خیبر پختون خوا کے قبائلی علاقے شمالی وزیرِستان کے تحصیل “دوسلی” کے “اسد خیل” نامی گاؤں میں ساول خان کے ہاں پیدا ہونے والے حضرت نعیم جو پختونوں اور بلوچوں میں “گلہ من وزیر” کے نام سے مشہور تھے، اپنی شاعری کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان میں مقیم پختون سمیت دیگر محکوم قوموں کے درد اور احساسات کی ترجمانی کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کی اُن کی انقلابی شاعری لوگوں میں کافی مقبول تھی۔ اس کے علاوہ اُن کی مقبولیت کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور احمد پشتین کے قریبی ساتھی بھی تھے۔ پی ٹی ایم جلسوں میں اُن کی شاعری کی وجہ سے لوگوں میں ایک جوش اور جذبہ پیدا ہوتا تھا۔
گلہ من کا ہر شکوہ مظلوم قوم کا ترجمان تھا۔ اپنے ویران گاؤں سے اسلام آباد کی طرف دیکھنے والے اس شخص کو ریاست سے کچھ شکایتیں تھیں۔ اس بات کی شکایت تھی کہ ہمارے وسائل پر ہمارا اختیار کیوں نہیں؟ جنگ کا کاروبار ہر بار ہماری یعنی پشتون سرزمین پر کیوں گرم کیا جاتا ہے؟ اس بات کی شکایت کہ میرے لوگ خوشی سے ہر بار اس پرائے جنگ کا ایندھن کیوں بن جاتے ہیں؟ ان شکایات کی وجہ سے اُن پر 07 جولائی کی شام کو شہرِ اقتدار جیسے نام نہاد “فول پروف سیکورٹی سٹی” کے مرکز میں دن دہاڑے دس سے بارہ مسلح اور ڈنڈا بردار افراد نے قاتلانہ حملہ کرتے ہوئے اُنھیں شدید زخمی کیا۔ واقعے کے بعد اُن کو قریبی ہسپتال لے جایا گیا، جہاں سے پھر اُنھیں پمز ہسپتال اسلام آباد منتقل کیا گیا۔ تین دن تک کوما میں رہنے کے بعد بالٓاخر 11 جولائی کی درمیانی شب گلہ من وزیر کی سانسیں رُک گئیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئے۔
قارئین، آئیے، موصوف کی زندگی کا مختصر خلاصہ بی بی سی (اُردو) کی جانب سے بنائے گئے گرافکس میں دیکھتے ہیں: