باہمی انحصار، عدمِ اعتماد اور متضاد مفادات کا ایک غیر مستحکم امتزاج کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات شروع ہی سے ایک پیچیدہ کہانی رہی ہے۔ اگست 2021ء میں طالبان کی دوبارہ اقتدار میں واپسی نے اس کہانی کو ایک نیا موڑ ديا جس سے دیرینہ تنازعات کے حل کے لیے نئے چیلنجز اور مواقع پیدا ہوئے۔
آج بھی دونوں ممالک ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ سفارت کاری کے امکانات اس بات پر منحصر ہیں کہ دونوں فریق بدلی ہوئی حقیقت کو تسلیم کریں۔ طالبان برابری کی شرط پر مذاکرات کے لیے آمادہ ہیں جب کہ پاکستان کو خطے میں اپنے کم ہوتے اثر و رسوخ کو قبول کرنا ہوگا۔
قارئین، طالبان کی موجودہ پوزیشن ان کے ماضی سے ایک واضح انحراف ہے۔ 1990ء کی دہائی یا 2001ء  کے بعد کی شورش کے دور میں جب پاکستان کا اس گروہ پر گہرا اثر تھا، حالات مختلف تھے۔ آج طالبان ایک عملی طور پر خود مختار ریاست کے طور پر افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں۔ وہ اب پاکستان سے سیاسی یا مادی حمایت کے محتاج نہیں۔ انہوں نے اپنے اتحادوں کو متنوع بنایا ہے۔ چین، روس اور حتیٰ کہ امریکہ جیسے عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ بہ راہِ راست رابطے قائم کیے ہیں۔ اس تبدیلی نے پاکستان کے اثر کو کم زور کیا ہے۔ ایک ایسی حقیقت جو اسلام آباد کے لیے ناگزیر ہو چکی ہے اگر وہ اپنے مغربی ہمسایے کے ساتھ تعمیری تعلقات چاہتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان ایک سنگین چیلنج سے دوچار ہے اور وہ ہے تحریک طالبان پاکستان یعنی (ٹی ٹی پی) سے بڑھتی دہشت گردی۔ ڈیورنڈ لائن کے پار غیر محفوظ سرحدیں ٹی ٹی پی کے لیے پناہ گاہیں فراہم کر رہی ہیں۔ 2021ء میں طالبان کی فتح کے بعد سے ٹی ٹی پی نے دوبارہ سر اُٹھایا ہے اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے سیکڑوں جانیں لی ہے۔ کابل اس کی حمایت سے انکار کرتے ہوئے اسے پاکستان کا "اندرونی مسئلہ” قرار دیتا ہے اور یہ ایک تلخ ستم ظریفی ہے۔ پاکستان نے ماضی میں اسی طرح کی پالیسیوں کے ذریعے بعض افغان عسکریت پسندوں کی مدد کی تھی اور اب وہی حکمتِ عملی اس کے اپنے استحکام کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔
عالمی طاقتوں نے بھی پاکستان کو پسِ پشت ڈال کر طالبان سے بہ راہِ راست رابطوں کو ترجیح دی ہے۔ چین اپنی "بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو” (Belt and Road Initiative) کے تحت روس اور وسطی ایشیا میں اثر و رسوخ کے لیے جب کہ امریکہ دہشت گردی کے انسداد کے لیے کابل کے ساتھ معاملات طے کر رہی ہے۔ پاکستان کے مبینہ "دوہرے کھیل” طالبان کی حمایت اور ٹی ٹی پی سے جنگ نے اس کی ثالثی کی ساکھ کو دھچکا لگایا ہے۔ نتیجتاً طالبان کو اب پاکستان کی درمیانی حیثیت کی ضرورت نہیں۔
قارئین، ان تناؤ کے باوجود دونوں فریقوں کے پاس بات چیت کے لیے مضبوط وجوہات موجود ہیں۔ طالبان کے لیے سرحدی تجارت، افغان مہاجرین کا مستقبل اور پاکستان کے ذریعے سمندر تک رسائی اہم ہیں۔ افغانستان کی خشکی سے گھری معیشت کراچی کی بندرگاہ پر انحصار کرتی ہے اور سرحد کی بندش اسے شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ مہاجرین کا معاملہ بھی کم اہم نہیں۔ پاکستان میں 15 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں جن میں غیر دستاویزی افراد کی تعداد بھی خاصی ہے۔ 2023ء اور 2024ء میں اچانک بے دخلی نے تعلقات کو مزید کشیدہ کیا۔ کیوں کہ طالبان نے اسے "غیر انسانی” عمل قرار دیا۔
اسی طرح پاکستان کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ٹی ٹی پی ہے۔ 2024ء میں اس گروہ کے حملوں میں 700 سے زائد افراد جانوں سے گئے اور افغان سرزمین سے یہ کارروائیاں اب بھی جاری ہے۔ چاہے طالبان کی خاموش منظوری ہو یا نہ ہو، پاکستان اس خطرے کو اکیلے ختم نہیں کر سکتا اسے طالبان کے تعاون کی ضرورت ہے۔
قارئین، یہ مشترکہ چیلنجز (Collective Challenges)  افغانستان کے لیے معاشی استحکام اور پاکستان کے لیے سکیورٹی مذاکرات کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ طالبان کی برابری کی خواہش ان کی خودمختاری کی عکاسی کرتی ہے اور وہ اب پاکستان کے تابع ہونے کا تاثر نہیں دینا چاہتے۔ لیکن دہائیوں کا عدمِ اعتماد (No Confidence) ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
اس بات سے بھی چنداں انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ٹی ٹی پی پاکستان ہی کی اسٹریٹجک غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ ماضی میں اسلام آباد نے بھارت کے مقابلے اور کابل میں اثر و رسوخ کے لیے عسکریت پسند گروہوں کی حمایت کی۔ طالبان کی فتح کو ابتدا میں اس پالیسی کی کام یابی سمجھا گیا، لیکن ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف ہو گئی، وہی سرحدی پناہ گاہیں استعمال کرتے ہوئے جو کبھی "نیٹو” (NATO) کے خلاف استعمال ہوتی تھیں۔
قارئین، محتاط اندازے کے مطابق ٹی ٹی پی کے پاس اب بھی 9,000 سے 11,000 جنگجو ہیں۔ طالبان کا ٹی ٹی پی پر کریک ڈاؤن سے انکار خواہ نظریاتی ہم آہنگی ہو یا محدود صلاحیت، تناؤ کو بڑھا رہا ہے۔ پاکستان کے 2022ء اور 2024ء کے فضائی حملوں نے تنازع کو مزید گھمبیر کیا ہے۔
قارئین، مہاجرین کا بحران ایک عملی حل پیش کر سکتا ہے۔ 2023ء سے پاکستان کی بے دخلی مہم، جس نے 500,000 سے زائد افغانوں کو واپس بھیجا، ایک انسانی اور سفارتی غلطی ثابت ہوئی۔ طالبان اسے دشمنی سمجھتے ہیں۔ بہ تدریج اور رضاکارانہ واپسی کا منصوبہ، معاشی مراعات جیسے ٹرانزٹ تجارت یا سرحدی بازاروں کے قیام کے ساتھ، خیر سگالی پیدا کر سکتا ہے اور مذاکرات کے دروازے کھول سکتا ہے۔
قارئین، تنازعات کے حل کے لیے دونوں فریقوں کو لچک اور عملیت پسندی دکھانی ہوگی۔ پاکستان مشترکہ سکیورٹی میکنزم تجویز کر سکتا ہے تاکہ انٹیلی جنس شیئرنگ (Intelligence sharing) اور سرحدی گشت کے ذریعے ٹی ٹی پی کو نشانہ بنایا جا سکے۔ بدلے میں طالبان سے واضح عہد لیا جائے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ اسی طرح معاشی مذاکرات اس کے متوازی چل سکتے ہیں، جو تجارت اور مہاجرین کے مسائل حل کریں۔
طالبان کو بھی سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کو الگ تھلگ کرنا ان کے مفاد میں نہیں۔ پاکستانی بندرگاہوں تک رسائی ان کی معیشت کے لیے کلیدی ہے اور سکیورٹی تعاون ان کی عالمی ساکھ بہتر بنا سکتا ہے۔
چین "سی پیک” (CPEC) اور افغان معدنیات کے مفادات کے ساتھ استحکام کے لیے ثالثی کردار ادا کر سکتا ہے۔ جب کہ اقوامِ متحدہ (United Nations) مہاجرین کے مذاکرات میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایک دو طرفہ سربراہی اجلاس، جو تجارت اور مہاجرین پر مرکوز ہو، سیکیورٹی بحث کے لیے بنیاد رکھ سکتا ہے۔
قارئین، پاک افغان تعلقات ایک دوراہے پر ہیں۔ طالبان کے عروج نے طاقت کا توازن بدل دیا ہے۔ بغیر تعاون کے سرحد تنازعات کا مرکز رہے گی۔ پاکستان دہشت گردی سے متاثر جب کہ افغانستان تنہائی کا شکار ہوگا لیکن مشترکہ چیلنجز تعاون کا موقع دیتے ہیں۔ اگر دونوں فریق نئے نقطۂ نظر کو قبول کریں۔ اگر پاکستان ایک پارٹنر اور طالبان ایک ہمسائے کے طور پر ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں، تو 2025ء دوستی کا نقطۂ آغاز بن سکتا ہے۔ کیوں کہ ترقی کےلیے امن و استحکام ہی واحد راستہ ہے۔
____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

شیئرکریں: