یکم مئی 1886ء کو شکاگو میں مزدوروں نے ہڑتال کیا۔ پولیس کے ساتھ جھڑپ کے دوران میں ایک شخص جاں گنوا بیٹھا۔ 04 مئی کو مزدوروں کے احتجاج میں ایک بم دھماکہ ہوا جس میں آٹھ پولیس اہل کار جاں سے گئے۔
1889ء میں 20 ممالک کی سوشلسٹ، مزدور جماعتوں اور ٹریڈ یونینز کے نمایندوں کے اجلاس میں یکم مئی کو ان واقعات کی یاد میں “یومِ مزدور” کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جب کہ امریکا اور یورپ کے کئی ممالک میں یہ دن ستمبر کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔
قارئین، راقم کی کمیونسٹ نظریات کے حامی ایک قابل محترم بزرگ سے اس موضوع پر بات ہوئی کہ آخر دیر پائیں جیسے علاقے میں “اشتراکیت” یعنی (Communism) کے خیالات کہاں سے آئے، تو موصوف نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرے والد صاحب 70 کی دہائی میں حیدر آباد کے ایک سیمنٹ فیکٹری میں ملازم تھے۔ ایک مزدور یونین کے سرگرم کارکن تھے۔ میں چوں کہ ان کے ساتھ تھا اور پڑھتا بھی تھا اس لیے وہاں سے میں اشتراکیت کی طرف سوچنے لگا کہ یہ نظام کتنا بہتر ہے…؟
60 کی دہائی میں پاکستان میں مختلف صنعتیں بحال تھیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ ساتھ پبلک سیکٹر میں بھی “پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن” کے ماتحت صنعتی یونٹ سرگرم تھے جو بعد EPIDC ویسٹ پاکستان انڈسٹریل ڈیولوپمنٹ کارپوریشن بنا۔ ان صنعتوں میں سیمنٹ کی صنعت بھی شامل تھی۔ حیدرآباد (سندھ) میں نیوزی لینڈ کی تعاون سے “زیل پاک” نامی سیمنٹ کی ایک فیکٹری تھی۔ جس کا افتتاح صدر ایوب خان نے کیا تھا۔ 70 کی دہائی میں اس سیمنٹ فیکٹری کی پیداوار 3300 ٹن یومیہ تھی۔ جس کی وجہ سے یہ اُس وقت پاکستان کی سب سے بڑی سیمنٹ فیکٹری تھی۔ اس فیکٹری میں مزدور یونین فعال تھی اور باقاعدہ اس کا الیکشن بھی ہوتا تھا۔
یونین اجتماعی بارگینگ کے ساتھ فیکٹری کی پیداواری صلاحیت کو یقینی بناتا تھا۔ کیوں کہ ہر سال تین ماہ کا بونس مزدور کو لازمی ملتا تھا۔ جب کہ اچھی پیداوار پر چار ماہ کا بونس دیا جاتا تھا۔ اس فیکٹری میں ایک ہزار مزدور تھے۔ ستر کی دہائی میں مزدور کو 500 روپے سے لے کر 1000 روپے بآسانی ماہانہ معاوضہ مل جاتا تھا۔ مزدور کو فیکٹری یونی فارم مہیا کرتی تھی۔ باہر سے آنے والی مزدور کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی دی جاتی تھی۔ مزدور کے لیے رہایش، تعلیم اور صحت کے معیاری سہولیات دستیاب تھیں۔ تفریح اور کھیل کود کا اہتمام بھی ہوتا تھا۔ مذہبی تہواروں اور قومی تعطیلات پر خصوصی تقاریب کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اچھی کارکردگی پر مزدوروں کے بچوں کی تعلیم کےلیے وظیفہ (Scholarship) دیا جاتا تھا۔ مزدور کے بچوں کو 150 روپے کا ماہانہ وظیفہ دیا جاتا تھا۔ اس فیکٹری کا اپنا ٹرانسپورٹ، سکول، مسجد، سپورٹس کلب، بجلی پیدا کرنے کا ٹربائن، اور واٹر پلانٹ تھے۔
قارئین، میں اس کہانی کو جب سن رہا تھا، تو میں بھی اشتراکیت کی سوچ میں ڈوب رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کاش اس چھوٹی سی ریاست میں جو اشتراکیت تھا، ایسا اگر اس ملک میں بھی ہوتا، تو فیکٹری مزدوروں کے ذریعے پیسا کما رہی ہوتی تھی۔ لیکن مزدوروں کو بھی ڈھیر سارے سہولیات حاصل تھیں۔ کیوں فیکٹری سارا منافع اپنے پاس نہیں رکھتی تھی بلکہ ایک حصہ مزدوروں میں بھی بانٹتی تھی۔
________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: