دنیائے جہاں میں کامیابی ہی وہ واحد شے ہے جو کسی کو میراث میں نہیں بلکہ بھر پور محنت کی بنا پر ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کامیاب آدمی کے پیچھے ایک دردناک کہانی ہوتی ہے جس کا اختتام کامیابی ہوتا ہے۔ آج اگر ہم بڑے بڑے کامیاب لوگوں کو دیکھتے ہیں، تو وہ دکھوں، مصیبتوں اور مسائل کا سمندر عبور کرکے منزل مقصود تک پہنچے ہیں، اور جو لوگ دل برداشتہ ہو کر اپنی جد و جہد ترک کرکے اپنے آپ کو حالات پر چھوڑ دیتے ہیں، پھر وہ ساری عمر قسمت ہی کو کوستے رہتے ہیں۔ اسی طرح پشتو فلم انڈسٹری کے وہ کامیاب ہیرو جنہیں سٹوڈیو کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، مگر اپنی لگن اور محنت کی وجہ سے جب وہ کامیاب ہوئے، تو بدر منیر کہلائے۔
بدر منیر 1945ء کو وادئ سوات کے سیاحتی مقام مدین کے نواحی گاؤں شاگرام کے ایک مذہبی گھرانے میں مولوی یاقوت خان کے گھر میں پیدا ہوئے۔ محنت مزدوری کی غرض سے کراچی چلے گئے، جہاں پر فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے۔ 1970ء کو پشتو زبان کی پہلی فلم یوسف خان شیر بانو میں بطورِ ہیرو جلوہ گر ہوئے اور پہلی ہی فلم میں اپنے فن کا لوہا منوا کر پشتو فلم انڈسٹری کے وہ صدا بہار ہیرو بنے، جنہوں نے اپنی فنی زندگی کے دوران میں 750 سے زائد پشتو، اُردو اور پنجابی فلموں سمیت ایک انگریزی فلم میں بھی کام کیا ہے۔
خیبر پختون خوا کے سنگلاخ پہاڑوں کی وادی سوات کے پتھریلے علاقے شاگرام مدین کے پیش امام یاقوت میاں کے گھر میں پیدا ہونے والا بدرے دنیا میں بین الاقوامی شہرت یافتہ اور پشتو فلم انڈسٹری میں ایک ایسا نام بن کر سامنے آیا جو تعلیم حاصل کیے بغیر پاکستان فلم انڈسٹری پر 41 سال سے راج کرتا چلا آرہا ہے۔ بدر نے ایسی محنت، لگن اور جذبہ سے کام کیا کہ وہ بدرے، جس نے اپنے شوق کی تکمیل کےلیے کراچی کی سڑکوں پر پتھر کوٹے، بیرہ گیری کی اور کئی مہینوں تک ٹائروں کو پنکچر بھی لگائے، بدر منیر بن گیا۔
بدر منیر نے اپنی ایکٹنگ کا شوق پورا کرنے کےلیے ہمت نہیں ہاری۔ بغیر ٹکٹ ٹرین میں بھی پکڑے گئے۔ فلمی کئیریر کی شروعات میں اس وقت کے ہیروز کے ہاتھوں سازشوں کے شکار بھی ہوئے، لیکن اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور انڈسٹری کا چمکتا ہوا ستارہ بن گئے۔

معروف خاتون اداکارہ آرٹ کونسل پشاور میں لگے بدر منیر کی ایک یادگار تصویر کو دیکھ رہی ہے

قارئین! بدرمنیر کا 41 سالہ فنی کیریئر میں کسی بھی ہیروئن کے ساتھ کوئی بھی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ انہیں پاکستان میں سب سے زیادہ یعنی 750 فلموں میں کام کرنے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ 1966ء سے لے کر 2007ء تک کوئی بھی ایسا سال نہیں گزرا جس میں بدر منیر کی کوئی فلم ریلیز نہ ہوئی ہو۔
آپ تین فلموں کی ہدایت کار، جب کہ 15 فلموں کی پروڈیوسر بھی رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دو فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں۔ علاوہ ازیں آپ نے نمی، مسرت شاہین اور شہناز خان جیسے خوب صورت چہرے پشتو فلم انڈسٹری میں متعارد کروائے۔ بدرمنیر نے ہر قسم کے کردار ادا کیے۔ ان کو پاکستان کے پہلے ایکشن ہیرو کا اعزاز بھی حاصل ہے جب کہ اولین پشتو فلموں میں ہیرو کا اعزاز کا سہرا ان ہی کے سر ہے۔
مرحوم نے اپنی فنی کیرئیر کا آغاز اُردو فلم ’’جہاں برف گرتی ہے‘‘ سے کیا لیکن شہرت اسے ہدایت کار عزیز تبسم کی پہلی پشتو فلم ’’یوسف خان شیر بانو‘‘ سے ملی۔ اداکار نے اپنے کیرئیر میں سات سو کے لگ بھگ اُردو، پنجابی اور پشتو فلموں میں کام کیا۔ ٹوٹل 750 فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں 400 پشتو، 85 اُردو، 31 پنجابی، 11 سندھی اور ایک ہندکو کی فلم شامل ہیں۔ ان فلموں میں 382 رنگین ہیں جب کہ 144بلیک اینڈ وائٹ اور 52 سنیما سکوپ شامل ہیں۔ ان کی آخری ہدایت کار لیاقت علی خان کی پشتو فلم 2007ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
بدر منیر ہی وہ واحد اداکار ہیں، جن کو 53 ہیروئینز کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے جب کہ ولن میں نعمت سرحدی کے ساتھ 314 فلموں میں جلوہ گر ہوئے۔ جو ایک عالمی ریکارڈ ہے جسے کبھی توڑا نہیں جاسکتا۔ اس کے علاوہ آپ نے 1966ء سے 2007ء تک ہر ہدایت کار، فلم ساز، اداکار اور اداکارہ کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز بھی حاصل کرلیا ہے جو کسی اور اداکار کے ساتھ نہیں۔
بدرمنیر نے بطورِ ہیرو 435 فلموں میں کام کیا ہے۔ 67 فلموں میں بطورِ مہمان اداکار کام کیا۔ اس کے علاوہ 160 فلموں میں ٹائٹل کا کردار ادا کیا ہے۔ آپ کی 7 فلموں نے ڈائمنڈ جوبلی، 61 نے پلاٹینیم جوبلی، 18 نے گولڈن جوبلی اور 56 نے سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کیا ہے جو آج تک کسی اور اداکار کےلیے اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ان کی 200 فلموں نے اے کلاس اور101 نے بی کلاس بزنس کیا، جب کہ 140 فلمیں ناکام ثابت ہوئیں۔
قارئین! بدرمنیر فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ چاہے ملک قدرتی آفات کا شکار ہو یا کوئی اور وجہ ہو، وہ خود میدان میں آکر امدادی کاموں کےلیے چندہ مہم چلاتے تھے۔ 90ء کی دہائی میں جب پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور ملک کے موجودہ وزیرِاعظم عمران خان نے کینسر ہسپتال کےلیے صوبہ خیبر پختون خوا میں چندہ مہم چلائی، تو اس وقت بدرمنیر نے ان کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر چندہ دیا۔ اس کے علاوہ اسی دور میں لاہور کے ہول ناک سیلاب سے متاثر ہونے والے لوگوں کی امداد کےلیے بھی پورے صوبے میں چندہ مہم چلائی تھی۔
بدر منیر کو ان کی فلمی زندگی میں بے شمار ایوارڈز سے نوازا گیا۔ 750 فلموں میں کام کرنے کی وجہ سے ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہونا چاہیے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی اعلا کارکردگی پر انہیں صدارتی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا تھا، جو انہیں 23 مارچ 2009ء کو ملنے والا تھا، تاہم وہ صدارتی ایوارڈ لینے سے قبل ہی دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔
41 سالہ فلمی کیرئیر میں بے پناہ شہرت حاصل کی۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا کہ سب سے زیادہ فلمیں انہوں نے یاسمین خان اور مسرت شاہین کے ساتھ بنائیں۔ ولن نعمت سرحدی کے ساتھ ان کی جوڑی مقبول رہی۔
بدر منیر کی اہم فلموں میں ’’یوسف خان شیر بانو‘‘، ’’دیدن‘‘، ’’آدم خان درخانئی‘‘، ’’ناوے د یوے شپے‘‘، ’’شپونکے‘‘ اور ’’ٹوپک زما قانون‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔
41 سال فلم انڈسٹری پر راج کرنے والا فلموں کا لیجنڈ سٹار بدر منیر ہفتے کی صبح 11 اکتوبر 2008ء کو 68 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ پاکستان فلم انڈسٹری پر راج کرنے والے وحید مراد، محمد علی، سدھیر اور سلطان راہی کی طرح بدرمنیر کے مخلص پرستار بھی ہر سال ان کی برسی مناتے ہیں۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا ان کے درجات بلند فرمائے، آمین!
شیئرکریں: