پاکستان میں ایک بار پھر انتخابات کا موسم اپنے عروج پر ہے۔ ان انتخابات میں باقی تمام صورتِ حال تو ویسی ہی ہے، جیسی کہ ہمیشہ ہوتی ہے اور انتخابات کے بعد بھی ویسی ہی رہے گی جیسی کہ ہر انتخابات کے بعد رہتی ہے۔ لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی اہلِ وطن کو ایک بہت دل چسپ اصطلاح ہاتھ لگی ہے۔
یہ اصطلاح “الیکٹ ایبلز” (Electables) کا ہے، جس سے مراد وہ لوگ یا سیاست دان ہیں، جو کسی بھی نظریے، کسی بھی سیاسی جماعت، کسی بھی تصور کے محتاج نہیں ہوتے۔ اگر کسی ملک پر بادشاہت ہو تب بھی، کولونیل دور آئے تب بھی، غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوں تب بھی اور کوئی آمر حکومت بنائے تب بھی، یہ لوگ (الیکٹ ایبلز) اس کا حصہ ہوتے ہیں۔
قارئین، کسی زمانے میں ہم پاکستانی ان لوگوں کو “اشرافیہ” کہتے تھے۔ پھر کچھ سر پھروں نے انہیں “سٹیٹس کو” (Status Qou) کہنا شروع کیا۔ زیادہ بدتمیز لوگوں کو لکھنا پڑھنا آ گیا، تو وہ “لوٹے” کہلانے لگے۔
قارئین، یہ لوگ کسی بھی منشور پر یقین نہیں رکھتے کیوں کہ ان کا اپنا ایک نکاتی منشور ہوتا ہے اور وہ ہے “اقتدار میں رہنا”۔ یہ لوگ، لسانی، قبایلی، گروہی اور برادری کے ووٹ پر کام یاب ہوتے ہیں اور ان کا اقتدار میں جانے کا اصل مقصد بھی اپنے کاروبار، اپنی برادری کےلیے نوکریاں تلاش کرنا، اپنے لوگوں کو کلیدی عہدوں پہ فایز کرانا الغرض ہر وقت اپنے ہی پیٹ پر ہاتھ پھیرنا ہوتا ہے۔
جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے، دو عشرے پہلے جب تحریکِ انصاف کی داغ بیل پڑی، تو ان کا نعرہ تبدیلی، انقلاب اور سونامی تھا۔ پاکستانی آبادی چوں کہ اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، تو یہ جوان بھی تبدیلی، انقلاب اور سونامی کے رومانس میں مبتلا ہو کر جوق در جوق اس پارٹی میں شامل ہوتے گئے۔ یہ دیکھ کر راقم بھی خوش ہوا کہ کم از کم جوان اس ملک کو اپنا سمجھتے ہوئے سیاسی عمل میں حصہ تو لے رہے ہیں اور ممکن ہے ان کے جوان خون کی تپش سے اس ارضِ پاک کے عارض و لب و گیسو بھی دمک اٹھیں اور اس کی بیمار جوانی کو شفا ہوجائے۔
مگر ہوا وہی جو وطنِ عزیز پاکستان کے ہر انقلاب کے ساتھ ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے تحریکِ انصاف کو اپنے لہو سے سینچا تھا، انہیں مقامی سطح پہ بھگتا کے وہی چہرے جو اس میوزیکل چئیر میں بار بار نظر آتے ہیں، اب کی بار تحریکِ انصاف کے رنگ میں رنگے نظر آنے لگے۔ سیاسی لانڈری میں ڈرائی کلین ہونے کے بعد یہ پرانی بد بودار پوستینیں، پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں سے نکل نکل کر پی ٹی آئی میں ایسے جمع ہو رہے تھے جیسے تازہ لاش پہ سردوگرم چشیدہ گدھ۔
قارئین، 2018ء کے انتخابات (سلیکشن) کی طرح 2024ء کے انتخابات کے موسم میں بھی ہمیں ایک نئی اصطلاح ملی ہے۔ لہذا آیندہ اپنے علاقے کے لوٹوں کو “الیکٹ ایبلز” لکھیں اور پُکاریں، ورنہ آپ کے دروازے پہ محکمۂ زراعت کی جیپ آگئی، تو ہم بالکل ذمہ دار نہ ہوں گے۔
____________________________
قارئین، ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔