آخر کار علی وزیر نے پختون تحفظ مومنٹ (پی ٹی ایم) کی ممبر بننے کا دانش مندانہ فیصلہ کر ہی لیا۔ جس سے پی ٹی ایم مزید مظبوط ہوگئی ہے۔ پی ٹی ایم جب وجود میں آئی، تو محسن داوڑ، علی وزیر اور منظور پشتین کئی دوسرے نئے چہروں سمیت ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر قوم کے سامنے آئے۔ محسن داوڑ کو اپنے علاقے سے باہر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی وجہ سے جو شناخت ملی تھی، اس سے زیادہ اس کے پاس کوئی سیاسی اثاثہ نہیں تھا۔ علی وزیر اپنے علاقے کے سب سے بڑے قبیلے کے نامور تھے اور خون خوار دور میں بے پناہ مزاحمت اور نقصانات کے باوجود اپنا مورچہ نہ چھوڑنے کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ منظور پشتین سب سے زیادہ کم مایہ سیاسی پہچان کے مالک تھے، لیکن اپنے حوصلے، مزاحمت اور ناقابلِ سمجھوتا وژن کی وجہ سے راتوں رات کسی “پاپ سٹار” کی طرح چھا گئے۔ یہ جملہ اس پر درست آتا ہے کہ وہ آیا، اس نے دیکھا اور وہ چھا کر آج تک ڈٹا ہوا ہے۔ ان نئے سیاسی چہروں میں صرف منظور محسود اپنا سفر منظور پشتین بن کر جاری رکھا ہوا ہے۔
محسن داوڑ نے علی وزیر کی قید و بند کے دوران میں ایک ایسا قدم اٹھایا جس کی وجہ سے تحریک کچھ وقت کے لیے بہت کنفیوزن کا شکار بنا رہا۔ اس دور میں تحریک کے کارکنان کہا کرتے تھے کہ “ووٹ محسن کا اور حمایت منظور کی”۔ دوسری طرف اپنی چیمپئن پوزیشن کی وجہ سے اگرچہ علی وزیر میدان میں منظور پشتین کے شانہ بشانہ رہے لیکن پارلیمانی سیاست کے میدان خار زار میں اتر کر جیل خانے کے حوالے کر دیا گیا۔ اگر وہ کمپرومائز ہوجاتا، تو اس کے لیے محسن داوڑ سے زیادہ سپیس پیدا کیا جاتا۔ لیکن وہ تھکا دینے والی جنگ جیت کر بالآخر وہاں پر واپس پہنچا جہاں سے اس کی سیاسی خمیر اٹھائی گئی تھی۔
قارئین، گذشتہ انتخابات کے نتائج بڑے کیلکولیٹڈ اور ترتیب شدہ تھے۔ اس کے آگے لمبا سفر اور پیچھے لمبی پلاننگ ہے۔ پختون قوم پرستی کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کے فیصلے ہوچکے ہیں۔ اس لیے پختون قوم پرستی کے بڑے بڑے چیمپئنز کو باوجود بڑی کام یابیوں کے صرف ایک ایک سیٹ لینے دیا گیا۔ اگرچہ ان انتخابات میں صرف ایک سیٹ پر چھوڑے جانے والے محمود خان اچک زئی اسی ایک سیٹ کے بل بوتے پر بہت بڑی مصیبت کھڑی کرنے اور وہ منصوبے ناکام بنانے میں جتے ہوئے ہیں۔
بعض اوقات ساری منصوبہ بندی کرنے کے باوجود نتائج حسب خواہش نہیں نکلتے اور ہر پروڈکشن کے ساتھ بائی پروڈکٹ بھی نکلتی ہے۔ محسن داوڑ کو انتخابات میں کام یاب نہیں ہونے دیا گیا۔ بلکہ تیزی دکھانے کی صورت اسے ہسپتال میں بھی وقت گزارنا پڑا۔ علی وزیر کی پچھلی پارلیمانی مزاحمت کو دیکھتے ہوئے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ دوبارہ وہاں کا ممبر بنتا۔ تیسرے ابھرتے ہوئے سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے علم بردار عالم زیب محسود بھی اپنی پہلی پارلیمانی کوشش میں مایوسی سے دوچار ہوگیا۔ وزیرستان کی آزاد قبائیلی فطرت کو دیکھنے کے بعد منظور پشتین، ان سابقہ اور حالیہ ساتھیوں کے بدل جانے سے اسٹیبلشمنٹ شاید مایوس ہوگئی ہے، اس لیے ان کے ساتھ مزید چانسز نہیں لیے گئے۔
پارلیمانی سیاست میں قبائلی نوجوانوں کی اس “ناکامی” نے منظور پشتین اور پی ٹی ایم کے حق میں بہت اچھا ماحول پیدا کیا جو جوان پی ٹی ایم میں یہ سوچ کر موجود ہیں، کہ کوئی مناسب موقع ملے گا، تو پارلیمانی سیاست میں قسمت آزمائی کریں گے۔ اس الیکشن نے ان کی کنفیوژن ختم کردی۔ محسن داوڑ کی حالت دیکھ کر سب سمجھ گئے ہیں، کہ وقتی طور پر جتنی بھی اہمیت دی جائے، لیکن اپنے ایجنڈے پر رہوں گے، تو مستقبل میں کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ دوسرا یہ کہ الگ پارٹی نہیں بناؤں گے اور منظور پشتین اور پی ٹی ایم کے ساتھ تعلق نہیں توڑوں گے، تو پارلیمان کے ممبر ہونے کے باوجود علی وزیر کی طرح زیادہ وقت جیل میں گزاریں گے۔ اس کے بعد جو کوئی بھی پی ٹی ایم کو یہ سوچ کر جوائن کرے گا کہ آگے جاکر کہیں پر اہمیت ملے گی، ان طالع آزماؤں کو بھی گزشتہ انتخابات نے احساس دلادیا کہ پی ٹی ایم سے نکلنے کے بعد کہیں سے عزت نہیں ملے گی۔
میری نظر میں سیاست شدید مایوسی میں ممکنات کا فن ہے۔ محسن کبھی واپس پی ٹی ایم میں آسکتا ہے، یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اس کی ہم دردیاں پی ٹی ایم کے ساتھ ہوں گی۔ کیوں کہ یہی ہم دردیاں اس کے لیے بھی حمایت پیدا کرتی ہیں۔ علی وزیر کو پارلیمان سے روک کر پی ٹی ایم کا حصہ بنایا گیا اور یہی کچھ عالم زیب کی ناکامی کرے گا۔ یہ سب اسی پلاننگ کے بائی پراڈکٹ ہیں جو بہت سوچ سمجھ کر کی گئی تھی کہ اس الیکشن میں پختون قوم پرست کو بیچ و بن سے اکھاڑنا ہے۔ وزیرستان کی حد تک حاصل کردہ آسان سبق یہ ہے کہ پی ٹی ایم میں رہوں گے، تو اپنی جگہ ٹکے ہوئے چٹان کی طرح وزن اور اہمیت رکھوں گے۔
آج گل کچ سے لے کر چترال، ہزارہ اور دریائے سندھ کے کناروں تک، قوم پرست سیاست محض کاغذی ممبر شپ تک وجود رکھتی ہے۔ منظور پشتین کی ہمت اور دانش اس خلاء کو پر کرسکتی ہے۔ اگر وہ باریک بینی سے کی گئی پلاننگ کے ساتھ اس خلا میں موجود آزاد پارٹیکلز کو ایک نیوکلیئس کی طرح اکٹھا کرنے کی کوشش کریں۔ پی ٹی ایم اس علاقے کی واحد متحرک اور مظبوط تنظیم بن سکتی ہے۔ کیوں کہ پختون خوا ملی عوامی پارٹی نے کبھی اس خطے میں اپنی پارٹی اور بیانیے کو مقبول بنانے کی کوئی ٹھوس کوشش مدت ہوئی نہیں کی ہے۔
_________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: