بانی خدائی خدمت گار تحریک خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کی بہو، اُصول پرست سیاست دان اور رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان کی بیگم، ثابت قدم سیاست دان اسفندیار ولی خان اور مردم شناس شخصیت سنگین ولی خان کی ماں “بیگم نسیم ولی خان“ جنہیں پختون پیار و عقیدت سے “مور بی بی“ کے نام سے پُکارتے تھے، 24 جنوری 1936ء کو مردان پارہوتی میں خدائی خدمت گار تحریک کے اہم رُکن امیر محمد خان ہوتی کے گھر میں پیدا ہوئیں۔
رہبرِ تحریک کے ساتھ اسفندیار ولی خان کی پرورش اور تربیت کےلیے 1954ء کو اُس وقت شادی کے بندھن میں بندھ گئیں، جب باچا خان کو صوبہ بدر کیا گیا تھا۔  پاکستانی سیاست میں “آئرن لیڈی“ (Iron Lady) کے نام سے مشہور بیگم نسیم ولی خان عملی طور پر 1975ء کو پاکستانی سیاست کے میدان میں اس وقت کھود پڑی، جب بھٹو کے نام نہاد عوامی دور میں نہ صرف خان عبدالولی خان کو گرفتار کرکے پابندِ سلاسل کیا گیا، بلکہ آپ کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر بھی پابندی لگادی گئی۔ مور بی بی نے ایسے حالات میں پارٹی کا کنٹرول سنبھالا جب ذوالفقار علی بھٹو کے بنائے ہوئے “حیدر آباد ٹریبونل کیس“ (Hyderabad Conspiracy Case) میں “نیپ“ کی تمام صفِ اول کی قیادت جیل میں اسیری کی زندگی گزار رہی تھی اور سیاست کی خالی گدی سنبھالنے والا کوئی نہ تھا۔ کیوں کہ بھٹو صاحب کے ظلم و بربریت کی وجہ سے یا تو تمام مرد جیل میں تھے، یا زیرِ زمین، اور یا پھر جلاوطن۔ کوئی قدآور مرد ایسا نہیں بچا تھا جو قومی و جمہوری کاررواں کو آگے لے کر جائے۔ ایسے میں پختون سیاست کا پانسا پلٹنے والی اصولی خاتون مور بی بی آگے آئیں اور سردار شیرباز خان مزاری کی قیادت میں ایک نئی جمہوری جماعت “نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی“ (این ڈی پی) کی داغ بیل ڈالی۔ یوں بیگم نسیم ولی خان نے میدان میں آکر بھٹو صاحب کی آمریت اور رعونت کو چیلنج کرتے ہوئے نہ صرف سیاسی گدی سنبھالی بلکہ نام نہاد عوامی لیڈر بھٹو اور حیدر آباد کیس کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

بیگم نسیم ولی خان اور بےنظیر بھٹو کا 1987ء کو ولی باغ چارسدہ میں ملاقات کے دوران میں لی گئی ایک یادگار تصویر

ضیاء الحق کی دورِ حکومت میں مور بی بی نے مذکورہ پلیٹ فارم سے حیدرآباد سازش کیس کے خلاف ایک منظم تحریک چلائی اور کام یاب پیروی پر مذکورہ کیس میں نیپ کے نام زد تمام اسیر راہ نماؤں کو باعزت رہائی دلانے میں کام یاب ہوئیں۔ این ڈی پی وہ جماعت تھی جس نے بھٹو کی جمہوریت کے نام پر مسلط آمرانہ حکومت کے خلاف جد و جہد میں ہر اول دستے کا کردار اداکیا اور بھٹو کو ناکام و نامراد ٹھہرا کر چھوڑا۔
حیدر آباد سازش کیس جیسے نازک موڑ پر سیاست میں قدم رکھنے والی بیگم نسیم ولی خان نے تمام معاشرتی ناہمواریوں کو رد کرتے اور مفروضوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ پختون معاشرے میں صرف مرد ہی نہیں بلکہ خواتین بھی سیاست میں حصہ لے کر اپنی کام یابی کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں۔ آپ ہمیشہ سے انتخابی عمل میں خواتین کی سیاسی شمولیت کی مضبوط حامی رہی ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ خواتین کو سیاست میں ضرور حصہ لینا چاہیے کیوں کہ وہ معاشرے کا بڑا حصہ ہیں۔ خواتین کو نظر انداز کرنا معاشرے کی اکثریت کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
خیبر پختون خوا میں مزاحمت کا استعارہ سمجھی جانی والے مور بی بی کو خیبر پختون خوا سے پہلی منتخب رکنِ قومی اسمبلی کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔ 1977ء کو چارسدہ اور مردان کے قومی اسمبلی (این اے 4 اور این اے 8) کے حلقوں پر بہ یک وقت رُکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ تاہم اُنہوں نے قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہیں اُٹھایا کیوں کہ اُس وقت این ڈی پی کی تحریک اپنی عروج پر تھی اور مارشل لاء نافذ کیا گیا تھا۔
1986ء کو جب اے این پی کی بنیاد رکھی گئی تو خان عبدالولی خان مرکزی صدر جب کہ ممتاز قوم پرست سیاست دان افضل خان لالا (مرحوم) صوبائی صدر منتخب ہوئے۔ 1994ء کو مور بی بی پہلی بار جب کہ 1998ء کو دوسری بار عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختون خوا کی صدر منتخب ہوئیں۔ اُنہوں نے پارلیمانی انتخابات میں پہلی بار 1988ء کو پی ایف 13 چارسدہ سے حصہ لیا اور خیبر پختون خوا اسمبلی کی رُکن منتخب ہوئیں۔ پھر 1990ء، 1993ء اور 1997ء میں بھی رُکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ وہ چار مرتبہ اے این پی کی صوبائی پارلیمانی لیڈر بھی رہ چکی ہیں۔ جب کہ 97-1990ء کے دوران میں صوبائی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف بھی رہی ہیں۔
یہ سہرا اے این پی ہی کے سر ہے کہ ایک خاتون نے سب سے پہلے پاکستان کی سیاست میں جنرل نشست پر انتخابات میں کام یابی حاصل کی۔

بیگم نسیم ولی خان کا اسفندیار ولی خان، امیر حیدر خان ہوتی، ایمل ولی خان اور لونگین ولی خان کے ہم راہ ایک یادگار تصویر

قارئین، پچھلے دنوں سینئر صحافی سہیل وڑائچ صاحب کی ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں آپ بیگم نسیم ولی خان پوچھتے ہیں کہ ” آپ نمازیں اور تسبیح پڑھ رہی ہیں جب کہ ولی خان کے خانوادے کی سیاست سیکولر ہے، یہ تضاد کیوں…؟ جس پر مور بی بی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سیکولر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کافر ہو بلکہ اس کا مطلب غیر فرقہ واریت ہے۔ یہ باچا خان کی تعلیمات ہیں جنہوں نے خود بھی ہمیشہ جمیعت علمائے ہند کا ساتھ دیا۔ عقیدتاً میں مسلمان ہوں، اور یہ مجھ پہ فرض ہے کہ میں نماز پڑھوں۔”
قارئین، مور بی بی ایک عرصے تک پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) کی اُمور بھی دیکھتی رہیں۔ اُن کی تربیت کی وجہ سے پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن نے طلبہ سیاست میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ بیگم نسیم ولی خان کی سیاست، جد و جہد اور قربانیوں کی تاریخ بہت طویل ہے۔ اس مختصر تحریر میں اس کا احاطہ ممکن نہیں۔ ان کی سیاسی خدمات پر مختلف نشستوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
بلا شبہ بیگم نسیم ولی خان ایک باہمت، نڈر اور بہادر خاتون تھیں۔ اپنی زندگی میں نمایاں اور منفرد کردار ادا کرتے ہوئے ساری عمر جد و جہد میں گزاری۔
یہ عظیم سیاسی شخصیت 16 مئی 2021ء بروزِ اتوار کو 85 سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ اُن کی رحلت جمہوریت کے بقاء کےلیے جد و جہد کے ناقابل فراموش باب بند ہوگیا۔ خواتین کے حقوق کی جد و جہد کےلیے ان کی خدمات کو تادیر یاد رکھی جائیں گی۔ ان کی رحلت پر بیشتر پختون سوگوار ہے۔ کیوں کہ تاریخ نے ایسی باہمت خواتین بہت کم دیکھی ہیں۔ مور بی بی کی زندگی ایک روشن باب کی مانند ہے جو تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھی جائیں گی۔ بقولِ شاعر!
د سنگر ملالہ لاڑہ، د لخکر ملالہ لاڑہ
اشنغره سہ خبر شوی ستا د سر ملالہ لاڑہ
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا مور بی بی کو جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے، آمین۔
_______________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: