ایمل ولی خان کو عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر منتخب ہوئے ایک سال ہوگیا ہے۔ روایت کے مطابق پارٹی کارکردگی کا سالانہ رپورٹ کا جائزہ اور مستقبل کےلیے لائحہ عمل پر غور معمول کی بات ہے۔ جمہوری روایات پر عمل کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی ہمشیہ اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹ منتخب عہدے داران، متعلقہ کمیٹیوں اور عوام کے سامنے پیش کرتی ہے، اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
کوئی شک نہیں کہ اب سیاسی جماعتیں ملک کے مختلف حصوں کے لوگوں کو جوڑ کر قومی ریاست کو برقرار رکھنے میں سب سے اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ پاکستان بھی اس عمل سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ایک وفاقی جمہوریت ہونے کے ناطے چھوٹے صوبوں کے حقوق کی حمایت سیاسی جماعتوں کا کردار اہم بنا دیتی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی 1910ء سے شروع ہونے والے تاریخی عمل سے لے کر آج تک تسلسل کے ساتھ پختونوں کی شناخت، اُن کی خواہشات، ایک بہتر مستقبل اور قومی حقوق کے خوابوں کا اظہار ہے۔
باچا خان کی زندگی، جدوجہد اور تعلیمات سے راہ نمائی لینے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی دعوے دار عوامی نیشنل پارٹی ہر آزادی اور عدل وانصاف کے حصول کےلیے، امن، عدم تشدد، لامتناہی اور سخت جد و جہد پر یقین رکھتی ہے، جو ہر طرح کی ناانصافی، جبر اور استحصال کے خلاف ہے۔ اِن ہی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی ہمیشہ آئین کی بالادستی، سویلین بالادستی اور وفاق کےلیے کھڑی رہی۔ تاہم آج آزادی، وفاقیت اور قومی حقوق کےلیے نئے چیلنجز سامنے آئے ہیں۔
اس پسِ منظر میں افغانستان میں امن کے چیلنجوں کے باوجود 40 سالہ طویل ترین تنازع جس نے موت، تباہی، بے گھر ہونے، قبائلی علاقوں میں انضمام، 18 ویں آئینی ترمیم اور وفاق کو نقصان پہنچایا اور پارٹی کے قومی اور صوبائی اسمبلی میں معمولی موجودگی کو جنم دیا، جس نے صوبائی صدر کا کام انتہائی اہم اور مظبوط بنا دیا ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ2018ء کے عام انتخابات میں پارٹی کی مایوس کُن کارکردگی کے بعد مایوسی، سُستی، اور منشتر ہونا واضح طور پر غالب رہا۔ مذکورہ وجوہات کی بناء پر کھوئے ہوئے جذبے کو بحال کرنا ایک مشکل امر رہا ہے۔ ایمل ولی خان کے انتخاب پر یہ سوال اٹھائے جارہے تھے کہ کیا وہ پارٹی کے جہاز کو شورش زدہ پانیوں سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟
قائد کی صلاحیتوں اور خصوصیات کا ہمیشہ بحران میں آزمایا جاتا ہے۔ اِن خصوصیات کا مظاہرہ اُن کو لوگوں میں پسند یدہ بناتا ہے۔ قائدین ہمیشہ تاریخ کا احساس رکھتے ہیں اور بعض اوقات پارٹی کے وسیع تر مفاد میں غیر مقبول فیصلے کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ متحرک، پختہ یقین، ہمت اور عزم کے ساتھ جہاز کو بہ حفاظت ساحل پر لے جاتے ہیں۔
ایمل ولی خان خاموش رہے اور اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ عمل الفاظ سے زیادہ بااثر ہوتا ہے، نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور کارکردگی کی بناء پر اپنے ناقدین کو غلط ثابت کردیا۔ وہ اپنے منصوبوں کو سامنے رکھتے ہوئے باچا خان کے فلسفہ عدم تشدد، امن، اتحاد، قومی جمہوریت اور یکسانیت کے پیغام کے ساتھ عظیم تاریخی اور سیاسی میراث کے پیغامات کو نہ صر ف خیبر پختون خوا بلکہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے کونے کونے میں لے کر گیا۔ منظم حکمت عملی اور ہر عہدے دار کو مخصوص وقت کے ساتھ ذمہ داریاں سونپنے سے اُنہوں نے پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔
اُنہوں نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ معمول کی سرگرمیوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ نتائج کی بنیاد پر ہر کسی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے ساتھ اُنہوں نے نظم وضبط کے متعلق یہ واضح کیا کہ کوئی بھی پارٹی کے دستور سے بالاتر نہیں ہے۔ منظم اور مضبوط حکمت عملی کے تحت اُنہوں نے پارٹی کے کم زور علاقوں اور غیر فعال کارکنوں کی نشاندہی کرنے کے بعد اُن اضلاع کا دورہ کرکے وہاں پر بڑے جلسے کیے اور غیر فعال کارکنوں کو بھی متحرک بنایا۔
سابق وزیر فرید طوفان، سابق ایم این اے اشتیاق اقبال خان اور دیگر کو پارٹی میں واپس لایا گیا۔ اسی طرح سابق ایم پی اے یاسین خلیل، صاحب گل، ڈاکٹر عمر دراز اور دیگر جیسے سیاسی قدآوروں کی شمولیت پارٹی مقبولیت کے بڑھتے ہوئے گراف کی ثبوت ہے۔ دورِ حاضر میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت کو بھانپتے ہوئے اُنہوں نے نہ صرف ایک میڈیا سیل کا اہتمام کیا، بلکہ 1996ء سے بند روزنامہ شہباز کی اشاعت بھی دوبارہ شروع کر دی۔ مختصر وقت میں باچا خان ٹرسٹ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اُنہوں نے 36 کتب کی اشاعت کی۔ باچاخان اور ولی خان کی برسی کے موقع پر صوبے کے چار زونوں میں 10 دن کے جلسوں، ثقافتی شوز، سیمینارز، پینٹنگز اور کتب کی نمائشوں کو موزوں انداز میں پیش کرنا پارٹی کی خصوصیت تھی۔
اس کے علاوہ اُنہوں نے باقاعدگی سے صوبے میں مطالعاتی سرکلرز کے انعقاد کی حوصلہ افزائی کی ہے، جس نے نوجوانوں کی دانشوری کو تقویت بخشی ہے۔ پختون خطے کو درپیش مسائل کے پُرامن حل کےلیے ایک اہم جماعت کے طور پر تمام پختون آوازوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے ارادے سے اُنہوں نے نہ صرف ایک قومی جرگہ منعقد کیا، بلکہ ضم قبائلی علاقوں کے معاملات پرتمام جماعتوں کو بھی اکٹھا کیا۔ آزادی صحافت، جمہوریت، قومی حقوق اور مہنگائی جیسے معاملات پر بھی اُنہوں نے جلسوں جلوسوں اور سیمیناروں کا انعقاد کیا۔
نظم و ضبط کے بغیر ہم آہنگی حاصل کرنا اور کارکنان کا متعدد مقاصد پر کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جتنا بھی بڑا ہدف ہو اس کےلیے اتنے ہی ذیادہ سخت نظم و ضبط کا ہونا ضروری ہے۔ قائد وہ ہے جو اپنی صفوں میں نظم و ضبط برقرار رکھنے اور عوامی مقبولیت کی قیمت پر بھی سخت فیصلے کرنے کے اہل ہو۔ جماعتی نظم و ضبط برقرار رکھنے کےلیے ہمت اور یقین کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُنہوں نے کارکنوں کے ساتھ بڑے بڑے ناموں کو بھی پارٹی سے نکالا۔ جس کی ایک مثال پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن میں نظم و ضبط کے معاملے پر صدر اور جنرل سکریٹری کو ہٹانا بھی ہے۔ صوبائی صدر کی حیثیت سے اپنے پہلے سال کے دوران اُن کی سرگرمیوں سے ثابت ہوا ہے کہ اُنہیں تاریخی تسلسل اور عوامی توقعات کا بھرپور احساس ہے، اور وفاقی طرز جمہوریت پر یقین ہے۔
اپنی سخت محنت، جوش اور ولولہ سے آج پارٹی ایک بار پھر متحرک اور عوام بالخصوص نوجوانوں کی امنگوں کا اظہار کررہی ہے۔ درحقیقت، وہ باچا خان کی میراث کے لباس کو پہننے کے لیے صحیح وارث ہیں۔
______________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: