انسانی تاریخ باہمت انسانوں کے کارناموں اور قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ لاتعداد سرفروشوں نے انصاف کے حصول کی خاطر جابر قوتوں سے مظلوم انسانوں کو نجات دلانے اور انہیں انسانیت کا جائز مقام دلانے میں قابلِ فخر کارنامے انجام دیے ہیں۔ اسی لیے انسانیت کے تمام ایسے محسن پوری انسانیت کا مشترکہ ورثہ شمار کیے جاتے ہیں۔ انسانی سماج میں فرد کو فرد اور قوموں کو قوموں کی غلامی سے نکالنے، ان کے سیاہ ماضی، تاب ناک اور روشن مستقبل میں تبدیل کرنے اور بنی نوع انسان کو امن، قومی آزادی اور جمہوریت کے ثمرات سے مستفید کرنے کی جدوجہد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے افراد کا جنم تاریخی ضروریات کے تحت ہی ہوتاہے۔ جب بھی کسی قوم پر برے حالات آتے ہیں اور وہ کسی اور کے زیرِ تسلط آجاتی ہے، تو اس قوم میں چند ایسے افراد پیدا ہوتے ہیں جو آزادی کی راہ میں مادرِ وطن کی خاطر اپنے سروں کا نذرانہ پیش کرکے قوم و ملت کی آزادی کا سبب بنتے ہیں۔ تاریخِ اقوامِ عالم کو اگر پرکھا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ دنیا میں بڑی بڑی باصلاحیت ہستیاں گزری ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کو دوسرے مظلوم طبقوں کی فلاح و بہود کےلیے وقف کر دی۔ ایسا ہی ایک روشن ستارہ جو برِصغیر پاک و ہند کے سیاسی افق پرنمایاں رہا، یہ عظیم رہنما خان عبدالصمد خان اچک زئی تھے۔
ریاستِ پاکستان کے پہلے سیاسی اسیر بننے والے عبدالصمد خان اچک زئی 07 جولائی 1907ء کو عنایت اللہ کاریز گلستان میں نور محمد خان کے گھر میں پیدا ہوئے۔ بیسویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں “تاجِ برطانیہ” کا افتاب غروب کرنے والوں میں شمار ہونے والے اچک زئی کو پختون اور بلوچ قوم “خان شہید” کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
 ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں گلستان میں حاصل کی اور ساتھ ہی پشتو، عربی، فارسی، فقہ، احادیث اور تفسیر کا مطالعہ کیا۔
عبدالصمد خان اچک زئی کی سیاسی زندگی کی ابتدا اُس وقت ہوئی جب وہ جماعتِ ہشتم کے طالب علم تھے اور انہوں نے تحریکِ خلافت کا حصہ بنتے ہوئے طلبہ کا جلوس نکالا تھا۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی مزاحمتی سیاست کرنے والے عبدالصمد اچک زئی کو بار بار قید و بند کی تکلیفیں برداشت کرنی پڑی۔ اس سلسلہ میں انہیں پہلی بار 1929ء میں گرفتار کیا گیا۔
قارئین! خان شہید نہ صرف اپنی اٹل سیاسی جدوجہد کےلیے مشہور ہیں، بلکہ وہ ایک نڈر صحافی، ماہر لسانیات اور ادیب بھی تھے۔ ان کی سیاسی مہم اس وقت کے کسی بھی دوسرے سیاست دان سے زیادہ منفرد تھی۔ کیوں کہ دوسروں نے شہروں سے دیہات تک سیاست کی اور خان شہید دیہاتی سیاست دیہات سے شہروں تک لے کرگئے۔ غیر منقسم ہندوستان میں تحریکِ آزادی سے لے کر پاکستان میں مارشل لاء کے خلاف جدوجہد تک، اچک زئی نے تقریباً اپنی زندگی کا نصف حصہ سیاسی بنیادوں پر جیل میں گزارا۔ جب وہ جواں تھے، تو ایک سرکاری ایجنٹ نے اُنہیں سرکاری ملازمت کی پیش کش کی، لیکن اُنہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نوکری نہیں، بلکہ آزادی چاہیے۔ وہ نوعمر تھے لیکن قوم سے بے پناہ محبت رکھتے تھے، اس لیے سرکاری ملازمت کے بجائے سرکاری جیل کو ترجیح دی۔

بانی خدائی خدمت گار تحریک خان عبدالغفار خان (باچا خان) اور ڈاکٹر خان شہید کا ایک یادگار تصویر

آپ نے مارچ 1948ء کو خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان اور جی ایم سید کے ساتھ مل کر پاکستان کی پہلی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی کے نام سے ایک اپوزیشن گروپ بنائی تھی جو غیر فرقہ وارانہ، جمہوری اور انسانی حقوق کی بنیاد پر تشکیل دی گئی تھی۔ آپ پاکستانی تاریخ کے وہ پہلے شخصیت ہیں جنہوں نے ایوبی مارشل لاء کی پوری مدت یعنی 14 اکتوبر 1958ء سے لے کر 24 اکتوبر 1968ء تک جیل میں گزاری۔

پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچک زئی، خان شہید کے بڑے صاحب زادے ہیں۔

آپ نے اپنی عملی سیاست کا باقاعدہ آغاز اپنے آبائی گاؤں ہی سے کیا تھا، لیکن 1930ء کو آل انڈیا مسلم کانفرنس کے ممبر بننے پر پورے ہندوستان میں مشہور ہوگئے۔ 1933ء کو جب کانفرنس نے علامہ اقبال کو اپنا چیئرمین مقرر کیا، تو  عبدالصمد خان اچک زئی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر بن گئے اور علامہ اقبال کے ساتھ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور قرارداد کمیٹی میں بطورِ ممبر فرائض انجام دیے۔
1954ء کو جب پہلی بار جیل سے رہا ہوئے، تو اسی سال “برادرِ پشتون” کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ جس کا بنیادی مقصد پاکستان میں منقسم پختون قوم کو متحد کرنا تھا۔ بعد میں مذکورہ پارٹی پاکستان نیشنل پارٹی، پھر نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے ساتھ ضم کی گئی۔ آپ نیشنل عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر 1970ء کو پہلی بار گلستان اور چمن سے صوبائی اسمبلی بلوچستان کے رکن منتخب ہوئے اور اسمبلی کے پہلے اجلاس کی صدارت کی۔ کیوں یہ پہلا اسمبلی اجلاس تھا، اس سے قبل بلوچستان صوبائی اسمبلی نہیں تھی۔
خان عبدالصمد خان اچک زئی، حسن مومندی، بایزید روشن، اخوند درویزہ اور خوش حال خان خٹک کے بعد وہ شخصیت تھے جنہوں نے پشتو زباں کی خطاطی ایجاد کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔
آپ نے اپنی سوانح عمری “زما جوند او جوندون” ایوبی دور میں اسیری کی دوران جیل میں لکھی۔ جس کا ترجمہ ڈاکٹر غلام سرور نے اسلام آباد میں یوکرائن کے سفارت خانے اور آئیویشکو کے سفارت کار کی مدد سے یوکرائنی زباں میں کیا ہے۔
جب 1938ء کو برطانوی پریس ایکٹ کے تحت برطانوی بلوچستان میں پریس کو سرکاری طور پر آزاد کرایا گیا، تو آپ نے پشتو اور اُردو میں “استقلال” کے نام سے ایک اخبار شائع کیا۔ جس میں آپ خود بھی لکھتے تھے۔ لیکن 1950ء کو حکومت نے مذکورہ اخبار پر پابندی عائد کرتے ہوئے عبد الصمد خان اچک زئی کو بھی قید کردیا گیا۔ انہوں نے 1953ء کو پشتو میگزین شائع کرنے کے ساتھ ساتھ “پیغامِ جدید” اور “گلستان” جیسے رسالے بھی شائع کیے۔
اس عظیم شخصیت کو 2 دسمبر 1973ء کو جمال الدین افغانی روڈ پر دستی بم حملے میں رات کے وقت شہید کیا گیا تھا۔ اُس وقت آپ بلوچستان اسمبلی کے ممبر تھے۔ ان کو آبائی گاؤں عنایت اللہ کاریز گلستان میں سپرد خاک کردیا گیا ہے۔
شیئرکریں: