راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 16 نومبر 2024ء بہ روزِ ہفتہ کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرف قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
سراج بابو صاحب کی یاد میں
کچھ زخموں کے نشاں نہیں ہوتے
کچھ درد بڑے خاموش ہوتے ہیں
گول مٹول چہرہ، میانہ قد، متناسب جسم، سانولی رنگت، داڑھی چٹ، سر کے بال نہ زیادہ اور نہ کم، مسکراتے لب، خوب صورت آنکھیں، دیدہ زیب کان، آواز میں دھیما پن اور مٹھاس، خوبیوں کے یہ پیکر اہلِ برہ درش خیلہ کے پیارے سراج محمد المعروف لالا جی اور بابو صاحب (مرحوم) تھے۔ موصوف یکم جون 1964ء کوضلع سوات کے مشہور گاؤں برہ درش خیلہ میں تاج محمد استاد صاحب کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے ساتھ میٹرک کا امتحان بھی گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول برہ درش خیلہ سے پاس کیا۔ انٹر کا امتحان گورنمنٹ ڈگری کالج مٹہ (اب افضل خان لالا پوسٹ گریجویٹ کالج) سے پاس کرنے کے بعد “سیدو میڈیکل انسٹی ٹیوٹ” سے ڈسپنسری کی سند حاصل کی۔ 16 اکتوبر 1984ء کو محکمۂ صحت میں ڈسپنسر اور کلینکل ٹیکنیشن فارمیسی کے طور پر ملازمت سے وابستہ ہوئے۔
موصوف وادیِ تیرات، درش خیلہ، سیدو شریف، مٹہ اور سخرہ میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ غیر معمولی قابلیت، اپنے پیشے سے دلی لگاو، خلوص اور ہم دردی نے ان کو ہر دل عزیز شخصیت بنادیا۔
معروف کالم نگار اور محقق ساجد علی خان ابو تلتاند کے مطابق بابو صاحب نہایت رازدار، دیانت دار اور پُرخلوص شخصیت کے مالک تھے۔
اس طرح آفتاب خان شہباز بھی لالاجی کی نابغہ شخصیت کے معترف ہیں۔ ان کے مطابق موصوف نے اپنی پوری زندگی اپنے لوگوں کی بے لوث خدمت کرتے گزاری۔
قارئین، خدمتِ خلق کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ “کورونا وائرس” نے پوری دنیاکے ساتھ وطنِ عزیز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کورونا وائرس نے دہشت گردی شروع کی۔ اس موقع پر معروف شاعر پروفیسر ڈاکٹر اسحاق وردک صاحب کا شعر یاد آیا کہ؛
ایسی ترقی پر رونا بنتا ہے
جس میں دہشت گرد کورونا بنتا ہے
وبا کا یہ دورتمام انسانوں کے لیے بالعوم اور محکمۂ صحت سے تعلق رکھنے والوں کے لیے بالخصوص امتحان کی گھڑی تھا۔ یہاں سراج صاحب ثابت قدم اور ہر محاذ پر ڈٹے رہے اور کمال بہادری سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ دوسروں کا مسیحا بنتے بنتے آپ خود اس وائرس کا شکار ہوگئے۔ خاندان والوں نے علاج اور تیمارداری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، لیکن بیماری جان لیوا ثابت ہوگئی اور 20 اپریل 2021ء کو وہ ہمیں داغِ مفارقت دے گئے اورشہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوگئے ۔
تم پھر نہ آسکوگے بتانا تو تھا مجھے
تم دور جاکے بس گئے، مَیں ڈھونتا پھروں
اور یوں عوام ایک ایسی شخصیت سے محروم ہوگئے، جن میں انسانیت، محبت، خلوص اور ہم دردی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔
لالا جی کی بیماری کے دنوں میں گاؤں کے ہر گھر اور مسجد میں اُن کی صحت کے لیے دعائیں ہوتیں اور جب انتقال ہوا، تو ہر آنکھ اشک بار تھی۔ آپ کے انتقال کے چند دن بعد ایک اور مسیحا ڈاکٹر علی اکبر کی صورت میں سب کو داغِ مفارقت دے گیا۔ یہ بھی کورونا کا کارنامہ تھا۔
پیارے ساتھیو، سراج محمد صاحب کی بے لوث خدمات کے صلے میں امسال حکومتِ پاکستان نے 23 مارچ کو انھیں “تمغائے امتیاز” سے نوازا۔
تمغائے امتیاز پاکستان میں سول اور عسکری شخصیات کو عطا کیا جانے والا چوتھا بڑا اعزاز ہے۔ اس کو “تمغائے فضیلت” بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے، جو حکومتِ پاکستان عسکری اور سول شخصیات کو عطا کرتی ہے۔ سول شخصیات کو یہ اعزاز اُن کی ادب، فنونِ لطیفہ، کھیل، طب یا سائنس کے میدان میں نمایاں خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔
“تمغائے امتیاز” نہ صرف سراج صاحب کے خاندان، گاؤں اور علاقے کے لیے، بل کہ ضلع بھر کے لیے ایک بڑے اعزاز اور فخر کی بات ہے۔
آخرمیں رب ذوالجلال سے دعاگو ہوں کہ سراج بابو صاحب کو جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا کرے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین!
ایک ایک کرکے ستاروں کی طرح ڈوب گئے
ہائے کیا لوگ میرے حلقۂ احباب میں تھے
__________________________