وہ بچپن ہی سے عام بچوں کے مقابلے میں بالکل مختلف مزاج کے حامل تھے۔ محلے اور سکول میں جب ان کے ساتھی شرارتیں کرتے، تو انہیں بہت غصہ آتا مگر اکیلے ہونے کی وجہ سے وہ انہیں روک نہیں سکتے تھے۔
اپنی شریفانہ خُو بُو کی وجہ سے نہ تو اپنے والدین اور نہ کبھی اپنے اساتذہ کے ہاتھوں مار کھائی، اس لیے انہیں اپنے والدین کا غصہ بھی یاد نہیں۔ بچپن میں گاؤں کے روایتی کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے۔ تاہم، پرندوں یا جنگلی جانوروں کا شکار کبھی نہیں کھیلا۔ قصے کہانیاں سننے کے ایسے عادی تھے کہ جب تک دادی اماں سے کہانی نہ سن لیتے نیند نہ آتی۔ فلموں کے اس قدر رسیا کہ ہر فلم تین تین بار دیکھا کرتے اور ان کے گیت یاد کرکے دوستوں کو سناتے۔
کبوتر پالنے کا شوق بھی تھا۔ جوانی میں ایک بار خدائی خدمت گار تحریک کے زیر اہتمام ایک سٹیج ڈراما “کاروان روان دے” میں صحافی کا کردار ادا کیا۔ اس ڈرامے پر حکومت نے مقدمہ چلایا اور یوں ہمیش خلیل کو اس کردار کا بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑا۔
قارئین، موسیقی تو ان کی جان ہے۔ اچھی موسیقی، اچھا کلام اور مترنم آواز سن کر جھومنے لگتے ہیں۔ حسن چاہے جس رنگ اور شکل میں ہو، اسے انسانی زندگی کی حرارت قرار دیتے ہیں۔ جوانی میں خوش شکل ہونے کے باعث جنس مخالف میں مقبول رہے۔
ہمیش خلیل پشتو زبان کے وہ واحد لکھاری ہیں جنہوں نے کسی صلے و ستائش کی پروا کیے بغیر تن تنہا اپنی نوعیت اور انفرادیت کے لحاظ سے پشتو زبان اور ادب کی وہ خدمت کی ہے جو اب تک اس زبان و ادب کی ترقی اور ترویج کے نام پر قائم سرکاری اور غیرسرکاری ادارے بھی نہیں کر سکے۔
اس سلسلے میں انہیں در در کی خاک چھاننا پڑی، بے شمار رت جگوں سے گزرے، اپنا قیمتی وقت اور پیسہ خرچ کیا، یاردوست ان کا مذاق اڑاتے رہے مگر وہ بڑی خاموشی اور ثابت قدمی کے ساتھ پشتو ادب کے موتیوں کی تلاش میں تحقیق کے سمندر میں غوطے لگاتے رہے اور بالآخر اس سے بے شمار قیمتی اور نایاب موتی ڈھونڈ نکال لانے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے پہلی بار پشتو زبان کے بہت سے قدیم نایاب قلمی نسخے دریافت کیے جس کی بنا پر انہیں پشتو ادب کا کولمبس بھی کہا جاتا ہے۔ تحقیق اور تنقید کے حوالے سے ان کی بعض آراء اور نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے تاہم پشتو زبان اور ادب کے لیے ان کی قربانیوں اور خدمات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
انتہائی ہنس مُکھ، لطیف مزاج، ہر عمر کے افراد کے ساتھ ان کے ذوق اور ذہنی سطح کے مطابق بات کرنا ہمیش خلیل سے سیکھنا چاہیے۔ ان کے منہ سے اگر آپ بات بات پر لفظ بابا سننا چاہتے ہو یا ان کے چہرے پر غصے کی سرخی لانا چاہتے ہو تو ذرا ان کے سامنے پشتو زبان اور ادب کی کوئی غلط تاریخ یا کسی شاعر، ادیب کی بے جا تعریف کرکے دیکھیے۔ وہ ہر بات ڈنکے کی چوٹ پر کہنے کے قائل ہیں، کسی کو پسند ہو یا ناپسند، انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں وہ اپنے علم اور تحقیق کی روشنی میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتے رہیں گے۔ وہ خود بھی خندہ پیشانی سے تنقید کا سامنا کرتے ہیں۔ وہ پشتو ادب کی اکیڈمی اور چلتی پھرتی تاریخ کا درجہ رکھتے ہیں۔ افغانستان کے تمام لکھاری انہیں ’’استاد ہمیش خلیل‘‘ کے نام سے لکھتے اور پکارتے ہیں اور تحقیق کے میدان میں ان کے دلائل اور حوالوں کو سند کا درجہ دیتے ہیں۔
ہمیش خلیل 11 اپریل 1930ء کو پشاور کے قریب مشہور گائوں برتہکال میں انذرگل کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق مومند قبیلے کی شاخ مرزا خیل سے ہے۔ پانچ سال کی عمر میں اپنے گائوں کے سکول میں داخل کر دیئے گئے، جماعت ششم پاس کرنے کے بعد اسلامیہ کالجیئٹ سکول پشاور میں داخلہ لیا۔ میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج کا حصہ بنے۔ ایف اے کے طالب علم تھے کہ انہیں ایک ایسی بیماری نے گھیر لیا جس کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکے۔ خرابی صحت کے باعث کالج کو خیرباد کہنا پڑا، کئی مہینوں تک زیرعلاج رہنے کے بعد جب مکمل صحت یاب ہوئے تو پرائیویٹ طور پر بی اے اور پشتو آنرز کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے شاعری کی ابتدا زمانہ طالب علمی سے کی۔
بارہ سال تک ادبی دنیا میں ہمیش گل ہمیش کے نام سے جانے جاتے رہے۔ زمانہ طالب علمی میں ایک میل کی دوڑ میں پہلے نمبر پر آتے، دوڑ کے سالانہ مقابلے میں ایک میل کا فاصلہ چار منٹ میں طے کرکے سابقہ ریکارڈ توڑ دیا جس کے بعد وہ فلائنگ ہارس کے نام سے مشہور ہو گئے۔ وہ کالج کے طالب علم تھے جب انہوں نے اپنی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’نغمہ زار‘‘ کے نام سے 1948ء میں شائع کرایا۔ بعد میں کوآپریٹو سوسائٹی کے دفتر میں ساٹھ روپے ماہوار پر کلرک بھرتی ہو گئے مگر وہاں اکثر بے کار بیٹھنے سے تنگ آکر ملازمت سے استعفیٰ دیا اور پاکستان ایئر فورس میں سول کلرک بھرتی ہوگئے۔
چوں کہ ہمیش خلیل کا اٹھنا بیٹھنا اکثر ان لوگوں کے ساتھ تھا جو قوم پرست تحریک کے سرگرم کارکن تھے جس سے ہمیش خلیل بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ قومی حقوق، وطن پرستی اور ترقی پسندی کے موضوعات پر بحث مباحثوں نے ان کے اندر انقلابی رجحانات پیدا کیے۔ انہوں نے قوم پرستی اور آزادی کے ترانے اور افسانے لکھنے شروع کر دیئے اور ایک سرگرم انقلابی کے طور پر سامنے آئے جس کی وجہ سے وہ حکومت اور ایجنسیوں کے رجسٹر میں ’’خطرناک آدمی‘‘ قرار دیئے گئے اور پہلی بار 1953ء میں گرفتار ہوئے۔ تین مہینوں تک تھانہ نحقئی (پشاور) میں پولیس نے ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا، بعد میں سنٹرل جیل پشاور میں نظربند کیے گئے۔ نظربندی کے خلاف ان کے بھائی عجب گل نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی، عدالت نے مقدمے کی سماعت کے بعد ہمیش خلیل کی رہائی کا حکم جاری کیا مگر اسی عدالت کے احاطے سے دوبارہ گرفتار کیے گئے اور کئی مہینوں تک نظربند رہے۔
اس بار رہائی ملی تو موصوف جیسے ہی جیل کے دروازے سے باہر نکلے تیسری دفعہ گیارہ ایف سی آر کے تحت گرفتار کیے گئے۔ اس بار ایک جرگہ کے تحت جو اسسٹنٹ کمشنر پشاور اور نوشہرہ پر مشتمل تھا بغیر کسی وکیل اور دلیل کے ان پر مقدمہ چلایا گیا اور مقدمے کی سماعت بھی جیل کے اندر واقع کلب میں ہوتی، کئی پیشیاں بھگتنے کے بعد پشاور کے ڈپٹی کمشنر نے انہیں سات سال کی قید بامشقت اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید پانچ سال کی قید کا حکم جاری کیا۔ اس یکطرفہ اور ظالمانہ فیصلے کے خلاف ان کے بھائی نے ایک بار پھر پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور عدالت نے ہمیش خلیل کو بے گناہ قرار دے کر ان کی رہائی کا حکم جاری کر دیا۔
اگرچہ پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اس وقت کی صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی مگر تین ججوں پر مشتمل بینج نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو درست قرار دیا جس کے بعد ہمیش خلیل نے اپنی سرگرمیاں اور بھی تیز کر دیں۔ ملک میں ایوب خان کی آمریت تھی، ہمیش خلیل اپنی انقلابی تقریروں اور تحریروں سے مارشل لاء کی مخالفت کرتے، جس کی وجہ سے انہیں حکومت نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیرعلاج تھے۔ اس بار ہمیش خلیل کے ساتھ ان کے والد اور بھائی کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ہسپتال سے انہیں نوشہرہ منتقل کیا گیا، ایک ہفتے کے بعد انہیں بیڑیاں پہنائی گئیں اور رات کے اندھیرے میں بذریعہ ریل گاڑی لاہور کے شاہی قلعہ روانہ کر دیئے گئے۔ دو مہینوں تک لاہور کے شاہی قلعہ میں پابند سلاسل رہے، تفشیش کے بعد لاہور پولیس نے انہیں دوبارہ پشاور بھیجا اور صوبائی حکومت کو رپورٹ دی کہ ملزم پر لگائے ہوئے الزامات درست نہیں۔ پشاور ایک ہفتہ تک تھانہ نحقئی کی حوالات میں رکھے گئے، بعد میں ضمانت پر رہا کر دیئے گئے۔
مارچ 1957ء کو انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز ہفت روزہ ’’جمہوریت‘‘ پشاور سے بطور مدیر کیا۔ اس وقت تک وہ ہمیش گل کے نام سے جانے جاتے تھے مگر بعد میں خلیل جبران سے بے پناہ عقیدت رکھنے کی وجہ سے اپنے لیے خلیل کا تخلص رکھا۔ ہفت روزہ ’’جمہوریت‘‘ کے بعد ہفت روزہ ’’دوران‘‘ میں مدیر کی حیثیت سے کام شروع کیا اور ساتھ نصراللہ خان نصر کی معاونت سے پشتو زبان کی کتابوں کی اشاعت کے لیے ’’دارالتصنیف‘‘ کے نام سے ایک تحقیقی اور اشاعتی ادارہ بھی قائم کیا۔ بہت کم عرصے میں پہلی بار پشتو زبان کے کلاسیک شعراء کے کلام کو اپنے تحقیقی مقدمات کے ساتھ شائع کیا۔
1958ء میں مارشل لاء لگایا گیا تو ہمیش خلیل کو بھی گرفتار کیا گیا اور وہ راولپنڈی جیل میں نظربند کیے گیے جہاں ان کے ساتھ کاکا جی صنوبر حسین مومند کے علاوہ اجمل خٹک، ارباب سکندر خان خلیل، احمد ندیم قاسمی اور افضل بنگش بھی قید تھے۔ جیل میں روزانہ تاش کھیلتے، احمد ندیم قاسمی اور افضل بنگش کی جوڑی تھی، ایک دفعہ احمد ندیم قاسمی نے تاش میں غلط چال چلی تو ان کے جوڑی دار افضل بنگش نے بہت باتیں سنائیں جس سے قاسمی صاحب طیش میں آئے اور پتے گرا کر اٹھ گئے، بعد میں کاکا جی صنوبر حسین اور ہمیش خلیل نے دونوں میں صلح کرائی۔
راول پنڈی جیل میں چار مہینوں تک رہنے کے بعد انہیں ایک بار پھر لاہور شاہی قلعہ منتقل کیا گیا، قلعہ میں ایک ہفتے تک رکھنے کے بعد انہیں ڈسٹرکٹ جیل لاہور لے گئے، وہاں فیض احمد فیض نے انہیں خوش آمدید کہا اور ازراہ مذاق یہ بھی کہا کہ آپ پختون بڑے بے وفا ہیں کیوں کہ آج آئے ہو اور آج شام کو ہمیں یہاں چھوڑ کر واپس چلے جائو گے۔ شاید فیض صاحب کو کسی نے پہلے سے مطلع کر دیا تھا اور ان کی بات درست ثابت ہوئی کیوں کہ اسی دن شام کو کاکا جی صنوبر حسین مومند اور ہمیش خلیل رہا کر دیئے گئے۔ 1961ء میں جب خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان نے فوجی آمریت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تو ہمیش خلیل بھی اس تحریک کے ایک سرگرم کارکن تھے جس کی وجہ سے وہ ایک بار پھر گرفتار کر لیے گئے۔
حکومت نے ان سے سیاست سے کنارہ کش ہونے کی ضمانت مانگی مگر انہوں نے انکار کر دیا جس کی پاداش میں اپنے دیگر ساتھیوں سمیت تین سال کے لیے سنٹرل جیل مچھ (بلوچستان) بھیجے گئے، جہاں ایک سال گزارنے کے بعد ڈسٹرکٹ جیل جہلم منتقل کر دیئے گئے۔ چند مہینے بعد ڈیرہ اسماعیل خان جیل بھیجے گئے، بعدازاں ہری پور جیل منتقل کیے گئے اور باقی قید یہیں گزاری اور نومبر 1963 ء کو رہا کر دیئے گئے۔ اکتوبر 1969ء میں اپنے والدین کی مرضی سے شادی کی۔ 1972ء میں روزنامہ ’’شہباز‘‘ میں شعبہ اشتہارات کے انچارج کے طور پر کام شروع کیا، جس وقت ’’شہباز‘‘ پر پابندی لگائی گئی تو حکومت کے اس عمل کے خلاف ہمیش خلیل نے پمفلٹ لکھے جس کی پاداش میں انہیں پھر گرفتار ہونا پڑا، ان پر بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا جس میں وہ سرخرو ہوئے اور عدالت نے انہیں بے گناہ قرار دیا۔
1974ء میں پھر گرفتار ہوئے اور ہری پور جیل میں چند مہینوں تک قید تنہائی میں رکھے گئے۔ وہاں سے رہائی کے بعد اردو کے روزنامہ ’’انقلاب‘‘ میں بطور مدیر کام شروع کیا اور چار سال تک روزنامہ ’’انقلاب‘‘ کے مدیر رہے۔ 1979ء میں جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو ہمیش خلیل نے اس کی مخالفت کی اور اپنی سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کی بنا پر پارٹی سے مستعفی ہو گئے۔ انہوں نے افغان جہاد کی حمایت شروع کر دی اور اس مقصد کے لیے ’’باگرام‘‘ کے نام سے ایک روزنامے کا اجرا بھی کیا جس میں افغان جہاد کے مخالفین کے خلاف لکھتے رہے۔
1982ء میں انہیں ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں ریسرچ سپیشلسٹ کے عہدے کی بھی پیش کش ہوئی مگر انہوں نے معذرت کر لی۔ اب تک پشتو کے مختلف رسالوں میں مختلف موضوعات پر ان کے ایک سو پچاس کے قریب مقالے اور تبصرے شائع ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ موصوف نے جو کتابیں تصنیف اور تالیف کی ہیں ان میں دیوان بیدل، دیوان معاذ اللہ خان مومند، دیوان ھجری، دیوان سعید، دیوان حسین، دیوان مرزا خان انصاری، دیوان قنبر علی خان، دیوان کاظم خان شیدا، ’’دیوان عبدالقادر خان خٹک‘‘، ’’دیوان رحمت داوی‘‘، ’’دیوان فدا‘‘، ’’دیوان اشرف خان ھجری (فارسی)‘‘، ’’روکہ خزانہ جلد اول‘‘، ’’ورکہ خزانہ جلد دوم‘‘، ’’پختانہ لیکوال جلد اول‘‘، ’’پختانہ لیکوال جلد دوم‘‘، ’’قصہ شاہ وگدا‘‘، ’’دغرہ گلونہ‘‘، ’’خمخانہ یثرب‘‘، ’’دفکرونو ڈیوے‘‘، ’’داباسین چپے‘‘، ’’نصراللہ خان نصر‘‘، ’’نغمہ زار‘‘، ’’زماسندرے‘‘، ’’چارگل‘‘، ’’خاپونہ او خالونہ‘‘، ’’کاکاجی صنوبرحسین‘‘، ’’تول پارسنگ‘‘، ’’پنجابی ژبہ او ادب‘‘، ’’اخلاقنامہ‘‘، ’’فراق نامہ‘‘، ’’طب نامہ‘‘، ’’بازنامہ‘‘، ’’سوات نامہ‘‘ اور ’’محمد گل خان مومند‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں بچوں کے لیے بھی انہوں نے ’’دوہ شپانہ‘‘، ’’گوارچی‘‘، ’’دنیکئی بدلہ‘‘، ’’خدائے روزی رسان دے‘‘، ’’مومن خان شیرینئی‘‘، ’’آدم خان درخانئی‘‘ اور ’’لوبے‘‘ شامل ہیں۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے پانچ قومی ترانوں پر مبنی کتاب ’’قومی ترانے‘‘ بھی شائع ہو چکی ہے۔
قارئین، ان کی ادبی اور تحقیقی خدمات کے اعتراف میں 2001ء میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ تمغہ حسن کاکردگی سے نوازا۔ اس کے علاوہ دیگر سرکاری اور غیر سرکاری ادبی اور ثقافتی اداروں اور تنظیموں نے بھی انہیں بے شمار اعزازات اور ایوارڈز دیئے ہیں۔
اداکاروں میں اشوک کمار جب کہ شاعروں میں کاظم خان شیدا اور صاحب زادہ فیضی ان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ پیرانہ سالی اور بیماری سے قبل شاپنگ سے اس قدر دلچسپی رکھتے تھے کہ اپنے علاوہ ہمسایوں کے لیے بھی سودا سلف خرید کر لاتے۔ وہ سب سے زیادہ خدا سے ڈرتے ہیں اور موت کو دوسرے جہاں تک کا ایک سفر گردانتے ہیں۔ خوراک میں فرائی گوشت اور پالک کا ساگ ان کا من بھاتا کھاجا ہے۔ پھلوں میں آم شوق سے کھاتے ہیں۔ پشتوکے علاوہ اردو اور فارسی زبان روانی سے لکھ اور بول سکتے ہیں۔ موجودہ سیاست کو جھوٹ، منافقت اور دھوکہ دہی کا نام دیتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کو ایک ایسا نظریاتی اور کامیاب سیاستدان گردانتے ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی دوراندیشی اور قابلیت کے بل بوتے ایک نئی آزاد ریاست پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اسلحہ رکھنے اور چلانے والے سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ انہیں سب سے زیادہ غصہ اس وقت آتا ہے جب کوئی ان کے سامنے جھوٹ بولتا ہو مگر شدید غصے کی حالت میں بھی آج تک منہ سے کوئی نازیبا الفاظ نہیں نکالے۔ گھر میں اپنے بچوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ ان کا رویہ مشفقانہ اور دوستانہ ہے۔
اپنے گھر والوں سے صرف اس بات کے شاکی ہیں کہ وہ انہیں ادبی اور تحقیقی کام کے دوران بعض اوقات غیر ضروری گھریلو معاملات میں الجھا دیتے ہیں۔ جوانی میں بلا کے سگریٹ نوش تھے جسے بعد میں ترک کر دیا۔ سیاحت سے گہری دلچسپی ہے، صوبے کے تمام قابل ذکر مقامات اور علاقوں کے علاوہ اب تک صرف افغانستان کا دورہ کیا ہے۔ قدرتی مناظر میں ڈوبتے سورج کا نظارہ اس لیے پسند ہے کہ اس سے دیکھنے والے کو عروج اور زوال کا سبق ملتا ہے۔ پشاور کو اپنی جان سے پیارا شہر کہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ایک بار پیرس اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ سخاوت کے قائل ہیں اور کنجوسی کو انسانی روگ کا نام دیتے ہیں۔ انہیں موت سے کوئی ڈر نہیں، تاہم پشتو زبان اور ادب کی خدمت کے لیے ابھی بہت سا کام کرنے کے لیے جینا چاہتے ہیں۔ پختون قائدین میں صرف میروئس خان ہوتک بابا کے کردار سے اس لیے متاثر ہیں کہ انہوں نے تاریخ میں پہلی بار ایک آزاد پختون ریاست کی بنیاد رکھی۔ ستاروں، تعویز گنڈوں، پیری فقیری اور دست شناسی پر یقین نہیں رکھتے۔ ادب میں ان روایات اور اقدار کو اپنانے کے قائل ہیں جو روح عصر کا ساتھ دے سکے اور اس جدت کے سخت مخالف ہیں جس کی جڑیں اپنی زمین میں پیوست نہ ہوں۔
قارئین، پشتو زبان و ادب کا یہ درخشاں ستارہ آج یعنی 21 جولائی 2024ء بہ روز اتوار کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے، آمین۔
___________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔