فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کی 35 ویں اور رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان کی21 ویں برسی کے موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد میں “باچا خان، ولی خان اور 21 ویں صدی” کے عنوان سے دو روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کرتے ہوئے دونوں شخصیات کو خراجِ عقیدت پیش کی۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر راہ نما اور سابق وفاقی وزیر غلام احمد بلور نے کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ باچا خان بابا بر صغیر کی تاریخ میں اصول پرستی کے ایک عملی تصویر تھے۔ کیوں کہ وہ پختونوں کے نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیڈر تھے۔ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں اور اپنا سب کچھ لٹا دیا، مگر کبھی اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹے۔ باچا خان نے خدائی خدمت گار کے نام سے ایک ٹیم بنائی، جس نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی اور ان کو اس دھرتی سے بے دخل کرنے پر مجبور کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک باچا خان کے افکار کو نصاب میں بچوں کو پڑھا رہے ہیں، لیکن بد قسمتی سے ہم نے ان کو ایک لیڈر کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔
اسی طرح ہم اگر رہبرِ تحریک (ولی خان) کی بات کریں، تو ان میں بھی باچا خان کی تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل ہمارے سیاسی اور نظریاتی مخالفین ولی خان کو پاکستانی سیاست میں ایک اصول پرست سیاست دان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
کانفرنس سے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ باچا خان کی زندگی سادگی کا بہترین نمونہ تھا۔ 1982ء میں جب میرے والدِ محترم مولانا مفتی محمود وفات پاگئے، تو اس وقت مَیں جیل میں تھا۔ باچا خان ہمیں کوئی خبر دیے بغیر ہمارے گھر بغیر کسی پروٹوکول کے تشریف لے گئے۔ گھر پر سوائے میرے چھوٹے بھائی، جس کی عمر اُس وقت تقریباً ڈھائی سال تھی، موجودتھا۔ باچا خان نے انہی سے تعزیت کی اور پھر مجھے ملنے جیل چلے آئے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار جب ڈائس پر آئے، تو کہا کہ باچا خان ایک نظریاتی جد و جہد کا نام ہیں۔ ان کا فلسفۂ عدمِ تشدد لائقِ تحسین اور قابلِ ستایش ہے۔ مَیں پوری قوم کی طرف سے باچا خان کی خدمات کو سلام پیش کرتا ہوں۔
سینئر صحافی سلیم صافی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ باچا خان سیاسی لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مذہبی لیڈر بھی تھے۔ انہوں نے آزاد مدرسوں کے نام سے جو سلسلہ شروع کیا تھا، آج تک مملکتِ خداداد میں اس نوعیت کا کوئی ادارہ موجود نہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر راہ نما اور سابق وزیرِ اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی صاحب نے جب مائیک سنبھالا، تو کہا کہ اگر آج بھی ہم باچا خان کے افکار سے استفادہ کرکے اسے بروئے کار لائیں، تو بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ولی خان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج اگر پاکستان ایک دستور (آئین) کی وجہ سے قائم ہے، تو اس میں رہبرِ تحریک، خان عبدالولی خان کا بھر پور کردار ہے۔ کیوں کہ انہوں نے ہی اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو کی مدد کی اور پاکستان کو ایک متفقہ آئین دیا۔
ان کے بعد حامد میر نے باچا خان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ آج میں دو غداروں یعنی باچا خان اور ولی خان کے ہم نواؤں میں شامل ہوں۔ کیوں کہ ان غداروں کی وجہ سے ملک کا ایک انچ علاقہ علاحدہ نہ ہوا۔ جب کہ محبِ وطن لوگوں نے آدھے سے زیادہ پاکستان (بنگال) گنوا دیا۔ اس کے علاوہ مجھے اس بات پر بھی خوشی ہو رہی ہے کہ باچا خان اور ولی خان کے پیروکاروں کا تعلق قلم اور کتاب سے ہے، کلاشن کوف سے نہیں۔
انوسٹی گیٹیو جرنلسٹ اعزاز سید نے کہا کہ مجھے پڑھایا گیا تھا کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح ایک بڑے لیڈر تھے، لیکن جب مَیں نے مطالعہ کیا اور سچی تاریخ پڑھی، تو پتا چلا کہ باچا خان قائدِ اعظم سے بھی بڑے لیڈر تھے۔
معروف خاتون تجزیہ نگار عاصمہ شیرازی نے کہا کہ باچا خان غدار نہیں بلکہ باغی تھے۔ باغی اور غدار میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ کیوں کہ غدار اپنے ملک، قوم، آئین اور اپنے افکار و نظریات کا غدار ہوتا ہے۔ جب کہ باغی اُس ہر سوچ، فکر، پیغام اور نظام سے بغاوت کرتا ہے، جو انسانیت اور جمہوریت کے منافی ہو۔ لہٰذا ان کو غداری کے القابات دینے والوں کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ باچا خان غدار نہیں بلکہ آمریت اور تشدد پر اُبھارنے والے نظریات کے باغی تھے۔
دوسری بات، ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ باچا خان کافر تھے۔ مَیں دعوے سے کَہ سکتی ہوں کہ باچا خان جیسے پکے مسلمان، اسلام پسند اور محبِ رسولؐ کبھی دیکھا ہی نہیں۔ کیوں کہ باچا خان نے فلسفۂ عدمِ تشدد رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے سیکھی تھی۔ انھوں نے کبھی ریاستِ مدینہ کا نعرہ نہیں لگایا، بلکہ عمل کرکے دکھایا۔
پختون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور احمد پشتین نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ باچا خان نے عدمِ تشدد کی پالیسی کو اپناتے ہوئے انگریز طرزِ معاشرت کی روک تھام کی کوشش کی اور اپنی قوم کی قومی فکر کو یکجا کرنے میں مصروفِ عمل رہے۔ وہ پختون قوم کو تقسیم سے بچاتے ہوئے “ایک پختون” کا مقدمہ پیش کرتے رہے۔ باچا خان کو اُس وقت کے ظلم، پختونوں کی مجموعی حالتِ زندگی، ان کی بے شعوری، جہالت اور غیر سیاسی ہونے جیسے محرکات نے اس راہِ عمل پر مجبور کیا تھا کہ اب یہاں ان عوامل کی موجودگی میں عدمِ تشدد کے سوا اور کوئی راہِ عمل مفید نہیں۔ انہوں نے پختونوں کو عملاً سیاست، روزگار، ہنر، تجارت، معیشت اور زراعت کی راہ دکھانے کی کوشش کی، تاکہ پختون کی اندرونی اور بیرونی مشکلات کی اصلاح ہوسکے۔ یہی درحقیقت وہ قومی فکر تھی جو باچا خان کے سینے میں موجزن تھی۔
اسی تسلسل میں ہم اگر ولی خان کی بات کریں، تو وہ بھی اپنے والدِ بزرگوار کی راہ پر گام زن تھے۔ کیوں کہ جب افغانستان سے لوگ ہجرت کرکے یہاں آئے، تو ریاستی پروپیگنڈے کے تحت لوگ انہیں مختلف ناموں سے پکارتے تھے، لیکن ولی خان وہ واحد شخصیت تھے، جنھوں نے اس کے خلاف آواز اُٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ بھی تمھارا اپنا وطن ہے۔ کیوں کہ آپ کسی دیارِ غیر میں نہیں، بلکہ اپنے بھائیوں کے گھر آچکے ہیں۔
قارئین، اس بات سے چنداں انکار نہیں کیا جاسکتا کہ باچا خان اور ولی خان پاکستانی تاریخ کی عظیم شخصیات میں سے تھے، لیکن بد قسمتی سے ریاست نے اپنے مفادات کی خاطر ان کو طرح طرح کی اذیتیں دے کر ان کے دامن کو داغ دار کرنے کی بھر پور کوشش کی، لیکن کچھ حاصل نہ کر سکے۔ اجمل خٹک بابا کے اس شعر پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا کہ:
نن ٹول خلک د ھغہ محبوبہ سندری وائی
خٹک چی بہ لہ زان سرہ جڑلہ کلہ کلہ
__________________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 03 جنوری 2023ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔
شیئرکریں: