کہا جاتا ہے کہ تاریخ بڑی بے رحم ہے، کیوں کہ یہ کسی کو معاف کرتی ہے اور نہ ہی تاریخ کو منوں مٹی دفن کیا جا سکتا ہے، کہ تاریخ قوموں کا حافظہ ہوا کرتی ہے۔
23 اپریل 1930ء کا خوں آشام دن ہماری تاریخِ آزادی کا ایک خونی باب ہے۔ برطانوی سامراج کے دو سو سالہ عہدِ حکومت میں یہ رسوا کن اور انسان دشمن واقعہ ہمیشہ یادگار رہے گا جس میں خیبر پختون خوا کے غیور اور تحریکِ آزادی کے پروانوں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر ان انگریزوں کی قوت سے ٹکر لی، جس کی حکومت میں آفتاب کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔
جس وقت صوبے میں سب سے پہلے سول نافرمانی (Civil Disobedience) کا آغاز ہوا، بہت سے رہ نماء جو اس وقت کانگریس میں شامل نہیں ہوئے تھے، انہوں نے بھی سول نافرمانی کے جلسے میں شرکت کی۔
اس جلسے کے ایک ہفتے بعد یعنی 18 اپریل 1930ء کو اتمان زئی میں "افغان جرگہ” کی طرف سے "کسان کانفرنس” کے نام سے ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا جس میں تمام سیاسی انجمنوں کے علاوہ ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور "خدائی خدمت گار” کے نام سے رضا کاروں کی تنظیم کا فیصلہ کیا گیا۔ اس جلسے میں تقریروں کے علاوہ ایک پشتو طرحی مشاعرہ گل احمد سکنہ مرغز کے اس مصرع پر منعقد ہوا تھا کہ:
جنگ د ازادئی لہ ہمیشہ زلمی وتلی دی
اس مشاعرے میں صوبے کے تمام پشتون شعراء نے حصہ لیا اور سارے صوبے میں آزادی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس کے فوراً بعد 23 اپریل 1930ء کا تاریخی حادثہ وقوع پذیر ہوا اور تمام سیاسی رہ نما اور کارکن گرفتار کر لیے گئے۔ صوبائی کانگریس کمیٹی نے 20 اپریل 1930ء کو پشاور میں شراب خانوں پر پکٹنگ کر کے سول نافرمانی کی باقاعدہ تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اسی اثناء میں باچا خان نے جو ان دنوں "افغان جرگہ” کے صدر تھے اور اس وقت تک کانگریس سے وابستہ نہ ہوئے تھے،  نے کمیٹی سے درخواست کی کہ وہ 18 اپریل کو اتمان زئی (چارسدہ) میں "کسان کانفرنس” منعقد کر رہے ہیں جس میں کانگریس کے تمام رہ نما اور رضا کار شامل ہو کر اسے کام یاب بنانے کی کوشش کریں۔
کانگریس کمیٹی نے باچا خان کی درخواست منظور کرتے ہوئے اس کانفرنس میں شمولیت کی دعوت قبول کرلی اور اپنی سول نافرمانی کی تحریک کو ملتوی کر دیا۔ اس کانفرنس کے اختتام پر 21 اپریل کو پراونشل کانگریس کے اجلاس میں دوبارہ سول نافرمانی کے لیے 23 اپریل کی تاریخ مقرر کی گئی اور سید الاحرار آغا لال بادشاہ، مولانا عبدالرحیم پوپلزئی، مولانا خان میر ہلالی، ڈاکٹر گھوش، غلام ربانی سیٹھی، رحیم بخش غزنوی، علی گل خان، اللہ بخش برقی، عبدالرحمان ریا، اجیرج رام گھمنڈی، کاکاجی صنوبر حسین مومند، پیڑا خان اور روشن لال دیوان پر مشتمل ایک وفد کمیٹی منتخب کی گئی جس میں کانگریس اور بھارت سبھا دونوں کے نمائندے شامل تھے۔
کمیٹی اور بھارت سبھا نے پورے زور و شور سے سول نافرمانی کی تیاری شروع کر دی۔ انہی دنوں کاکا صنوبر حسین کی تجویز پر مولانا عبدالرحیم پوپلزئی کو بھارت سبھا میں شامل کیا گیا اور انہیں صدر منتخب کیا گیا جس سے بھارت سبھا میں ایک نئی زندگی پیدا ہو گئی اور عوام میں اس جماعت کا وقار بڑھ گیا۔ کانگریس نے سول نافرمانی کے لیے اپنی وار کمیٹی کے ممبروں کا انتخاب ایک خفیہ میٹنگ میں کیا لیکن حکومت کو اس کی بھنک پڑ گئی اور اس نے اس دستے کو قبل از وقت گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت کے فیصلے کے مطابق نصب شب کو انہیں ان کے گھروں پر گرفتار کیا جانے والا تھا لیکن یہ اطلاع 22 اپریل کو 03 بجے کانگریس کے دفتر میں پہنچ گئی اور جماعت نے اپنی ایک ہنگامی میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ حکومت کے اس منصوبے کو کام یاب نہ ہونے دیا جائے۔ رضا کار رات کو گرفتاری نہ دیں اور پروگرام کے مطابق دن کے وقت اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کریں لیکن جماعت کے اس فیصلے کی اطلاع تمام رضا کاروں کو بروقت نہ پہنچائی جا سکی اور انہیں 23 اپریل کی رات کو ان کے گھروں سے بہ یک وقت پولیس نے چھاپہ مار کر گرفتار کر لیا۔ ان میں سے صرف دو نوجوان رضا کار غلام ربانی سیٹھی اور اللہ بخش برقی نے رات کو گرفتاری نہ دی اور انہیں 23 اپریل کی صبح کو پراونشل کانگریس کمیٹی کے دفتر واقعہ گھنٹہ گھر پشاور سے پولیس کی ایک مسلح گارڈ نے آکر گرفتار کیا۔ گرفتاری کے بعد پولیس انہیں پیادہ لے چلی جہاں پولیس کی لاری کھڑی تھی راستے میں لوگ ساتھ ہوتے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اچھا خاصہ جلوس بن گیا۔ میونسپل کمیٹی کے پاس پہنچتے ہی پولیس نے رضا کاروں کو لاری میں بٹھانا چاہا لیکن بے قابو ہجوم نے لاری کے ٹائر کاٹ دیے۔ ہجوم کا جوش و خروش دیکھ کر پولیس کے اوسان خطا ہو گئے۔ رضا کاروں نے پولیس کو مشورہ دیا کہ وہ انہیں چھوڑ دیں وہ خود کابلی تھانے پہنچ جائیں گے یوں پولیس نے اسی میں مصحلت دیکھی اور ان کی ہتھکڑیاں کھول دیں اور اپنی جان بچا کر چلی گئی۔ غلام ربانی سیٹھی اور اللہ بخش برقی دونوں رضا کار بیس ہزار افراد کے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے کابلی تھانے پہنچے اور تھانے میں میں داخل ہو کر اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کر دیا لیکن اس وقت قصہ خوانی کے سامنے عوام کا بے پناہ ہجوم جمع ہو چکا تھا۔ لوگ "انقلاب زندہ باد” کے نعرے لگاتے ہوئے رضا کاروں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ہجوم نے بے قابو ہو کر تھانے پر پتھراؤ بھی شروع کر دیا۔ بعض صلح جو لوگوں نے ہجوم کو سمجھا بجھا کر منتشر کرنے کی کوشش کی اور قریب تھا کہ معاملہ رفع دفع ہو جاتا لیکن پولیس افسران نے صورت حال سے گھبرا کر ڈپٹی کمشنر کو فوج بھیجنے کے لیے ٹیلی فون کر دیا۔ اچانک پہلی آرمڈ کار نہایت تیز رفتاری سے کابل دروازے میں داخل ہوئی اور ڈرائیور کی لاپرواہی سے نمک منڈی پشاور کے ایک نوجوان "لالا وسوندہی رام” کو کچلتے ہوئے گزر گئی۔ اس حادثے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھے، ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور جوش انتقام میں بے قرار نظر آنے لگے۔
اب معاملہ کافی حد تک بگڑ چکا تھا۔ گوری فوج اپنے محکوموں کی یہ جرات برداشت نہ کی اور نہتے لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ ہجوم آہنی دیوار کی طرح ڈٹا ہوا تھا۔ مشین گنوں، سٹین گنوں، لوس گنوں اور بندوقوں کی بے پناہ فائرنگ نے لوگوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا لیکن بھاگنے پر بھی کسی کو پناہ نہ مل سکی۔ گورے سپاہیوں نے گلی کوچوں اور گھروں تک لوگوں کا تعاقب کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتارا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قصہ خوانی کے وسیع بازار میں کشتوں کے پشتے لگ گئے اور ہر طرف میدان کارزار کا نقشہ نظر آنے لگا۔ سیکڑوں بے گناہ انسان خاک و خون میں لوٹ رہے تھے، ہر طرف لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے اور خون کی ندیاں رواں تھیں۔ فائرنگ دن 11 بجے شروع ہوئی اور یہ سلسلہ چار گھنٹوں تک یعنی سہ پہر 03 بجے تک جاری رہا۔
فوج تمام شہر پر قابض ہو جانا چاہتی تھی لیکن تین بجے تک وہ بہ مشکل تمام "چوک یادگار” کے پاس پہنچی اور ٹاؤن ہال پر قبضہ جما لیا۔ شہر میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا لیکن دوسرے ہی روز ڈپٹی کمشنر کو اطلاعات آنے لگیں کہ قبائل پر اس واقعہ کا شدید ردعمل ہوا ہے اور وہ غم و غصہ سے بے قابو ہو کر پشاور پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان اطلاعات نے حکام کو بدحواس کر دیا اور انہوں نے تیسرے دن شہر سے فوج ہٹا لینے کا فیصلہ کیا۔ فوج ہٹانے سے شہر کی مسموم فضاء پر نہایت خوش گوار اثر پڑا۔ حالات معمول پر آنے لگے اور کاروبار چلنے لگا۔ یہ تین دن عجیب طرح گزرے۔ شہر سے فوج ہٹانے کے بعد پولیس نے انتظام سنبھالنے سے معذوری ظاہر کی۔ اب شہر کا انتظام کانگریس کے رضا کاروں کے ہاتھ میں تھا۔ وہ ٹریفک کنٹرول کر رہے تھے اور دوسرا تمام کام بھی انہوں نے ہی سنبھال رکھا تھا۔ یہ دن اس خوش اسلوبی سے گزرے کہ کیا محال جو ذرا بھی گڑبڑ پیدا ہوئی ہو۔ روز بہ روز حالات معمول پر آرہے تھے لیکن شہر کی فضاء بدستور سوگوار تھی، لوگوں کے دل غم و رنج سے بھرے ہوئے تھے اور ہر طرف ایک اداسی برس رہی تھی۔
قارئین، یہاں گھڑ والی فوج کا ذکر ضروری ہے جسے دوسرے دن گورا فوج چارج دینے لگی، تو اس نے چارج لینے سے انکار کر دیا اور صاف کہ دیا کہ نہتے شہریوں سے مقابلہ کرنے کو ہم ہر گز تیار نہیں۔ چناں چہ ان سے ہتھیار رکھوا لیے گئے اور بمبئی پہنچا کر فوجی عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا گیا اور انہیں 10 سے 20 برس تک سنگین سزائیں دی گئی۔ اس انسایت سوز واقعے نے بیرونی دنیا میں حکومت برطانیہ کو بہت بدنام کیا اور اس کا وقار خاک میں مل گیا۔ اس حادثے میں شہید ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں تک پہنچتی ہے جن کی لاشیں کچھ تو جلا دی گئیں اور کچھ نہایت پراسرار طریقے سے حکومت نے لاریوں میں بھر کر دریا برد کر دیں۔ حقیقت میں یہ انہیں شہداء کے مقدس خون کا اثر تھا جس نے انگریز سامراج کے قدم اکھیڑ دیے اور وہ اس ملک کو آزادی دینے پر مجبور ہوئے۔
اس خونی واقعے میں دیگر لاشوں کے علاوہ 38 لاشیں ہسپتال والوں نے ہسپتال ہی میں دفنا دی اور 24 شہیدوں کی لاشیں جن میں ایک عورت بھی تھی، مختلف دیہات کے لوگ اٹھا کر لے گئے اور ساڑھے پانچ سو کے قریب زخمی صوبے کے مختلف ہسپتالوں میں داخل کیے گئے۔ کانگریس کے رضا کار جو لاشیں اٹھا کر لے گئے وہ کانگریس کے دفتر واقع محلہ خدا داد، منڈی بیری، موچی پورہ میں پڑی تھیں جو انہی مقامات پر مسجدوں اور خانقاہوں وغیرہ میں دفنا دی گئیں اور کچھ شہر سے باہر قبرستانوں میں دفنا دی گئی۔ بعض غیر مسلموں کی لاشیں جلا دی گئیں۔
30 اپریل کے حادثے کی خبر جب باچا خان کے کانوں تک پہنچی، تو وہ اپنے چار ساتھیوں عبدالاکبر خان خادم، سرفراز خان، میاں احمد شاہ اور شاہ نواز خان کے ہم راہ حالات معلوم کرنے کی غرض سے پشاور روانہ ہوئے لیکن تھانہ نالنکی میں ہی انہیں گرفتار کر کے رسال پور لے جایا گیا "جہاں خان بہادر قلی خان” (اسسٹنٹ کمشنر چارسدہ) نے باچا خان کو فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (FCR) کے تحت تین سال قید کی سزا سناتے ہوئے انہیں گجرات جیل بھیج دیا گیا۔
لہٰذا اج کا دن ہم سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ ہم اپنے ان شہداء کے ارمانوں کو پورا کرنے کے لیے اپنے صوبے کی اس جماعت کا ساتھ دے جو خدائی خدمت گار تحریک اور کانگرس کا تسلسل کہلاتا ہے اور اپنے صوبے کے حقوق کی اصل ترجمان اور ضامن ہے۔ یہ جماعت آج کل عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے نام اور شکل میں اب بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف سینہ تان کر کھڑی ہے۔
________________________

ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

شیئرکریں: