ لگا، تو ایک کنسٹرکشن کمپنی میں ملازم کے طور پر شامل ہوئے۔ اُس دوران میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے دوبارہ اعلا تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ جس کے بعد پشاور یونی ورسٹی میں داخلہ لے کر انگریزی ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران میں یونی ورسٹی کے “جرنل آف انگلش لٹریری کلب” (Journal of English Literary Club) کے مدیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر پبلک سروس کمیشن (Public Service Commission) کی وساطت سے انگریزی ادب کے لیکچرار مقرر ہوئے لیکن ملک دشمنی کے الزام میں ملازمت سے فارغ کیے گئے۔
گلستان کہ می پہ وينو تازہ کیگی
ہر ازغے دی ھم زما پہ زڑہ کے مات شی
قارئین، قلندر مومند نے 1973ء میں قانون کا امتحان پاس کرتے ہوئے لا (Law) کی ڈگری حاصل کی۔ 1980ء میں ایک بار پھر گومل یونی ورسٹی میں انگریزی ادب کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ 1982ء میں لاء کالج کے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1983ء میں پشتو زبان کی ڈکشنری کی تیاری کے دس سالہ منصوبہ کی نگرانی موصوف کے سپرد کردی گئی۔ یہ مشن 1993ء میں تکمیل کو پہنچا اور “دریاب” کے نام سے منظرِ عام پر آیا۔
قلندر مومند صوبۂ سرحد (اَب خیبر پختون خوا) کے مشہور ادبی تنظیم “اولسی ادبی جرگہ” کے بانی رُکن اور اس کے سیکرٹری جنرل تھے۔ 1962ء میں جرگہ کی تحلیل کے بعد آپ نے ادبی تنظیم “د ساھو لیکونکو مرکہ” کی بنیاد رکھی۔ نیز روزنامۂ “انجام” (کراچی)، “شہباز” (پشاور) اور “بانگِ حرم” میں مدیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ جب کہ مشرقی پاکستان (بنگال) سے شائع ہونے والے انگریزی رسالوں “دی ینگ پاکستان” (The Young Pakistan) اور ہفتہ وار “ہالی ڈے” (Holiday) سے نمایندہ کے طور پر وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ خیبر میل، پشاور ٹائمز، فرنٹیر گارجین، نقیب، سرحد اور روزنامۂ انقلاب سے بھی منسلک رہے۔ روزنامۂ “مشرق” اور “آج” کے کالم نگار بھی رہے۔

معروف آرٹسٹ حمداللہ ارباب کے ہاتھوں بنی قلندر مومند کی ایک خوب صورت پینٹنگ
فوٹو: حمداللہ ارباب

قارئین، قلندر مومند بہترین کلاسیکی روایات سے وابستہ رہنے والے شاعر ہیں، لیکن ترقی پسند تحریک کے بھی زیرِ اثر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے تخلیقی تجربے اور فنِ شاعری کے تمام اصولوں اور قواعد پر بے پناہ عبور حاصل کرکے پشتو کی جدید غزل کو خشک بغاوت اور نعرہ بازی کے گرداب سے باہر نکال کر اپنی زمین اور سماجی رشتوں سے متعارف کروایا۔ جس پر چند غزل گو شاعروں نے ان کے خلاف ہنگامہ بپا کرتے ہوئے ان کے خلاف فتوے جاری کیے۔ جس کا جواب انہوں نے بڑی ثابت قدمی اور جرات سے اپنے مخالفین کو اپنے اس شعر میں دیا:
دَ غزل غرور ئی مات شو رقيبان می شريک شور کا
قلندر پہ غرغرہ کڑئی قلندر اشتراکی دے
ترجمہ، رقیبوں کی غزل کا غرور ٹوٹ گیا، تو اب شور مچاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ قلندر کو مصلوب کر دو، کیوں کہ قلندر اشتراکی ہے۔
قلندر مومند نے زبان و ادب کی تاریخ میں کبھی کسی سیاسی، قومی اور ذاتی پسندو ناپسند کا خیال نہیں رکھا۔ بلکہ حقیقت کو تاریخی اسناد اور معتبر دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ پشتو ادب کے اوّلین تذکرہ “پٹہ خزانہ” پر تنقیدی معروضات لکھنے پر ان کی ذات اور عقیدہ پر بھی حملے کئے گئے۔ تاہم قلندر مومند نے جواباً کبھی بھی ادبی اخلاق کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بلکہ ان کا موقف یہی رہا کہ میں کسی جاہل کو جواب دینے سے خواہ مخواہ اس کی اہمیت کیوں کر تسلیم کر لوں اور اپنا وقت برباد کروں!
قارئین، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مترجم، محقق، نقاد، ماہرِ لسانیات، ڈرامہ نگار، دانش ور اور کئی زبانوں پر عبور رکھنے والے قلندر مومند جدید پشتو ادب میں اپنے دیگر ہم عصر شاعروں اور ادیبوں میں ایک منفرد اور جداگانہ علمی حیثیت کے مالک تھے۔ بقولِ خوشحال خان خٹک: “چاہے نظم ہو نثر یا املا و انشاء ہو، پشتو زبان پر میرا بے حساب حق ہے”۔ اگر یہ دعوا قلندر مومند اپنی زندگی میں کرتے، تو شاید غلط نہ ہوتا۔ کیوں کہ انہوں نے پشتو زبان میں ایسے شاہ کار فن پارے پیش کیے ہیں، جن کے معیار کا ان کے مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں سے متعلق ڈاکٹر محمد اعظم کا کہنا ہے کہ پشتو افسانے کا آغاز جس نے بھی کیا ہے، تاہم اس کا اختتام قلندر مومند کے لکھے ہوئے افسانے “گجرے” پر ہوا ہے۔
قارئین، قلندر مومند نے اپنے وسیع علم اور تنقیدی بصیرت سے پشتو زبان کےلیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ضرورت کے تحت ایک نیا رسم الخط بھی وضع کیا۔ وہ ایک شفیق استاد اور مہربان عالم تھے۔ ہر شاگرد کا دعوا ہے کہ وہ اسے دوسروں سے زیادہ چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی ادبی تنظیم کے پلیٹ فارم سے سیکڑوں شاعروں اور ادیبوں کی تربیت کی۔ آج پشتو کے جدید ادب میں جو بڑے بڑے شاعر و ادیب نظر آتے ہیں، ان میں اکثریت ان کے شاگردوں کی ہے۔
قلندر مومند نے حالات کو نئے زاویوں سے دیکھا، غزل کی قدیم علامتیں، استعارے اور تلمیحات ان کے ہاں نئے روپ میں ملتی ہیں۔ اُن کی ادب اور صحافت میں اپنے نظریے کے ساتھ پوری وابستگی اور عقیدت ملتی ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میری زندگی کا فلسفہ بہت سادہ ہے جس کی بنیاد سچائی پر ہے۔ زندگی میں میری دل چسپی صرف اتنی ہے کہ میں اپنا کردار اچھی طرح ادا کرسکوں۔ مجھ سے دنیا کی کوئی طاقت ادبی اور سیاسی محاذ پر مخالفتوں کا بڑھتا ہوا سیلاب، قید و بند کی صعوبتیں، غربت، بے روزگاری، بیماری اور اپنوں کے دیے ہوئے داغ اور میرا کردار نہیں چھین سکیں۔ کیوں کہ (ترجمہ) میری روح ایک بھڑکتا ہوا شعلہ ہے، میرا دین الفت اور محبت ہے، میری سیاست ہر جابر اور ظالم سے نفرت ہے۔
قارئین، پشتو زبان و ادب کا یہ درخشاں ستارہ 04 فروری 2003ء کو 73 سال کی عمر میں ابدی نیند سو گئے۔ ربِ تعالا موصوف کو جنت الفردوس نصیب فرمائے، آمین۔
جاتے جاتے موصوف کے ان اشعار پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا کہ:
چی دی زما پہ ژوند د نہ راتلو قسم کڑے وو
راشہ اوس ساہ می پہ وتو شوا تہ بہ کلہ رازے
د قلندر د ارمانی جوندون علاجہ مرگہ
ھغہ خو اوس د نہ راتلو شوا تہ بہ کلہ رازے
_____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: