برِصغیر پر تقریباً 1300 سال باہر سے آئے ہوئے لوگوں نے حکومت کی، جس سے ایک مزاحمت کا کلچر فروغ پایا۔ کہیں یہ مزاحمت فطری تھی، تو کہیں نظریۂ ضرورت کے تحت تھی۔ بہار اور جھار کھنڈ میں قریشی سلطانہ ڈاکو، انڈین ریلوے کمپنی کو لوٹتا رہا اور لوہا مارکیٹ میں لوہا بیچتا رہا۔
مقامی سیاست میں پٹھان اور قریشی سیاست کو دوام دیتے رہے۔ ساتھ ہی انگریزوں کو نقصان دینے پر عوام میں پذیرائی پاتے رہے۔ ڈاکو محمد خان لوٹ مار کرتے کرتے ہیرو بنے۔ اسی طرح برصغیر کے ہر صنعتی، معدنیاتی اور کاروباری شہر میں اپنے وقت کے ڈاکو راج کرتے رہے اور مزاحمت کی علامت بنتے گئے۔
جو بفر زون انگریزوں نے باقی ہمسایہ ممالک کے ساتھ رکھے تھے، یا نوابی ریاستیں تھیں، وہ جگہیں مفروروں کی جنت تھی، جہاں وہ مزے سے رہتے۔ سابقہ ایجنسی ملاکنڈ کی زیریں تحصیل کو بھی یہ خصوصیت حاصل رہی کہ وہ مال دار ہشت نگر اور مردان کے مال کا حساب کتاب کرتے رہے۔ لوٹ کے مال میں دل کھول کر اللہ کے نام پر خرچ کرتے۔ نسلی گروہ، مظالم کا مقابلہ، غریبوں کا مسیحا کے نام کا بیج لگا کر یہ علاقہ ہمیشہ خوانین اور بیوروکریسی کے آشیرباد سے بد معاشوں کی آماج گاہ رہا۔ خوب صورت بات یہ ہے کہ شاید ہی کوئی مقامی بدمعاش سخاکوٹ یا نواح میں پیدا ہوا ہو، تقریباً سب کے سب “امپورٹڈ” ہی رہے اور “کسان تحریک” اور “غریب خیل تحریک” کے خلاف خوانین اور بیورو کریسی کے آلہ کار رہے۔ اس کے بدلے میں قانون ان کے سامنے سرنگوں رہا۔
سید نواب مرحوم کا اصلی وطن مٹہ سوات بتایا جاتا ہے، مگر ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ سمہ گیا اور وہاں دشمنی کا بدلہ لیتے لیتے جان دے دی۔
گجر قوم سے تعلق رکھنے والا سید نواب اپنے انتقال کے بعد لوک گیتوں میں “مسیحا” اور “نجات دہندہ” کے طور پر لمبے عرصے تک یاد کیا جاتا رہا۔ اس کی تصاویر جی ٹی روڈ کے ٹرک ہوٹلوں پر اس کی شجاعت کے یادگار کے طور پر لگی رہیں۔
2009ء میں جب سوات میں آپریشن شروع ہوا، تو اس طرح کے بدمعاش یا دیگر لوگ اپنے “سٹیک” کی بات کرنے لگے اور “سٹیک” دینے والوں نے وہ باب بند کر دیا۔ نتیجتاً اب اس دھرتی نے ایسے “سپوت” پیدا کرنے یا تیار کرنے بند کر دیے ہیں، کیوں کہ “مقتدر حلقوں” کو اَب ان کی ضرورت جو نہیں رہی۔
___________________________
قارئین، یہ تحریر دراصل ساجد امان کی تحریر ہے، جسے 17 نومبر 2024ء کو لفظونہ ڈاٹ کام نے پہلی بار شرف قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔