سچ پوچھیے تو “قدرت نے بنایا ہوگا فرصت سے تجھے میرے یار” والی بات اگر موجودہ دور میں پشتو زبان کی کسی گلوکارہ پر سو فی صد صادق آتی ہے، تو وہ نغمہ کے بغیر اور کون ہو سکتی ہے، جو بالکل اسمِ بامسمیٰ اور سراپا نغمہ ہے۔  نغمہ کو  قدرت نے ایک سریلی، میٹھی اور جادو بھری آواز کے علاوہ ایک ایسی خوب صورت قد و قامت بھی بخشی ہے جس کے انگ انگ میں نغمگی، لے اور سُر بول رہا  ہے۔ افغانستان کے صوبہ قندہار میں ایک روایتی پختون گھرانے میں جنم لینے والی گائیکہ کا اصل نام “خاپیرئی” (پری)  ہیں۔ جب کہ موسیقی کی دنیا میں نغمہ کے نام سے مشہور ہیں۔ جن آنکھوں نے صرف ایک بار بھی اسے قریب سے دیکھا ہو، وہ اعتراف کریں گے کہ نغمہ واقعی کسی پرستان سے آئی ہوئی پری ہیں۔
قارئین، نغمہ کو بچپن ہی سے گلوکاری کا شوق تھا، مگر اپنے گھر اور خاندان کے خوف سے خاپیرئی نے اپنے اندر کے “نغمہ” کے ہونٹ سی لیے تھے۔ لیکن بقولِ غالب “نغمہ پابند نہیں ہے” کے  مصداق جس وقت وہ ایف اے (F.A) کرنے کے بعد افغانستان کی وزارتِ داخلہ میں خاتون پولیس کے طور پر بھرتی ہو گئیں جہاں منگل نامی ایک خوب صورت نوجوان شوقیہ گلوکار بھی ملازمت کر رہا تھا جو صوبہ لغمان کے گاؤں “گومین” کے رہنے والے تھے۔ دونوں کی ایک ساتھ محکمۂ پولیس میں ملازمت اور فنِ گائیکی سے گہرے لگاؤ نے ایک ایسی دوستی کی  شکل اختیار کر لی جو چلتی چلتی شادی پر منتج ہوئی اور اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف نغمہ نے اپنے جیون ساتھی کا ہاتھ تھام لیا۔ دونوں کی شادی میں اُس وقت کے افغان وزیرِ داخلہ گلاب زئی نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔
اگر چہ اب دونوں کے مابین طلاق واقع ہوئی ہے اور نغمہ نے دوسری شادی امریکا میں کی ہے اور اب بھی وہاں مقیم ہیں۔ افغانستان میں روسی فوج کی آمد سے دیگر افغانیوں کی طرح یہ گائیک جوڑی بھی وہاں سے ہجرت کرکے پاکستان آگئی۔ کچھ عرصہ پشاور گزارا اور بعد میں اسلام آباد منتقل  ہو گئے۔ یہاں بھی دونوں میاں بیوی نے ریڈیو پاکستان  پشاور کے علاوہ پشاور ٹیلی وژن اور دیگر مشہور آڈیو سنٹروں کےلیے اپنی آواز میں کئی البم تیار کیے۔

نغمہ اپنے سابق شوہر منگل کے ہم راہ
فوٹو: ابدالؔی

یہاں کافی عرصہ گزارنے کے بعد امریکا چلے گئے جہاں اپنے چار بچوں کے ساتھ جن میں دو لڑکیاں اور دو لڑکے شامل ہیں، زندگی گزار رہے ہیں۔ نغمہ وہاں سے دنیا کے دیگر ممالک میں آباد پختونوں کی خصوصی دعوت پر پروگراموں میں شرکت کرنے آتی جاتی ہیں۔
گزشتہ دنوں اپنے ایک انٹرویو میں نغمہ افغانستان کے موجودہ طالبان کے امیر اور حکم ران ملا برادر سے مخاطب تھیں کہ خدارا، افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر لگائی گئی پابندی ہٹا دیں۔ ہمیں آپ کی حکم رانی سے اور کچھ لینا دینا نہیں۔ بس صرف یہی ایک گزارش ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم سے منع نہ کریں۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک گیت بھی گایا ہے جس کے بول یہ ہیں کہ “خدارا، ان آزاد پرندوں (لڑکیوں) کو پرواز کرنے دو۔ ان کے پروں کو نہ باندھیں۔”
قارئین، نغمہ ایک خوب صورت گلوکارہ کے علاوہ پشتو زبان کی ایک بہترین شاعرہ بھی ہیں۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ “ماتہ ھیندارہ” (ٹوٹا ہوا آئینہ) چند سال قبل چھپ کر مارکیٹ میں آیا اور پڑھنے والوں سے خوب داد و تحسین وصول کی۔ کچھ عرصہ قبل نغمہ افغانستان کے آریانہ ٹیلی وژن کی خصوصی دعوت پر کابل آئی ہوئی تھیں۔ امریکا واپس جاتے ہوئے اسلام آباد میں دو دن قیام کے دوران میں ان سے ایک صحافی دوست کے ہم راہ ملاقات ہوئی۔ اس نشست کے دوران میں ان سے جو خصوصی گفتگو ہوئی، وہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے:
اپنے ماحول اور معاشرے میں اپنی ذات اور موجودگی کے حوالے سے نغمہ نے بتایا کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں میرا وجود ایک طعنہ ہے۔ کیوں کہ قدرت نے مجھے عورت ذات پیدا کیا ہے اور عورت کا مقام اب بھی اس معاشرے میں جوتے کے برابر ہے۔ اب بھی میرے خاندان اور قبیلے کے لوگ مجھے اپنے ماتھے پر ایک بدنما داغ سمجھتے ہیں۔ میری آواز اور چہرے کو پسند کرنے والے میرے وجود کو ایک انسان کی شکل میں برداشت کرنے کےلیے تیار نہیں۔ اسی تضاد اور دوغلا پن کی وجہ سے میں نے اپنا وطن افغانستان چھوڑ کر امریکا میں مسافرت کی زندگی اختیار کی ہے۔ قدرت نے میرے دل و دماغ میں روشنی کا ایک ایسا چشمہ پیدا کیا ہے جس پر کوئی تاریکی اپنا قبضہ نہیں جما سکتی۔
فن اور سیاست کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سیاست لوگوں پر اپنی حاکمیت زبردستی یا دولت کے ذریعے کرتی ہے جب کہ فن اپنا پیغام پیار اور محبت کی زبان میں پہنچاتا ہے۔ مشرق اور مغرب کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے نغمہ نے بتایا کہ مشرق ہمیشہ علم و تہذیب کا مرکز رہا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے جو روشنی اور اُجالے کی زندہ مثال اور نمونہ ہے ۔
شاعری اور موسیقی کے درمیان میں تعلق کے بارے میں نغمہ نے کہا کہ شاعری اور موسیقی کا آپس میں وہی رشتہ ہے جو رشتہ روح اور تن کے درمیان ہے۔ اس لیے روح اور وجود کو ایک دوسرے سے جدا کرنے سے دونوں کی موت فطری امر ہے۔
ماضی اور حال کے کابل کے حالات کے حوالے سے نغمہ نے بتایا کہ آج اپنے ملک افغانستان کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پچھلے چالیس سال سے مسلسل جنگوں نے افغانستان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ کابل اب وہ کابل نہیں رہا۔ کیوں کہ اس کے لوگ بدل گئے ہیں، اس کا کلچر تبدیل ہو چکا ہے، لوگوں میں پہلے والی محبت نہیں رہی۔ صحت اور تعلیم کی حالت  انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ اس سے بڑھ کر سب سے بڑی تباہی لوگوں کی ذہنی تباہی ہے۔
کابل میں مختلف ٹیلی وژن اور ریڈیو چینلوں کے بارے میں نغمہ نے بتایا کہ اچھی بات ہے آج ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ لیکن ان چینلوں کو جس چیز کو پیش کرنے کی ضرورت ہے، اسے پیش نہیں کرتے۔ بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دوسروں کا کلچر اور زبان افغانیوں پر تھوپا جا رہا ہے۔ حالاں کہ افغانیوں کا اپنا کلچر، اپنی زبان، ادب اور موسیقی ہے۔ لیکن آج وہاں ہندی، تاجکی، عربی اور ایرانی زبان اور کلچر کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ پورے ہندوستان میں کوئی ایک افغان گلوکار اور فن کار کو نہیں جانتے۔ جب کہ افغانستان کا بچہ بچہ شاہ رُخ خان، سنجے دت، مادھوری، ایشوریہ رائے سمیت دیگر ناموں سے واقف ہیں۔
افغانستان میں 75 فی صد آبادی پشتو بولنے والوں کی ہے، لیکن آج وہاں ان کی زبان پشتو آخری سانسیں  لے رہی ہے۔ افغانستان کی ملی زبان پشتو اور سرکاری زبان دری اور پشتو دونوں ہیں۔ لیکن آج وہاں ازبکی، تاجکی اور دیگر زبانوں کا طوطی بول رہا ہے۔ مَیں نے اس لیے افغانستان کا ملی ترانہ گانے سے انکار کیا تھا کہ اس میں سولہ زبانوں کے الفاظ شامل کئے گئے ہیں، جو خود بے اتفاقی کی نشانی ہے۔ ملی ترانے میں تو وطن کی عظمت، محبت، تاریخ اور کارناموں کا ذکر ہونا چاہیے۔ جب کہ موجودہ ترانے میں ازبک، تاجک اور پنچ شیری کی تعریف بیان کی جارہی ہے۔
افغانستان کو آج سب سے زیادہ امن، محبت، اتفاق اور ملی یَک جہتی کی ضرورت ہے۔ جس طرح یہ ملک غریب اور پسماندہ ہے، اس طرح اس کے فن کار بھی غریب ہیں۔ ہم دنیا کے دیگر فن کاروں کی طرح اپنے ملک اور غریب عوام کی خدمت اس لیے نہیں کر سکتے کہ وہ لوگ ہم سے اقتصادی طور پر بہت مضبوط اور خوش حال ہیں۔ ان کے ایک ایک پروگرام اور شو کو دیکھنے کےلیے ہزاروں لوگ ہزاروں روپے کا ٹکٹ خرید کر آتے ہیں۔ میرا دل بھی چاہتا ہے کہ اپنے ملک کے غریب لوگوں کےلیے کچھ کروں لیکن خود ہر وقت مالی مشکلات میں پھنسی رہتی ہوں۔
مجھے جب اپنی والدہ اور رشتہ دار کہتے ہیں کہ حج پر چلی جائیں، تو  میں ہنس دیتی ہوں اور انہیں کہتی ہوں کہ ٹھیک ہے حج پر چلی جاؤں گی۔ لیکن افغانستان میں تو آج بھی سیکڑوں لوگ بھوک سے تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔ اگر وہ رقم جس پر حج کرتی ہوں، اپنے ان غریبوں  میں بانٹ دوں، تو حج سے کئی گنا زیادہ ثواب مل سکتا ہے۔
ہجرت اور پناہ گزینی کی زندگی نے افغانیوں کی زندگی اور طور طریقوں پر کیا اثرات مرتب کئے…؟ اس سوال کے جواب میں نغمہ نے بتایا کہ مجبوری اور غربت نے ہی ان لوگوں کو ایک دنیا دکھائی دوسروں کی زبان، بودو وباش اور کلچر سے آشنا ہوئے۔ اس ہجرت کی زندگی میں افغانیوں نے بہت کچھ کھویا اور بہت کچھ پایا۔ مَیں اکثر اپنے لوگوں کو پنجابیوں کی مثال دیتی ہوں جو بہت نرم دل اور اپنے ملک اور مٹی سے پیار کرنے والے لوگ ہیں۔ اگر ہمارے لوگوں  نے پاکستانیوں کی تقلید شروع کر دی، تو وہ دن دور نہیں جب افغانستان ایک بار پھر خوش حال اور آباد افغانستان ہو گا۔
نغمہ نے بتایا کہ اگر افغانستان میں امن قایم ہوا اور حالات سازگار ہو گئے، تو ارادہ ہے کہ واپس آکر یہاں عورتوں کےلیے موسیقی سیکھنے کی ایک اکیڈمی قائم کر لوں۔ نغمہ نے بتایا کہ میرے گائے ہوئے گیت اور نغمے خود اچھے ہیں۔ اس لیے ان گیتوں کے ساتھ کسی ناچنے والی لڑکیوں کی ضرورت نہیں اور جو لوگ میرے گائے ہوئے گیتوں کے ساتھ اس طرح کرتے ہیں وہ میرے فن اور شخصیت کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ نغمہ نے بتایا کہ میں اپنی زبان، اپنی قوم اور اپنی مٹی سے بے پناہ محبت کرتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ اپنے فن کے ذریعے اپنی زبان اور اپنی مٹی کا قرض اتار دوں ۔”
____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: